عمران خان کے لیے ایک مشورہ

فیض احمد فیضؔ سے ڈاکٹر عارفہ سیدہ نے پوچھا کہ ترقی پسند کسے کہتے ہیں؟ یہ اتنا جھگڑا کیوں ہے؟ فیض صاحب سوال سن کر اپنے مخصوص انداز میں مسکرائے اور سگریٹ کی راکھ جھاڑتے ہوئے کہا ''جو بھی مستقبل پر یقین رکھتا ہے‘ وہ ترقی پسند ہے‘‘۔ یہ جو مستقبل پر یقین ہے اسی کی ہمارے ہاں کمی ہے۔ ہمیں جتنا اپنے ماضی پر یقین ہے‘ اتنا اپنے حال پر بھی نہیں۔ ماضی پرست ہمیشہ ضدی ہوتے ہیں۔ ضد کا مقابلہ صرف وہی چیز کر سکتی ہے جو آنے والے دن کا انتظار کر سکتی ہے اور جسے صبر کرنے کی صلاحیت میسر ہوتی ہے۔ ہماری سیاست اور سیاست دانوں کا یہی المیہ ہے کہ ہم ترقی پسند ہیں نہ ہمیں مستقبل پر یقین ہے۔ ہم ماضی کے گرداب میں پھنسے رہتے ہیں یا پھر حال میں جینا چاہتے ہیں۔ محسوس ہوتا ہے کہ آنے والے کل کا انتظار کرنا ہمارے بس میں نہیں۔ ہم زندگی گزارنے کے بنیادی فن ہی سے ناآشنا ہیں۔ ہماری جلد بازی، تلخ رویے اور دوسروں کو زِیر کرنے کی آرزو نے ہمیں کہیں کا نہیں چھوڑا۔ ہم اپنے حال کو جینے کے بجائے دشوار اور بے کیف بنا دیتے ہیں اور اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ہمارا مستقبل تاریک ہوتا جاتا ہے۔ فی نفسہٖ ضد بری چیز نہیں ہے مگرضد اگر چٹان سے لگا لی جائے تو سر پھوٹنے کے علاوہ کچھ حاصل نہیں ہو سکتا۔ ضدی شخص صرف اپنا نقصان نہیں کرتا بلکہ ساتھیوں کی ناؤ کو بھی ڈبو دیتا ہے۔
عبدالحمید عدم کا شعر ملاحظہ کریں:
عدمؔ خلوص کے بندوں میں ایک خامی ہے
ستم ظریف بڑے جلد باز ہوتے ہیں
قائداعظم کا فرمان ہے: فیصلہ کرنے سے پہلے سو بار سوچو لیکن جب فیصلہ کر لو تو اس پر ڈٹ جاؤ۔ قائد کا عزم، ایمانداری اور نظم وضبط ہمارے لیے مشعلِ راہ ہیں مگر نجانے کیوں ہم قائد کے افکا ر سے رجوع کرنے سے قاصر ہیں۔ ہمارے سیاستدان فیصلہ کرنے سے پہلے سوچتے ہیں نہ مشاورت پر یقین رکھتے ہیں۔ مطلق العنان حکمرانوں کی طرح فیصلہ صادر کر دیتے ہیں اور پھر اپنے ہی فیصلوں سے پیچھے ہٹنا ان کے لیے دشوار ہو جاتا ہے اور وہ راہِ فرار ڈھونڈنے لگتے ہیں۔ چند ہفتے قبل سابق وزیراعظم عمران خان نے اعلان کیا تھا کہ وہ پنجاب اور خیبر پختونخوا کی اسمبلیاں تحلیل کر دیں گے‘ وہ مزید اس کرپٹ نظام کا حصہ نہیں رہ سکتے۔ حالات و واقعات بتاتے ہیں کہ یہ اعلان محض اعلان ہی رہے گا۔ محسوس ہوتا ہے کہ پنجاب کے وزیراعلیٰ ان کے فیصلے کے ساتھ کھڑے ہیں نہ ان کی اپنی پارٹی ا س فیصلے کی دل و جان سے تائید کر رہی ہے۔ پنجاب کے ایم پی ایز کے اپنے تحفظات ہیں اور کے پی اسمبلی کے ارکان کے اپنے دلائل۔ خان صاحب کو جب سے تحریک عدم اعتماد کے ذریعے اقتدار سے الگ کیا گیا ہے‘ وہ فیصلہ سازی کے معاملے میں مشوروں کو اہمیت دیتے نظر نہیں آ رہے۔ اس پورے عرصے میں ان کی کوشش رہی ہے کہ وہ اگر وزیراعظم نہیں رہے تو اسمبلیوں کو بھی اپنی مدت پوری نہیں کرنی چاہیے۔ وہ بضد ہیں کہ قومی اسمبلی تحلیل کر کے نئے انتخابات کا بگل بجایا جائے۔ اس مقصد کی تکمیل کے لیے انہوں نے دو مرتبہ لانگ مارچ بھی کیا مگر بے سود۔ وفاقی حکومت نے ان کا مطالبہ ماننے سے انکار کر دیا۔ اب یوں گمان ہوتا ہے کہ پنجاب اور کے پی کے وزرائے اعلیٰ اور ان کی اپنی پارٹی ہی ان کے مطالبے کی راہ میں دیوار بن چکی ہے۔ سیاسی نباض بتاتے ہیں کہ خیبر پختونخوا اسمبلی کو توڑنے میں زیادہ رکاوٹیں نہیں ہیں مگر پنجاب حکومت ختم ہوتی نظر نہیں آ رہی۔ اگر پنجاب اسمبلی تحلیل نہ ہوئی تو پھر کے پی اسمبلی بھی تحلیل نہیں ہو گی۔ خان صاحب کو باور کرایا جا رہا ہے کہ اگر پنجاب اور کے پی میں پی ٹی آئی کی حکومتیں نہ رہیں تو وفاقی حکومت خان صاحب کو کسی بھی کیس میں گرفتار کر سکتی ہے۔ نگران حکومت انہیں مطلوبہ سکیورٹی فراہم کرنے سے انکار کر سکتی ہے۔ اب خان صاحب مضطرب ہیں اور اپنے فیصلے پر عمل درآمد کے حوالے سے شش و پنج کا شکار ہیں۔ اس میں قصورکس کا ہے؟ اگر اسمبلیاں توڑنے کے اعلان سے قبل سٹیک ہولڈرز سے مشاورت کی جاتی تو یقینا حالات مختلف کہانی سنارہے ہوتے اور کسی نئے یوٹرن کی دِقت بھی پیش نہ آتی۔
سیاست کھڑے پانی کی طرح ہوتی ہے نہ بند گلی کی مانند۔ سیاست میں ہر صورت حال، ہر مسئلے اور ہر مشکل کا حل ڈھونڈا جا سکتا ہے۔ جو راہوں میں پھنس جاتے ہیں‘ وہ کبھی منزل تک نہیں پہنچتے۔ خان صاحب کو لگتا ہے کہ وہ اس وقت مقبولیت کے بامِ عروج پر ہیں اور فوری الیکشن کی صورت میں دو تہائی اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ عین ممکن ہے ان کی سوچ حقیقت سے قریب تر ہو مگر یہاں ایک سوال اٹھ کھڑا ہوتا ہے۔ اگر عام انتخابات ہوتے دکھائی نہیں دے رہے تو پنجاب میں بلدیاتی الیکشن کیوں نہیں کرائے جاتے۔ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا۔ آئین کہتا ہے کہ ملک میں تین طرح کی حکومتیں ہوں گی؛ وفاقی، صوبائی اور مقامی مگر ہمارے سیاست دان بلدیاتی سطح پر اختیار دینے سے ہمیشہ گریز کرتے نظر آتے ہیں۔ کیوں؟ آئین پر من و عن عمل کیوں نہیں کیا جاتا؟ خان صاحب تو مضبوط بلدیاتی اداروں کے بہت بڑے داعی تھے مگر وزیراعظم بن کر انہوں نے بھی بلدیاتی الیکشن نہیں کرائے۔ پنجاب میں گزشتہ چار سالوں سے لوکل گورنمنٹ سسٹم فعال نہیں ہے جس کے باعث گلی‘ محلوں کے مسائل دوچند ہو چکے ہیں۔ خان صاحب کے پاس اچھا موقع ہے کہ وہ پنجاب میں بلدیاتی انتخابات کرا دیں۔ ہو سکتا ہے کہ یونین کونسل، تحصیل اور ضلع کی سطح پر ان کی جماعت کو اکثریت مل جائے۔ یہ خان صاحب کی مقبولیت کا ٹیسٹ بھی ہو گا اور آئین کا ایک بنیادی تقاضا بھی پورا ہو جائے گا۔ اس بات سے کون انکار کر سکتا ہے کہ اقتدار سے علیحدگی کے بعد خان صاحب کی مقبولیت کو پَر لگ گئے ہیں۔ ہر عمر کے افراد ان سے والہانہ محبت کرنے لگے ہیں۔ اب خان صاحب کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی سیاست کو بندگلی میں مت دھکیلیں۔ اگر تحریک انصاف پنجاب میں بلدیاتی الیکشن جیت جاتی ہے تو عام انتخابات میں اسے کوئی ہرا نہیں پائے گا۔ گلی‘ محلوں میں اس کے منتخب نمائندے ہوں گے جو لوگوں کو عام انتخابات میں بھی فعال کریں گے۔ اب بھی وقت ہے کہ ضد کی بانسری بجانا چھوڑ کر اور عام انتخابات کی رَٹ سے اوپر اٹھ کر بلدیاتی انتخابات کے انعقاد پر غور کیا جائے۔
حقیقت یہ ہے کہ تحریک انصاف کے رہنما اور ورکرز احتجاجی سیاست سے اب اکتا چکے ہیں۔ لوگوں کی تعداد روز بروز کم ہو رہی ہے۔ حالیہ دنوں میں لاہور میں ہونے والی احتجاجی ریلیوں کے مناظر دیکھ لیں‘ سب سمجھ آ جائے گا۔ گزشتہ دنوں گلشن راوی میں حماد اظہر کی ریلی دیکھ کر مجھے ذاتی طور پر مایوسی محسوس ہوئی۔ چند درجن گاڑیاں اور چند سو لوگ ان کے ہمراہ تھے۔ کیا خان صاحب تک ان ریلیوں کی رپورٹ نہیں پہنچ رہی؟ اگر نہیں‘ تو پھر انہیں ضرور اس کا نوٹس لینا چاہیے‘ شاید ان کی رائے تبدیل ہو جائے اور وہ صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل سے پیچھے ہٹ جائیں۔ یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ کسی بھی حکومت کا آخری سال سب سے زیادہ اہم ہوتا ہے۔ چار سالوں تک عام لوگوں کے لیے جو مشکل فیصلے کیے جاتے ہیں‘ ان کا مداوا آخری سال میں کیا جاتا ہے۔ نئے نئے پروجیکٹس شروع کیے جاتے ہیں اور پرانوں کو مکمل کیا جاتا ہے۔ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ ہوتا ہے اور مہنگائی کو قابو کرنے کی تگ و دو کی جاتی ہے۔ آخری سال میں وفاقی حکومت سے زیادہ صوبائی حکومتوں کی کارکردگی عوام پر اثر انداز ہوتی ہے کیونکہ عوام کی خوشحالی کے منصوبے صوبوں کی ذمہ داری ہوتے ہیں۔ وفاق پالیسی بناتا ہے مگر عوام کے مسائل تو صوبائی حکومتیں حل کرتی ہیں۔ کاش! پی ٹی آئی کی قیادت سیاست کا یہ بنیادی سبق جان لے۔ کاش! آٹھ ماہ سے جاری سیاسی عدم استحکام ختم ہو جائے۔ کاش! سیاستدان اپنی ذات اور سیاست سے بالاتر ہوکر سوچنے لگیں۔
بڑھ کے طوفان کو آغوش میں لے لے اپنی
ڈوبنے والے ترے ہاتھ سے ساحل تو گیا

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں