جو تم کرو گے وہی ہم کریں گے

غم یہ ہے کہ ملک زوال پذیر ہے اور ستم بالائے ستم اہلِ حَکم کو ادراک تک نہیں۔ سیاست ہوتی تو مسائل بے لگام نہ ہوتے، بے حسی کا یہ سلسلہ کسی نہ کسی جگہ جا کر رُک جانا تھا مگر یہاں تو سیاست کی آڑ میں دشمنی، حسد اور انتقامی جذبے کو پروان چڑھایا جا رہا ہے۔ 'جو تم کرو گے‘ وہی ہم کریں گے‘ کی پالیسی اپنائی جا رہی ہے۔ اینٹ کا جواب پتھر سے دینا تو سنا تھا مگر یہاں ایک پتھر کے جواب میں دو پتھر پھینکے جا رہے ہیں۔ قبائلی معاشروں میں ایسا ہی ہوتا تھا۔ ایک سردار دوسرے سردار کی پگڑی اتارنے کے لیے آخری حد تک چلا جاتا تھا مگر کیا ہماری سیاسی اشرافیہ آج بھی قبائلی دور میں زندہ ہے؟ کیا سیاست ملکی مفادات پر بھی مقدم ہو چکی ہے؟ کیا آئین کی بالادستی محض کتابی باتوں تک رہ گئی ہے؟
آئین کا آرٹیکل 105 واضح ہے کہ اگر اسمبلیاں قبل از وقت تحلیل ہوں گی تو نوے دن کے اندر الیکشن ناگزیر ہیں جبکہ آئین کی شق 220 میں لکھا ہے کہ الیکشن کے دوران وفاقی اور صوبائی انتظامیہ الیکشن کمیشن کی معاونت کرنے کی پابند ہیں۔ دکھ کی بات یہ ہے کہ جمہوری دور میں بھی ان دونوں باتوں پر عمل درآمد نہیں کیا جا رہا۔ وزارتِ خزانہ نے ملک کے معاشی حالات کے باعث الیکشن کمیشن کو اضافی پیسے دینے سے انکار کر دیا ہے جبکہ محکمہ پولیس اور دیگر اداروں نے بھی معاونت کرنے سے معذرت کر لی ہے۔ محکمہ پولیس اور وزارتِ دفاع نے کہا ہے کہ ملک میں امن و امان کی صورتِ حال ایسی نہیں کہ الیکشن کے لیے نفری دے سکیں۔ دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کی وجہ سے چار سے پانچ ماہ سکیورٹی مہیا نہیں کر سکتے۔ لاہور ہائیکورٹ کے رجسٹرار نے الیکشن کمیشن کو خط میں کہا ہے کہ صوبے میں تیرہ لاکھ سے زائد کیسز عدالتوں میں زیر سماعت ہیں اس لیے چھ ماہ میں دو بار الیکشن کے لیے عدالتی عملہ نہیں دے سکتے۔ اگر ایسا کیا گیا تو کیسز کا بوجھ بہت بڑھ جائے گا۔
سوال یہ ہے کہ انتظامی ادارے ایسا کہنے کے مُجاز ہیں یا نہیں؟ اگر وہ الیکشن میں معاونت کے پابند ہیں تو کیا ان کے پاس عذر پیش کرنے کی گنجائش ہے؟ حالات جیسے بھی ہوں‘ آئین کی پاسداری بہرطور لازم اور مقدم ہے۔ کیا سیاسی جماعتیں اپنے مفادات کے لیے الیکشن میں تاخیر کر سکتی ہیں؟ اور سب سے بڑھ کر سوال یہ ہے کہ اگر نوے روز میں پنجاب اور کے پی میں انتخابات نہ ہوئے تو پھر کیا ہو گا؟ عمران خان خاموشی سے گھر بیٹھ جائیں گے یا پھر لانگ مارچ کیا جائے گا؟ کیا ملک ایک بار پھر سیاسی انتشار کا شکار ہونے جا رہا ہے؟
اس بات میں کوئی شبہ نہیں کہ عمران خان نے پنجاب اور خیبر پختونخوا کی اسمبلیاں تحلیل کرکے ایک سال میں دو بار قوم اور ملک کو الیکشن میں دھکیلا ہے۔ بہتر تو یہی تھا کہ مزید چند ماہ انتظار کر لیا جاتا، آخر اس میں کیا قباحت تھی؟ عمران خان کی مقبولیت کسی طور کم نہیں ہونی تھی مگر شاید وہ بہت عجلت میں ہیں۔ وہ مہینوں کی منزلیں دنوں میں طے کرنا چاہتے ہیں۔ سیانے کہتے ہیں کہ جلد بازی کے کام میں برکت نہیں ہوتی۔ غلط فیصلے سرزد ہونے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ حالات و واقعات سے اندازہ ہوتا ہے کہ خان صاحب نے شاید جلد بازی میں غلط فیصلہ کر لیا ہے۔ گورنرز الیکشن کی تاریخ دینے کو تیار نہیں اور انتظامیہ الیکشن کمیشن کی معاونت سے معذوری ظاہر کر رہی ہے۔ اب اگر عدالت کی جانب سے الیکشن کرانے کا فیصلہ سامنے آتا ہے‘ تو کیا اس پر عمل درآمد ہو سکے گا؟ ماضی قریب کی مثال سب کے سامنے ہے۔ 30 دسمبر 2022ء کو اسلام آباد ہائیکورٹ نے فیصلہ دیا تھا کہ دو روز بعد‘ مقررہ تاریخ پر ہی اسلام آباد میں بلدیاتی الیکشن کرائے جائیں مگر وفاقی حکومت نے انکار کر دیا تھا اور وہ الیکشن آج تک نہیں ہو سکے۔ اگر حکومت عدالتی فیصلوں کو ایسے نظر انداز کرے گی تو ملک میں قانون کی حکمرانی کیسے قائم ہو گی؟ عام آدمی کو انصاف کیسے میسر آئے گا؟ میں اب بھی یہی سمجھتا ہوں کہ خان صاحب کا اسمبلیاں تحلیل کرنے کا فیصلہ درست نہیں تھا، مگر جو ہونا تھا‘ وہ ہو چکا ہے۔ سانپ گزر جائے تو لکیر پیٹنے کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ اب آئین کی منشا کے مطابق الیکشن نوے روز میں ضرور ہونے چاہئیں۔
سرِ دست حکومت کی جانب سے معیشت اور امنِ عامہ کی صورتِ حال کو الیکشن کے التوا کے جواز کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔ مانا کہ معیشت بدحالی کا شکار ہے اور امن و امان کی صورتِ حال بھی ناگفتہ بہ ہے مگر 2008ء، 2013ء اور 2018ء میں امن و امان کی صورت حال آج کی نسبت کہیں زیادہ خراب تھی۔ الیکشن ان حالات میں بھی ہوئے تھے‘ تو اب کیوں نہیں ہو سکتے؟ معیشت اس وقت بھی خراب تھی مگر انتخابات کے انعقاد میں رخنہ نہیں پڑا تھا۔ الیکشن میں رکاوٹ تو آمر ڈالتے ہیں‘ جمہوریت پسند نہیں۔ الیکشن آئین کی ضرورت ہے اور سیاسی مسائل کا حل بھی۔ اس لیے بہرصورت نوے دن سے آگے بات نہیں جانی چاہیے۔ ملک کا نظام آئین کے مطابق ہی چلتا ہے‘ ایسے نہیں ہو سکتا کہ آپ آئین کو ماننے کے معاملے میں سلیکٹو ہو جائیں۔ جو آپ کو سوٹ کرے‘ اس پر عمل کریں اور جو آپ کے سیاسی مفاد سے متصادم ہو‘ اس کو نظر انداز کر دیا جائے۔ دنیا کے کسی بھی جمہوری معاشرے میں ایسا نہیں ہوتا۔
حکومت اور اپوزیشن‘ دونوں کو سوچنا ہوگا کہ وہ کس ڈگر پر چل رہے ہیں اور یہ راستہ ملک کی خوش حالی کا ہے بھی یا نہیں۔ سیاست کے بدلے میں سیاست کی جاتی ہے‘ آئین و قانون کا مذاق نہیں بنا دیا جاتا۔ مت بھولیں کہ جب تک سیاسی حالات مستحکم نہیں ہوں گے‘ معیشت کا پہیہ نہیں چلے گا۔ آئی ایم ایف سے معاہدہ ہو بھی جائے تو اس کی شرائط پر عمل درآمد لگ بھگ ناممکن ہو گا۔ فی الحال تو آئی ایم ایف کا وفد واپس امریکہ جا چکا ہے اور سٹاف لیول معاہدہ بھی ابھی تک نہیں ہوسکا ہے۔ آئی ایم ایف نے 170 ارب روپے کے نئے ٹیکسز لگانے کا کہا ہے، پاور سیکٹر میں ریفارمز اور بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کی نجکاری کرنا ہو گی، ترقیاتی بجٹ میں 350 ارب کی کمی پر بھی اتفاق ہوا ہے جبکہ پٹرولیم مصنوعات پر جی ایس ٹی لگانے پر حکومت نے رضامندی ظاہر نہیں کی جس کی وجہ سے فوری معاہدہ نہیں ہو سکا۔ یہ معاہدہ ملک کی معاشی ضرورتوں کے لیے نہایت ضروری ہے۔ ہو سکتا ہے کہ اگلے چند دنوں میں یہ معاہدہ ہو جائے۔ جتنی جلدی معاہدہ ہوگا‘ اتنی جلدی معاشی حالات بہتری کی طرف جائیں گے۔
اس معاہدے کے بعد مہنگائی کی ایک لہر ضرور آئے گی مگر دوسرا راستہ دیوالیہ ہونے کا ہے‘ جو کسی طرح بھی ہمارے آپشنز میں شامل نہیں ہونا چاہیے۔ اگر کسی کو بخار اور سرجری میں سے ایک بیماری چننے کی آزادی دی جائے تو یقینا سب بخار ہی کو ترجیح دیں گے۔ اس لیے آئی ایم ایف سے معاہدہ ہی ہماری معاشی بقا کا ضامن ہے۔
اس وقت ہمارا المیہ یہ ہے کہ پی ڈی ایم حکومت اور پی ٹی آئی کے مابین بات چیت کرانے والا کوئی نہیں ہے اور اسی لیے مسائل کی گتھی سلجھنے کے بجائے مزید الجھتی جا رہی ہے۔ اب سیاسی اختلافات نے ذاتی دشمنی کا روپ دھار لیا ہے۔ اس کا نقصان صرف اور صرف ملک اور قوم کو ہو رہا ہے۔ کوئی تو ہو جو سیاستدانوں کو مذاکرات پر آمادہ کر سکے۔ کوئی تو ہو جو عمران خان اور شہباز شریف کو آمنے سامنے بٹھا سکے۔ کوئی تو ہو جو سیاست کو چھوڑ کر ملک کی فکر کرے۔ کوئی تو ہو جو تلخی کا جواب پیار سے دے سکے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں