اپنے عشاق سے ایسے بھی کوئی کرتا ہے

آپ چاہیں تو ہتھیلی پر سرسوں جما سکتے ہیں، صحرا میں سبزے کی بہار لا سکتے ہیں، بپھرے دریا کا رخ موڑ سکتے ہیں، اپنے ہاتھوں سے پہاڑ کا دامن چیر کر راستہ بنا سکتے ہیں، کانٹوں سے خوشبو کشید سکتے ہیں اور رگِ گل سے ہیرے کا جگر کاٹ سکتے ہیں مگر جو نہیں کر سکتے وہ اہلِ سیاست کے دل سے اقتدار کی تمنا کا خاتمہ ہے۔ عہدِ شباب سے بچھڑا ہوا ہر شخص شباب کے دور میں لوٹ جانے کا آرزو مند ہوتا ہے۔ محسوس ہوتا ہے کہ سابق وزیراعظم پر بھی ان دنوں ایسی ہی کیفیت طاری ہے۔وہ ذہنی طور پر آج بھی خود کو وزیراعظم سمجھتے ہیں مگر جب حقیقت کی دنیا میں بے بسی کی ہوا چلتی ہے تو مایوسی کے سائے بڑھ جاتے ہیں۔ یہ ایسی حالت ہوتی ہے جب انسان کو دوست کی سمجھ آتی ہے نہ دشمن کی۔ سچ کا ادراک ہو پاتا ہے نہ جھوٹ کا۔ انسان کے دل کا یہ بوجھ جیسے جیسے بڑھتا جاتا ہے‘ وہ اپنے رفقا، ہم رازوں اور محسنوں کو بھی فراموش کرتا جاتا ہے۔ فیض احمد فیضؔ نے اس بحث کو ایک شعر میں سمیٹ دیا ہے۔
ہم تو مجبورِ وفا ہیں مگر اے جانِ جہاں
اپنے عشاق سے ایسے بھی کوئی کرتا ہے
اقتدار سے بے دخلی نے سابق وزیراعظم کی بے کلی میں اضافہ کر دیا ہے۔ وہ ہر دن نیا بیانیہ بناتے ہیں اور ان کے محبین اس کی تشہیر شروع کر دیتے ہیں۔ خان صاحب نے 23 دسمبر کو پنجاب اور خیبر پختونخوا کی اسمبلیاں توڑنے کا اعلان کرتے ہوئے وہ کچھ کہہ دیا جسے گزشتہ آٹھ ماہ سے کہنے کی ہمت وہ مجتمع نہیں کر پا رہے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کی حکومت گرانے میں ایک شخص کا کردار تھا اور وہ تھے قمر جاوید باجوہ صاحب۔ ''اس کے پیچھے کیا وجہ تھی جو انہوں نے ہماری اچھی بھلی چلتی ہوئی حکومت کو گرا دیا۔ ہمارے ساتھ ڈبل گیم کی گئی اور شریف خاندان کو این آر او ٹو دیا گیا‘‘۔ ہو سکتا ہے کہ خان صاحب درست فرما رہے ہوں اور یہ بھی ممکن ہے کہ یہ سب ان کی خام خیالی ہو۔ سچ کچھ اور ہو جسے وہ سننا ہی نہ چاہتے ہوں اور درونِ خانہ وقوع پذیر ہونے والے واقعات مختلف ہوں جن سے وہ آنکھیں چرا رہے ہوں۔ اس میں کیا شبہ ہے کہ ان کی حکومت کو وقت سے پہلے چلتا کیا گیا مگر کیا کہیں آئین کی کوئی خلاف ورزی ہوئی؟ کیا آئین میں یہ پابندی لگائی گئی ہے کہ جو جماعت حکومتی اتحاد کا حصہ بنے گی‘ وہ پانچ سال تک اتحادی ہی رہے گی؟ اگر ماورائے آئین کوئی کام نہیں ہوا تو پھر اتنا واویلا کیوں مچایا جا رہا ہے؟ سیاسی عدم استحکام کی دھول کیوں اُڑائی جا رہی ہے؟ معیشت کے پہیے کو چلنے کیوں نہیں دیا جا رہا؟ کبھی لانگ مارچ اور کبھی اسمبلیاں توڑنے کی دھمکیوں کا جواز کیا ہے؟ ایوانِ اقتدار سے الگ ہونے کے بعد عمران خان کے پاس آئینی طور پر دو راستے تھے۔ اول: اپنی تمام تر توجہ صوبائی حکومتوں کی کارکردگی بہتر بنانے پر مرکوز کرتے اور عوام کے مصائب کوکم کرتے۔ دوم: شہباز حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کے لیے لابنگ کرتے۔ شومیٔ قسمت کہ انہوں نے تیسری راہ اختیار کی۔ وہ سٹرکوں پر اتر آئے۔ جلسے، جلوس اور لانگ مارچ کیے۔ سیاسی طور پر ایک عدم استحکام برپا کیے رکھا۔ کبھی انہوں نے امریکہ پر الزام تراشی کی اور کبھی حکومت کو 'امپورٹڈ‘ قرار دیا۔ اداروں کے سربراہان کو میر جعفر اور میر صاد ق کہا اور نیوٹرل ہونے کو طعنہ بنا کر پیش کیا۔ انہوں نے ہر وہ کام کیا جس کے لیے خود ان کی جماعت راضی تھی نہ تیار۔ حتیٰ کہ عوام کی جانب سے بھی انہیں متوقع تائید نہیں مل سکی۔
ہندی کی ایک کہاوت ہے کہ دوستی نبھانے میں جتنا وقت لگا ہو‘ اسے ختم کرنے میں بھی اتنا ہی وقت لگانا چاہیے۔ مشہور مورخ اور فلسفی ابنِ خلدون سے منسوب ہے کہ ''دوست اگر سو میں سے ننانوے بار دوستی کا امتحان پاس کرچکا ہو اور ایک بار آپ کی توقعات پر پورا نہ اترے تو ایسے دوست کی زیادہ قدر کرنی چاہیے۔ ہو سکتا ہے کہ اس کی کچھ مجبوریاں ہوں۔ اس کی لاچارگی کوصرفِ نظر کرکے دوست پر الزام تراشی کرنا خود غرضی کہلاتا ہے‘‘۔ سابق وزیراعظم ان دنوں ہر چیز کے لیے باجوہ صاحب کو موردِ الزام ٹھہرا رہے ہیں۔ ان کے الزامات کا تجزیہ کرنے سے پہلے ہمیں ماضی کے دریچوں میں جھانکنا پڑے گا۔ میری عمرا ن خان سے پہلی ملاقات 2011ء کے اوائل میں ہوئی تھی۔ اس وقت وہ اپنی سیاست کو لے کر خاصے مضطرب اور پریشان تھے۔ وہ ملک کے لیے کچھ کرنا چاہتے تھے مگر عوام انہیں سیاست دان کے روپ میں قبول کرنے کو تیار تھے نہ کوئی قابلِ ذکر سیاستدان ان کی جماعت میں شامل ہونے کے لیے راضی تھا۔ یہ وہ وقت تھا جب مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے درمیان میثاقِ جمہوریت ہو چکا تھا اور وہ دونوں جماعتیں ایک دوسرے کے خلاف آلہ کار بننے کو تیار نہ تھیں۔ نجانے کون سا لمحہ تھا جب سیاست کے بڑے کھلاڑیوں کی نظر عمران خان پر پڑی اور دیکھتے ہی دیکھتے ان کی چاندی ہو گئی۔ اجڑے گلشن میں بہار آ گئی اور جوکام پندرہ سالوں میں نہیں ہوا تھا‘ وہ پندرہ ہفتوں میں ہوتا نظر آنے لگا۔ پھر خلقِ خدا نے دیکھا کہ اکتوبر 2011ء کا جلسہ پوری شان سے ہوا اور بڑے بڑے سیاست دان اور سرمایہ کار ان کی پارٹی میں آنے لگے۔
جس جماعت نے اب تک اپنی پوری سیاست میں صرف ایک ایم این اے (خود عمران خان) کی سیٹ جیتی تھی وہ 2013ء کے الیکشن میں خیبر پختونخوا میں حکومت بنانے میں کامیاب ہو گئی۔ اس کے بعد عمران خان نے اسلام آباد میں 126 کا دن کا دھرنا دیا اور پاناما کا ہنگامہ بھی برپا کیا۔ وزیراعظم میاں نواز شریف کو پکڑ کر ایوانِ وزیراعظم سے نکال باہر کرنے کا عزم ظاہر کیا جبکہ سول نافرمانی کی تحریک چلانے کا بھی اعلان کیا۔ بجلی کے بل جلائے اور ہنڈی کے ذریعے پیسے بھیجنے پر عوام کو اکسایا۔ اس وقت میاں نواز شریف کی حکومت خاصی مضبوط تھی مگر عمران خان کو کچھ نادیدہ قوتوں کی اشیرباد حاصل تھی۔ حکومت چاہ کر بھی کچھ نہیں کر پائی۔ اس سارے قضیے میں میاں نواز شریف کو بطور وزیراعظم نااہل کر دیا گیا، پارٹی صدارت بھی ان سے چھین لی گئی، انہیں اور ان کی بیٹی کو جیل تک جانا پڑا۔ 2018ء کے انتخابات سے عین قبل مسلم لیگ (ن) کے اراکین کو توڑا گیا اور پنجاب میں اس جماعت کی حکومت سازی میں طرح طرح کی رکاوٹیں کھڑی کی گئیں۔ خان صاحب اگر پرانے قصے چھیڑ ہی رہے ہیں تو کیا وہ یہ بتانا پسند کریں گے کہ یہ سب ان کے لیے کس نے کیا تھا؟
عمران خان نے بطور وزیراعظم متعدد انٹریوز میں کہا تھا کہ انہوں نے باجوہ صاحب سے زیادہ جمہوریت پسند جنرل آج تک نہیں دیکھا۔ ''وہ میرے منشور کے ساتھ کھڑے ہوئے‘ آج تک میں نے ایک کام بھی ایسا نہیں کیا جس میں ان کی مرضی شامل نہیں تھی۔ انہوں نے حکومت کی ہر مشکل میں مدد کی۔کورونا سے لے کر کراچی تک اور بیرونی قرضوں سے لے کر سرمایہ کاری تک‘ باجوہ صاحب حکومت کے بازو بنے رہے‘‘۔ اب خان صاحب کہتے ہیں کہ احتسابی ادارے اُن کے کنٹرول میں تھے۔ اگر یہ سچ ہے تو پھر میاں شہباز شریف، حمزہ شہباز، شاہد خاقان عباسی، احسن اقبال، سعد رفیق، آصف زرداری اور خورشید شاہ سمیت درجنوں اپوزیشن رہنماؤں کو کس کے حکم پر گرفتار کیا گیا؟ اور ان گرفتاریوں کا فائدہ کس کو ہوا؟ ایک لمحے کو فرض کر لیتے ہیں کہ عمران حکومت کو گرانے میں باجوہ صاحب کا کردار تھا مگر اس ایڈونچر سے مستفید کون ہوا؟ تحریک انصاف کے اکابرین ٹھندے دماغ سے سوچیں تو انہیں جواب مل جائے گا۔ اگر وہ اقتدار میں رہتے تو عمران خان کبھی اتنے مقبول ہوتے؟ عوام ان سے اتنی والہانہ عقیدت رکھتے؟ ان کی جماعت اب تک ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو چکی ہوتی اور تحریک انصاف کا ٹکٹ لینے والا کوئی نہ ملتا۔ تحریک عدم اعتماد نے ان کی حکومت کی ناقص کارکردگی کو چھپا دیا ہے۔میرے نزدیک عمران خان کو حکومت سے بے دخل کرکے بھی ان پر احسان ہی کیا گیا ہے۔ احسان کا بدلہ احسان سے چکایا جاتا ہے نہ کہ تضحیک سے۔ بھلا اپنے عشاق سے ایسے بھی کوئی کرتا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں