الیکشن تو ہوگا مگر کب؟

آئرلینڈ کے مشہور ادیب جوناتھن سوِفٹ (Jonathan Swift) کا ایک مشہور قول ہے: ''بدترین لکھاریوں کے بھی پڑھنے والے ہوتے ہیں‘ اور ہر جھوٹ بولنے والے کے بھی کچھ نہ کچھ یقین کرنے والے ہوتے ہیں۔ جھوٹ کی زندگی ایک گھنٹے سے زائد نہیں ہوتی۔ اگر لوگ اس پر یقین کر لیں تو پھر جھوٹ اپنا کام کر چکا ہوتا ہے‘‘۔ غلط بیانی اور فیک نیوز کے حوالے سے سترہویں صدی کا حوالہ آج بھی اتنا ہی متعلقہ اور معتبر ہے۔ جدت کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ سچ اور جھوٹ میں تمیز ختم ہو گئی ہے۔ آج سچ معدوم ہو چکا اور جھوٹ کو دوام حاصل ہے جبکہ سنی سنائی باتیں پھیلانے کی رسم عام ہو چکی ہے۔ عدنان بیگ کا شعر ملاحظہ کریں:
سنی سنائی سنی ہے میں نے
سنی سنائی سنا رہا ہوں
ویسے تو سائنس کی ایجادات کرشماتی ہیں اور بنی نوع انسان کی فلاح کے لیے جتنی خدمات سائنس دانوں نے سرانجام دی ہیں‘ شاید ہی کسی اور شعبے کے حصے میں یہ اعزاز آ سکے مگر یوں گمان ہوتا ہے کہ جیسے جیسے جدت بڑھ رہی ہے‘ جھوٹ، پروپیگنڈا اور الزام تراشی کی بھی فراوانی ہو رہی ہے۔ ستم بالائے ستم یہ کہ جہاں جھوٹ بولنے والے بڑھ رہے ہیں‘ وہیں جھوٹ پر یقین کرنے والوں کی تعداد بھی ضرب کھاتی جا رہی ہے۔ جہاں پروپیگنڈا کرنے والے افراد ہزاروں سے لاکھوں اور لاکھوں سے کروڑوں میں داخل ہو رہے ہیں وہیں پروپیگنڈے کو ماننے والے ہر آن دوچند ہو رہے ہیں۔ ایک طرف سوشل میڈیا ہے جو جھوٹ اور بہتان طرازی کو ایندھن مہیا کر رہا ہے‘ دوسری طرف نجی محفلیں بھی اب پیچھے نہیں رہیں۔ لوگ سوشل میڈیا پر جھوٹ‘ سچ پڑھ اور سن کر آتے ہیں اور نجی‘ ادبی و سماجی محفلوں کو آلودہ کرتے ہیں۔ کچھ روز قبل لاہور کے ایک بڑے کلب میں چند پڑھے لکھے افراد کی محفل میں بیٹھنے کا اتفاق ہوا۔ ابتدا میں ادب، فلسفے اور تاریخ پر گفتگو ہوئی مگر پھر ایک صاحب تشریف لائے اور آتے ہی انہوں نے مکالمے کا رخ سیاست کی جانب موڑ دیا۔ حاضرینِ محفل سے انہوں نے سوال کیا کہ عمران خان اسمبلیاں توڑیں گے یا نہیں؟ اگر توڑیں گے تو انہیں سیاسی طور پر فائدہ ہوگا یا نقصان؟ اس سوال نے لوگوں کے دبے ہوئے جذبات کو ابھار دیا۔ مکالمہ پہلے مباحثے میں تبدیل ہوا اور پھر سیاسی جلسے کا منظر پیش کرنے لگا۔ چیخ و پکار بلند ہونے لگی‘ یہاں تک کہ کان پڑی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی۔ میں ایک طرف بیٹھا یہ منظر دیکھتا رہا اور سوچتا رہا کہ یہ تمام پڑھے لکھے لوگ ہیں اور معتبر طبقات سے تعلق رکھتے ہیں۔ کوئی یونیورسٹی میں پروفیسر ہے اور کوئی بیورو کریٹ۔ کوئی ادیب ہے اور کوئی شاعر۔ کوئی بزنس سے وابستہ ہے اور کوئی صحافی‘ مگر سیاست کے حمام میں سب ایک جیسے ہیں۔ سب کا زور دلیل سے زیادہ آواز اونچی کرنے پر ہے۔ کوئی منطق کو بروئے کار لا رہا ہے نہ اخلاقیات کو۔ مجھے محفل میں موجود لوگوں کی ذہنی سطح پر ترس آیا۔ حقیقت یہ ہے کہ اب یہی ہمارا عمومی رویہ ہے۔ سب کے اپنے اپنے پسندیدہ لیڈرز ہیں اور اپنے اپنے نظریات۔ کوئی کسی دوسرے کو ماننے کو تیار ہی نہیں۔ ایک زمانہ تھا جب سیاست پر گفتگو محض سیاست دان کرتے تھے یا صحافی یا پھر پولیٹکل سائنس کے شعبے سے وابستہ افراد۔ اب ریڑھی بانوں سے لے کر سائنس دانوں تک، طالب علموں سے لے کر علمائے دین تک، کھلاڑیوں سے لے کر اداکاروں تک‘ سب کا پسندیدہ قومی موضوع سیاست ہے۔ معیشت کے شعبے سے وابستہ افراد کی سٹاک مارکیٹ اور عالمی منڈیوں پر نظر ہو یا نہ ہو‘ انہیں سیاست کی خبر ضرور ہوتی ہے۔ ڈاکٹرز بھی نئی ریسرچز اور علاج سے زیادہ جانکاری سیاست کے اتار چڑھاؤ کی رکھتے ہیں۔ یہی ہمارا المیہ ہے سیاست کا شعبہ باقی تمام شعبوں پر حاوی آ چکا ہے۔ ہم اپنے کام سے زیادہ سیاست پر توجہ دینے لگے ہیں جس سے ہمارے سماج میں شدت پسندی، تلخی اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے جیسی منفی عادات بھی پروان چڑھ رہی ہیں۔
مذکورہ واقعے کو تین روز بیت چکے ہیں مگر اُس شخص کا سوال آج بھی میرے ذہن میں گھوم رہا ہے کہ عمران خان اسمبلیاں تحلیل کریں گے یا نہیں؟ اگر تحلیل کریں گے تو انہیں سیاسی طور پر فائدہ ہوگا یا نقصان؟ میں بھی اس ضمن میں اپنی رائے اور اپنا نقطۂ نظر پیش کرنا چاہتا تھا مگر شور اتنا تھا کہ بولنے کی ہمت ہی نہ پڑی۔میری دانست میں عمران خان کے ساتھ نئے انتخابات پر ڈائیلاگ نہ کیا گیا تو وہ دونوں صوبائی اسمبلیاں ضرور تحلیل کر دیں گے اور یہ کام اسی ماہ ہو جائے گا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ خان صاحب پے درپے ناکامیوں کے بعد مایوس ہو چکے ہیں اور محسوس ہوتا ہے کہ اس وقت وہ شدید غصے میں ہیں۔ انہیں اس کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ سجھائی نہیں دے رہا جس سے موجودہ وفاقی حکومت پر پریشر بڑھایا جا سکے۔ وہ چاہتے ہیں کہ اپنی مقبولیت کا لوہا جلد سے جلد منوا لیں اور اس کے نتیجے میں اقتدار کے سنگھاسن پر دوبارہ بیٹھ جائیں۔ انہیں یہ بھی خوف ہے کہ اگر کسی کیس میں ان کے خلاف فیصلہ آ گیا تو وہ پانچ سال کے لیے نااہل ہو سکتے ہیں۔ ایسی صورت میں وہ 2023ء کا الیکشن لڑ سکیں گے اور نہ ہی عوام ان کی پارٹی کو ووٹ دیں گے۔ اس لیے ان کی کوشش ہے کہ جلد سے جلد اسمبلیاں توڑ کروفاقی حکومت پر پریشر ڈالا جائے کہ ملک بھر میں ایک ساتھ الیکشن کرایا جائے۔ اگر یہ حربہ کارگر نہ ہو تو کم از کم پنجاب اور خیبر پختونخوا میں انتخابات کا ڈول ضرور ڈال دیا جائے تاکہ ان کی پارٹی ایک بار پھر برسرِ اقتدار آ جائے اور ان کی گرفتاری کی صورت میں بھی صوبائی سہولتیں میسر ہوں۔ گرفتاری کے حوالے سے اندرونی حلقوں کا کہنا ہے کہ وزیراعلیٰ پنجاب چودھری پرویزالٰہی نے جب خان صاحب کو یہ بتایا کہ اگر پنجاب اسمبلی تحلیل کی گئی تو وفاقی حکومت انہیں گرفتار کر لے گی‘ تو وہ تھوڑے مضطرب ہو گئے تھے۔ پھر کسی نے انہیں مشورہ دیا کہ اگر الیکشن ان کی نااہلی کے بعد ہوئے تو وہ اکثریت حاصل نہیں کر پائیں گے۔ ہاں البتہ! اسمبلیاں توڑنے کے بعد انہیں اگر زخمی حالت میں گرفتار کیا گیا تو ایسی صورت میں عوام کی ہمدردی مزید بڑھ جائے گی اور ان کی جماعت آسانی سے دوتہائی نشستیں جیت لے گی۔
یہاں یہ سوال ہے کہ اگر خان صاحب کو گرفتار نہ کیا گیا تو پھر کیا ہو گا؟ وہ الیکشن مہم میں بھرپور حصہ لے سکیں گے یا نہیں؟ اور اگر زخموں کی وجہ سے انہوں نے شہر شہر جاکر جلسے نہ کیے تو مطلوبہ انتخابی ماحول بن پائے گا یا نہیں؟ میری دانست میں اگر اسمبلیاں توڑی گئیں تو پی ٹی آئی کو سیاسی اور ملک کو معاشی طور پر نقصان پہنچنے کا احتمال ہے۔ پہلے مرحلے میں نگران حکومت بنانے کا چیلنج درپیش ہو گا۔ حکومت اور اپوزیشن میں نگران سیٹ اَپ پر اتفاق نہ ہوا تو آئینی طور پر یہ اختیار الیکشن کمیشن کو منتقل ہو جائے گا۔ عمران خان پہلے ہی الیکشن کمیشن سے خائف رہتے ہیں۔ کیا وہ الیکشن کمیشن کی تشکیل کردہ نگران حکومت کو تسلیم کر لیں گے؟ دوسری طرف اگر وفاقی حکومت نے انتخابی نقطۂ نظر سے تمام وسائل مہنگائی کم کرنے کے لیے جھونک دیے تو پھر گنگا الٹی بھی بہہ سکتی ہے۔ اگر وفاق نے پنجاب میں اپنا اثر و رسوخ استعمال کیا تو الیکشن مزید متنازع ہو جائے گا۔ اس صورتِ حال میں پی ٹی آئی کی توقعات پر اوس بھی پڑ سکتی ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ الیکشن وقت پر ہوں اور نگران حکومت سے کسی کو فائدہ یا نقصان نہ ہو۔
واقفانِ حال کہتے ہیں کہ عمران خان اس موقع پر چودھری پرویز الٰہی کو ناراض نہیں کرنا چاہتے کیونکہ اگر وہ ناراض ہو گئے تو ساری گیم الٹ جائے گی۔ ہو سکتا ہے کہ وہ چودھری شجاعت حسین کے ہم نوا بن جائیں اور پھر پی ٹی آئی کے ہاتھ سے آخری تیر بھی نکل جائے۔ اس لیے غور کیا جا رہا ہے کہ چودھری پرویز الٰہی کے مطالبے پر غور کیا جائے اور انہیں مزید ایک سے ڈیڑھ ماہ دے دیا جائے تاکہ وہ نئے پروجیکٹس شروع کر سکیں اور اس دوران پی ٹی آئی کو بھی الیکشن کی تیاری کا وقت مل جائے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں