سیاست دانوں کا امتحان

انوری بارہوریں صدی کا مشہور فارسی شاعر تھا۔ ایک دن بازار میں چہل قدمی کر رہا تھا کہ اس کی نظر ایک مجمع پر پڑی۔ اس نے قریب جا کر دیکھا تو ایک شخص انوری ہی کی شاعری بہ آوازِ بلند سنا رہا تھا اور لوگ واہ واہ کر رہے تھے۔ انوری یہ منظر دیکھ کربہت خوش ہوا اور حیران بھی۔ خوش اس لیے کہ اس کی شاعری سن کر لوگ محظوظ ہو رہے تھے اور حیرانی اس کو سنانے والے کے اعتماد پر تھی۔ کچھ دیر بعد لوگوں نے پیسے پھینکے اور چلے گئے۔ شاعری سنانے والا شخص پیسے اکٹھے کرنے لگا تو انوری اس کے پاس چلا گیا اور پوچھا: اتنی کمال شاعری کس کی ہے؟ اس شخص نے جواب دیا: انوری کی۔ یہ سن کر انوری کھل اُٹھا اور دوبارہ گویا ہوا: کیا تم انوری کو جانتے ہو؟ اس شخص نے نظراٹھا کر دیکھا اور کہا: میں ہی انوری ہوں۔ یہ سن کر انوری حیرت زدہ رہ گیا اور قدرے غصے سے بولا: میں نے شاعری چور تو بہت دیکھے ہیں مگر شاعر چور پہلی بار دیکھ رہا ہوں۔
گزشتہ دو ماہ میں جب بھی آرمی چیف کی تعیناتی سے متعلق عمران خان کے بیانات سنے یا خان صاحب کے مطالبات کے بعد وزیراعظم شہباز شریف کو تقریر کرتے دیکھا تو مذکورہ واقعہ میرے ذہن میں تازہ ہو گیا۔ وزیراعظم صاحب دل ہی دل میں سوچتے ہوں گے کہ اختیار میرا ہے مگر نجانے کیوں عمران خان اسے استعمال کرنے کے خواہشمند ہیں۔ آئین نے آرمی چیف کی تعیناتی کی ذمہ داری ان کے کندھوں پر ڈالی مگر نجانے کیوں تحریک انصاف کے چیئرمین یہ ماننے کو تیار ہی نہیں تھے۔ بیدم شاہ وارثی کا شعر ملاحظہ کریں:
جو مجھ میں بولتا ہے میں نہیں ہوں
یہ جلوہ یار کا ہے میں نہیں ہوں
بالآخر ایوانِ وزیراعظم کی اہم تقرریوں سے متعلق سمری کو ایوانِ صدر سے کسی پس و پیش کے بغیر فوری منظوری مل گئی۔ کفرٹوٹا خدا خدا کر کے۔ چار سو پھیلی اداسی، غیر یقینی اور چہ میگوئیوں کی کیفیت تمام ہوئی۔ ملک کے ایک اہم ادارے کے سربراہ کی تعیناتی کے موقع پر انتشار اور غیر آئینی اقدامات کے خواب دیکھنے والوں کو منہ کی کھانا پڑی۔ آئین سر بلند ہوا۔ میرٹ کی جیت ہوئی اور ذاتی پسند‘ ناپسند پیچھے رہ گئیں۔آخری ہنگامہ خیز ہفتہ اختتام کو پہنچا اور جنرل عاصم منیر آرمی چیف اور جنرل ساحر شمشاد چیئرمین جوائنٹ چیف آف سٹاف کمیٹی مقرر ہو گئے۔ وفاقی حکومت نے ہوشمندی کا مظاہرہ کیا اور اپنی روایت کے برعکس سنیارٹی کے اصول کو مدنظر رکھا۔ یہی نہیں‘ صدرِ پاکستان نے بھی آئین و قانون اور ضوابط و روایات کی لاج رکھ لی ورنہ جس طرح کی افواہیں پھیلائی جا رہی تھیں‘ ان سے صاف لگتا تھا کہ حالات خراب ہوں گے مگر صد شکر کہ ایسا نہیں ہوا۔ اس بار ان اہم تعیناتیوں کو لے کر جو بیانیہ بنایا گیا تھا وہ بہت خطرناک تھا‘ ورنہ پہلے کبھی اتنا شور نہیں مچایا گیا تھا۔ وزیراعظم نے جس کو چاہا‘ آرمی چیف بنا دیا اور جسے چاہا نظر انداز کر دیا۔ سنیارٹی کا خیال کم ہی رکھا جاتا تھا۔ آج تک صرف چار آرمی چیف سنیارٹی کی بنیاد پر آئے۔ دیگران میں سے کوئی سنیارٹی میں چوتھے نمبر پر تھا اور کوئی ساتویں نمبر پر۔ سوال یہ ہے کہ عمران خان کی ساری جدوجہد اس اہم تعیناتی کے لیے تھی یا نئے انتخابات کی تاریخ لینے کے لیے؟ اس بات کا فیصلہ آئندہ دنوں میں عمران خان کے جلسے کی تقریر کرے گی۔ اگر وہ اسلام آباد جا کر دھرنا دینے کا اعلان کریں گے تو اس سے صاف ظاہر ہو گا کہ وہ الیکشن کے لیے سنجیدہ ہیں اور اگر وہ راولپنڈی میں جلسہ کرتے ہیں اور پھر واپس لاہور چلے جاتے ہیں تو اس سے پتا چل جائے گا کہ ان کا بیانیہ ٹھیک تھا یا غلط؟
نئی تعیناتیوں کا معاملہ خوش اسلوبی سے طے پا چکا ہے۔ پی ٹی آئی نے دونوں چیفس کو خوش آمدید کہا ہے اور صدر نے بھی سمری پر دستخط کرنے میں کوئی رخنہ نہیں ڈالا۔ کیا خان صاحب اب بھی اسلام آباد کا گھیرائو کریں گے؟ کیا اب بھی دھرنا دیا جائے گا؟ کیا اب بھی عوام کے بنیادی حقوق کو معطل کیا جائے گا؟ کیا خان صاحب اور پی ٹی آئی کی قیادت نے آئین کے آرٹیکل 10A، 15، 18، 23 اور 25A کا مطالعہ کیا ہے؟ کیا اب بھی عوام کو پولیس کی لاٹھیوں اور آنسو گیس کے شیلوں کے سامنے کھڑا کیا جائے گا؟ کیا اب بھی کارِ سرکار کو معطل کیا جائے گا؟ واقفانِ حال کہتے ہیں کہ عمران خان دھرنا دینے کا ارادہ ترک کر چکے ہیں۔ راولپنڈی میں دھرنا دیا جائے گا نہ اسلام آباد کی جانب مارچ ہو گا۔ وہ صرف جلسہ کریں گے اور عوام کو کچھ نئی امیدیں اور خواب دکھا کر واپس چلے جائیں گے۔ یکم سے پانچ دسمبر تک راولپنڈی کرکٹ سٹیڈیم میں پاکستان اور انگلینڈ کے مابین ٹیسٹ سیریز کا پہلا میچ ہونا ہے اور عمران خان برطانیہ کے ہائی کمشنر کو شیڈول کے مطابق میچ کے انعقاد اور اس میں رکاوٹ نہ ڈالنے کی یقین دہانی کرا چکے ہیں۔ بتانے والے بتاتے ہیں کہ راولپنڈی جلسے میں عمران خان حکومت اور ایک اہم ادارے کے سربراہ کے سامنے نئے انتخابات کا مطالبہ دہرائیں گے جس کے بعد خیمہ بستیاں لپیٹ دی جائیں گی اور تمام رکاوٹیں ہٹا دی جائیں گی‘ اللہ اللہ خیر سلا۔
ہمارے سیاست دانوں کو سمجھنا ہو گا کہ ملک کے معاشی اور سیاسی حالات غیر یقینی کا شکار ہو چکے ہیں۔ معیشت بدحال ہے اور سیاست زیر عتاب۔ سیاست دانوں کو بھی اعتراف کرنے کی ضرورت ہے کہ ان سے گزشتہ پچھتر سالوں میں بہت سی غلطیاں ہوئی ہیں۔ بالکل ویسے ہی جیسے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے اعتراف کیا ہے۔ انہوں نے کہا ''ستر سالوں میں فوج کی سیاست میں مداخلت غیر آئینی تھی۔ گزشتہ سال فروری میں آئندہ مداخلت نہ کرنے کا فیصلہ کیا جس پر کئی حلقوں نے غیر شائستہ زبان استعمال کر کے اداروں کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ جعلی اور جھوٹا بیانیہ بنا کر ہیجان پیدا کیا گیا اور اب راہِ فرار اختیار کی جا رہی ہے۔ ملک میں بیرونی سازش ہو اور فوج خاموش رہے یہ ناممکن بلکہ گناہِ کبیرہ ہے‘‘۔ آرمی چیف کا بیان انتہائی خوش آئند ہے اور سیاست دانوں کا امتحان بھی۔ ملک میں جس نئے عمرانی معاہدے کی بات برسوں سے کی جا رہی تھی‘ اب اس کا وقت آ گیا ہے کہ وہ معاہدہ کر لیا جائے۔ ادارے اپنا آئینی کردار ادا کریں اور حکومت اپنی ذمہ داریاں نبھائے۔ ایسے ہی جمہوریت مضبوط ہو گی اور پارلیمنٹ بااختیار۔ اداروں نے اگر سیاست میں مداخلت نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے تو ہمیں اس کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے تا کہ عدم مداخلت کی پالیسی جاری رہے۔ کتنی عجیب بات ہے کہ ہمارے کچھ سیاست دان آج بھی اداروں سے سیاسی معاملات میں مدد یعنی ان سے غیر آئینی کردار کی خواہش رکھتے ہیں۔ آئین بنانے والے خود ہی آئین شکنی کی آرزو کریں گے تو کون آئین کا احترام کرے گا؟ ہمیں اگر جمہوریت کا تسلسل عزیز ہے اور غیر سیاسی قوتوں کو اقتدار کی راہداریوں سے دور رکھنا ہے تو پھر مل بیٹھنے کی اشد ضرورت ہے۔ ڈائیلاگ کے ذریعے ادارے اور پارلیمنٹ نیا معاہدہ کریں تاکہ آئین پر عملدرآمد ہو سکے۔ سیاست دان جب بھی حکومت میں آئیں اپنے ووٹ سے آئیں، کسی کی خوشنودی حاصل کر کے نہیں۔ یہ رسم اب ختم ہونی چاہیے اور سیاست دانوں کو اپنے پاؤں پر کھڑے ہونے عادت پختہ کرنی چاہیے۔ اسی میں ان کی عزت ہے اور سیاست و جمہوریت کی بقا بھی۔
غور و فکر کیا جائے تو ملک کی موجودہ صورتحال حکومت، اپوزیشن اور مقتدرہ سمیت سبھی کا امتحان ہے۔ اداروں نے میچورٹی کا مظاہرہ کیا ہے تو حکومت اور اپوزیشن کو بھی سیاسی بصیرت دکھانا ہو گی۔ ادارے اپنے سیاسی کردار پر نادم ہیں توسیاست دانوں کو بھی اپنے غیر سیاسی کردار پر احساسِ ندامت ظاہر کرنا ہو گا تاکہ سیاسی استحکام آئے۔ کوئی بھی ملک سیاسی استحکام کے بغیر ترقی نہیں کر سکتا۔ اگر ہمیں اپنے عوام کی مشکلات کا خیال ہے تو اپنی اپنی اناؤں کی قربانی دینا ہو گی۔ ایک دوسرے کے سیاسی کردار کو ماننا ہوگا ورنہ سیاسی انتشار سے دوچار ممالک کا حال آپ کے سامنے ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں