ہمارا سب سے بڑامسئلہ

کبھی کبھی اہلِ حَکم کی بے حسی سمندرسے زیادہ عمیق اور وقت، موت اور زندگی سے زیادہ عجیب ہوتی ہے۔ انہیں ایک طرف وہ روح پرورآوازیں سنائی دیتی ہیں جو فضا کی رگوں میں نبض بن کر دھڑکتی ہیں اور تمام کائنات پر وجد طاری کر دیتی ہیں جبکہ دوسری جانب ایسی ہیجان آمیز چیخیں ان کی سماعتوں میں جاتی ہیں جو دل کے نہاں خانوں کو بھی سُن کر دیتی ہیں۔ حکمران کبھی چیخوں پر کان نہیں دھرتے، وہ صرف سریلی آوازوں کا تعاقب کرتے ہیں۔ انہیں ''سب اچھا ہے‘‘ کا راگ سب سے زیادہ بھاتا ہے۔ اگر کبھی عوام کی آہ و بکا اور چیخ و پکار بڑھ جائے تو قندِ سکوت پلا دیا جاتا ہے۔ ہمارا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے حکمرانوں کو آج تک یہی معلوم نہیں ہو سکا کہ ہمارا سب سے بڑا مسئلہ کیا ہے؟ عمران خان صاحب سمجھتے ہیں کہ اس وقت تمام مسائل کی جڑ نئے انتخابات کا نہ ہونا ہے۔ انہیں اس بات کی فکر ہی نہیں کہ ملک کا ایک چوتھائی حصہ اور تین کروڑ سے زائد افراد سیلاب سے بے حال ہو چکے ہیں، معیشت آخری سانسیں لے رہی ہے کیونکہ آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی بھی تاحال بے سود ثابت ہوئی ہے۔ دوسری جانب شہباز حکومت کو سیاسی مخالفین کا ناطقہ بند کرنے ہی سے فرصت نہیں ہے۔ کبھی سیاسی مخالفین پر ایف آئی آرز کاٹی جاتی ہیں اور کبھی ریفرنسز دائر کیے جاتے ہیں۔ کیا حکومت کا مینڈیٹ صرف یہی ہے؟ کیا مخالفین کو دیوار سے لگانے سے عوام کے مصائب کم ہو جائیں گے؟ کیا سیاسی درجہ حرارت بڑھانے سے ڈالر کی اڑان رک جائے گی؟
سابق وزیراعظم عمران خان صاحب چند روز قبل ایک پریس کانفرنس میں فرما رہے تھے ''ستمبر میں آر یا پار ہو جائے گا، جلد اسلام آباد کی کال دوں گا اور پورا ملک وہاں اُمڈ آئے گا، پھر وفاقی حکومت عوام کے سیلاب کا سامنا نہیں کر سکے گی‘‘۔ جبکہ ایک دوسری پریس ٹاک میں وہ معیشت کی تباہ کن صورت حال پر رنجیدہ ہوتے ہوئے نظر آ رہے تھے۔ ان کی باتیں سن کر لگ رہا تھا کہ انہیں اقتدار سے دور ہو کر ملکی معیشت کی فکر ستا رہی ہے حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ معیشت کو جس نہج پر انہوں نے چھوڑا تھا‘ وہ مقام قابل فخر ہرگز نہیں تھا۔ انہوں نے فرمایا کہ ان کے دور میں معیشت چھ فیصد کی شرح سے ترقی کر رہی تھی اور شرحِ ترقی آج منفی میں چلی گئی ہے۔ سابق حکومت میں مہنگائی اٹھارہ فیصد پر تھی اور شہباز حکومت نے اسے چالیس فیصد سے زائد کر دیا ہے۔ خان صاحب مگر یہ بتانا بھول گئے کہ انہوں نے اپنے آخری سال میں ساڑھے سترہ ارب ڈالر کا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ چھوڑا تھا، بیس ارب ڈالر سے زیادہ کی درآمد ات تھیں جس سے تجارتی خسارہ تاریخ میں پہلی بارچھپن ارب ڈالر کی سطح پر پہنچ گیا جبکہ بجٹ خسارہ باون ہزار ارب روپے سے زائد تھا۔ جب ہر شعبے میں خسارے اس قدر زیادہ ہوں گے تو کون سی چھ فیصد کی ترقی اور کیسی خوش حالی؟ کوئی خان صاحب سے پوچھے کہ ادھار کے پیسوں سے درآمدات بڑھا کر آپ حقیقی معنوں میں کیسے معاشی ترقی حاصل کر سکتے ہیں؟ معیشت کے ساتھ جو چکر اُن کے دورِ حکومت میں چلایا گیا تھا‘ بہت سے ماہرِ معاشیات اسے مصنوعی ترقی کا نام دیتے ہیں، جو کسی طور پر بھی پائیدار نہیں ہوتی۔ جہاں تک بات مہنگائی کی ہے‘ تو اس حوالے سے ساری سیاسی جماعتیں برابر کی شریک ہیں۔ مہنگائی کے اس دفتر میں جس صفحے پر شہباز حکومت کا جرم درج ہے‘ وہیں اس سے قبل تحریک انصاف کے دور کے باب بھی رقم کیے گئے ہیں۔ یادرکھیں! پاکستان جیسے ممالک کی معیشت غریب کی جھونپڑی جیسی نہیں ہوتی کہ ہوا کے ایک جھونکے سے اڑ جائے۔ معیشت کا آج جو حال ہے‘ وہ برسوں کی نااہلی اور غفلت کا نتیجہ ہے۔ خان صاحب کو آج پٹرول کی قیمتوں کی فکر کھائے جا رہی ہے‘ کاش یہ فکر تب بھی کی ہوتی جب عالمی منڈی میں پیڑول بہت سستا تھا اور حکومت پٹرول پر فی لٹر پچاس روپے سے زائد ٹیکس عوام سے وصول کر رہی تھی۔ کاش! انہیں ملکی معیشت کی فکر تب ہوتی جب اپنی حکومت کو ہاتھ سے نکلتا دیکھ کر پٹرول، ڈیزل اور بجلی کی قیمتوں میں کمی کر دی گئی تھی جس سے معیشت کو ماہانہ سو ارب کا نقصان ہوا۔ کاش! خان صاحب کو ڈالر کا خیال تب ہوتا جب وہ آئی ایم ایف سے ایک ارب ڈالر کی قسط لینے کے بعد کیے گئے معاہدہ کو توڑ رہے تھے۔ اگر آئی ایم ایف سے معاہدے میں تعطل نہ آتا تو شاید آج ڈالر ایک سو اسّی روپے سے نیچے ہوتا۔ کیا ہی اچھا ہو کہ خان صاحب حالات کی نزاکت کو سمجھنے کی کوشش کریں اور الزام تراشی کی سیاست ترک کر کے عوام کو درپیش اصل مسائل کو حل کرنے کی کوشش کریں۔ ان کے پاس چار حکومتیں (پنجاب، کے پی، آزاد کشمیر، جی بی) ہیں۔ وہ چاہیں تو بہت کچھ کر سکتے ہیں، وہ اتنے بے بس نہیں ہیں‘ جتنا وہ خود کو ظاہر کر رہے ہیں۔
چیئرمین تحریک انصاف کو اس بات کا ادراک ہے کہ اس وقت ملک میں سیاسی عدم استحکام اپنی حدوں کو چھو رہا ہے جس کے باعث معاشی زبوں حالی بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ وہ نئے انتخابات کے خواہاں ہیں اور اس مقصد کی تکمیل کے لیے ہر حد عبور کرنا چاہتے ہیں۔ وہ اسی مہینے اسلام آباد کی طرف ایک مارچ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ میں سمجھنے سے قاصر ہوں کہ ایک طرف وہ معاشی حالت پر فکرمند دکھائی دیتے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ ملک میں سیاسی عدم استحکام کو بڑھاوا بھی دینا چاہتے ہیں۔ یقینا ان کے علم میں ہو گا کہ اگر اسلام آباد جا کر حکومت کو گرانے کی سعی کی گئی تو اس کے معیشت پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟ پہلے سے خراب معاشی حالات مزید بگڑ جائیں گے اور غریب کا چولہا مکمل بند ہو جائے گا۔ نجانے وہ کیوں اس زعم کا شکار ہیں کہ اصل مینڈیٹ ان کے پاس ہے اور اہم حکومتی فیصلوں کا اختیار بھی انہی کے پاس ہونا چاہیے۔ وہ اگر وزیراعظم نہیں رہے تو کوئی دوسرا بھی اس مسند پر براجمان نہیں ہو سکتا۔ وہ یہ بھی کہتے رہے ہیں اور اس پر اصرار بھی کرتے ہیں کہ وہی حق پر ہیں اوران کا ساتھ دینا ضروری ہے۔ آپ خود فیصلہ کریں کہ ملک میں سیاسی عدم استحکام کس وجہ سے ہے؟ بار بار وفاق کو کون متزلزل کر رہا ہے؟ اداروں پر الزام تراشی کون کر رہا ہے؟اس بات میں کیا شبہ ہے کہ عمران خان کی مقبولیت اس وقت دوچند ہو چکی ہے اور سیاسی تجزیہ کار ان کے الیکشن جیتنے کی پیش گوئی بھی کر رہے ہیں مگر یہ تو تب ہو گا جب الیکشن ہوں گے اور آئینی طور پر اس اسمبلی کی مدت میں ابھی لگ بھگ دس‘ گیارہ ماہ باقی ہیں۔ اس طرح الیکشن تو اگلے سال ہی ہوں گے تو پھر کیوں بلاوجہ زور زبردستی کی جا رہی ہے؟ پنجاب، کے پی، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں تحریک انصاف کی حکومتیں ہیں‘ جبکہ بلوچستان میں وہ اتحادی حکومت کاحصہ ہے۔ صرف وفاقی میں اس کی حکومت نہیں ہے‘ محض اس ایک حکومت کے لیے‘ جسے وہ طنزاً ''چند تھانوں کی حکومت‘‘ کہتی ہے‘ ملک بھر میں انتخابات کرا دیے جائیں۔ انتخابات کے لیے اگلے سال کا انتظار کیوں نہیں کیا جا رہا؟
میرے نزدیک اس وقت ملک کا سب سے بڑا مسئلہ معیشت ہے نہ مہنگائی، سیاسی عدم استحکام ہے نہ سیلاب بلکہ عمران خان کی جلد از جلد وزیراعظم بننے کی آرزو ملک کو ایک گرداب کے حوالے کیے ہوئے ہے۔ اگر اس خواہش کو نکال دیا جاتا تو ملکی حالات یکسر مختلف ہوتے۔ پوری قوم سیاسی طور پر تقسیم نہ ہوتی اور ہماری ساری توجہ سیلاب پر ہوتی۔ سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں تباہی ہی تباہی ہے اور حکمرانوں کی جانب سے غفلت ہی غفلت۔ یہ اتنے غافل ہیں کہ انہیں اندازہ ہی نہیں کہ سیلاب سے جو لگ بھگ تیس ارب ڈالر کا نقصان ہو چکا ہے‘ اس کا ازالہ کیسے ہو گا۔ ابتدائی تخمینوں کے مطابق صرف سندھ میں 19 لاکھ ٹن چاول ضائع ہوئے ہیں جبکہ گنے کی 88 اور کپاس کی 61 فیصد فصلیںخراب ہوئی ہیں۔ محض فصلوں کی تباہی سے صرف سندھ میں معیشت کو 16 ارب ڈالر سے زائد کا نقصان ہوا ہے۔ ملک بھر میں سیلاب سے لاکھوں مویشی ہلاک ہوئے ہیں اور لگ بھگ چار ارب ڈالر کا نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ سیلاب کے باعث تقریباً 180 ارب روپے کے منصوبے مکمل نہیں ہو سکیں گے جس سے چھ لاکھ سے زائد افراد بیروزگار ہو جائیں گے۔ کتنے دکھ کی بات ہے کہ اتنی زیادہ تباہی کے باوجو د ہمارے سیاستدان ٹس سے مس نہیں ہو رہے اور انہوں نے ملک کو مسائل کی دلدل بنا دیا ہے۔ کا ش! انہیں احساس ہو کہ اور بھی دکھ ہیں زمانے میں حصولِ حکومت کے سوا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں