عمران خان کی گرفتاری؟

2012ء میں سپین کے بادشاہ جان کارلس (Juan Carlos1) کے داماد پر کرپشن کے الزامات لگے۔ بادشاہ کو ریاست کے سربراہ ہونے کی حیثیت سے کسی بھی قانونی اور عدالتی کارروائی کا سامنا کرنے سے استثنیٰ حاصل تھا مگر بادشاہ قانون کی بالادستی کے لیے عدالت میں پیش ہوا اور اپنے داماد کے کیس میں گواہی دی۔ کنگ چارلس ون انگلینڈ کا بادشاہ تھا۔ سترہویں صدی میں سول وار ہوئی تو بادشاہ پر پارلیمنٹ نے غداری کا مقدمہ بنادیا۔ چارلس بطور بادشاہ عدالت میں پیش ہوا اور اپنے خلاف بننے والے کیس کا دفاع کیا۔ عدالت میں بادشاہ پر غداری ثابت ہوئی اور اسے 1649ء میں پھانسی دے دی گئی۔ 1960ء سے 1970ء تک Park Chung-hee ساؤتھ کوریا کا صدر تھا۔ اس کی شہرت سخت گیر انسان کی تھی اور طرزِ حکومت آمرانہ تھا مگر اس کے باوجود وہ عدلیہ کی آزادی اور رول آف لاء کا سب سے بڑا داعی تھا۔ اس کے بھائی پر کرپشن کے الزامات لگے اور مقدمات بنائے گئے۔ وہ صدر ہونے کے باوجود عدالت میں پیشیاں بھگتتا رہا۔ یہی نہیں‘ 1990ء میں نیلسن منڈیلا جیل سے رہائی کے بعد ساؤتھ افریقہ کا صدر بن گیا۔ اس وقت ملک میں جمہوریت پروان چڑھ رہی تھی۔ منڈیلا نے صدارتی استثنیٰ لینے سے انکار کردیا اور درجنوں ہائی پروفائل کیسز میں بطور گواہ پیش ہوا۔ نیلسن منڈیلا کا کہنا تھا جو حکمران عدالت کے سامنے پیش نہیں ہو سکتا‘ اسے کوئی حق حاصل نہیں ہے کہ وہ قانون کی بالادستی کی بات کرے اور عام لوگوں پر قانون کا نفاذ کرے۔
سابق وزیراعظم عمران خان تو نیلسن منڈیلا کے بہت بڑے مداح ہیں اور اکثر اپنی تقریروں میں ان کا حوالہ دیتے رہتے ہیں۔ کیا خان صاحب کو نہیں معلوم کہ نیلسن منڈیلا عدالتوں کو کتنا اہم سمجھتے تھے؟ کیا عمران خان کو ادراک نہیں کہ قانون کی حکمرانی تب ہوتی ہے جب عدالتوں کے احکامات کو من وعن تسلیم کیا جاتا ہے؟ کیا ہماری سیاسی اشرافیہ نے دنیا بھر کے حکمرانوں سے کچھ نہیں سیکھا؟ انگلینڈ کے حکمران سترہویں صدی میں عدالتوں کے سامنے سرنگو ں رہتے تھے مگر ہم اکیسویں صدی میں بھی ان سے بہت پیچھے ہیں۔ کیوں؟ اسلام آباد کی دہشت گردی کی عدالت نے عمران خان کی ضمانت خارج کی تو وہ حفاظتی ضمانت کے حصول کے لیے لاہور ہائیکورٹ چلے گئے۔ لاہور ہائیکورٹ نے حکم دیا کہ عمران خان پیش ہوں پھر ضمانت دی جائے گئی مگر خان صاحب عدالت میں پیش نہ ہوئے۔ دو روز تک لاہور ہائیکورٹ کے معزز جج صاحبان انتظار کرتے رہے مگر عمران خان تشریف نہ لائے۔ کبھی سکیورٹی کا بہانہ بنایا گیا اور کبھی کہا گیا کہ ڈاکٹرز سفر کرنے کی اجازت نہیں دے رہے۔ کبھی عدالت کو بتایا گیا کہ تھوڑا وقت دیا جائے‘ وہ حاضر ہو جائیں گے اورکبھی موقف اختیار کیا گیا کہ وہ آنا چاہتے ہیں مگر پارٹی کے خدشات ہیں۔ کیا ایسے ہوتا ہے عدالتوں کا احترام؟ کیا قانون کی بالادستی کو اس طرح یقینی بنایا جاتا ہے؟ کیا عدالتوں سے ضمانتیں گھر بیٹھے مل جاتی ہیں؟ عمران خان ملک کے مقبول ترین سیاستدان ہیں اور کروڑوں لوگ ان کو پسند کرتے ہیں۔ کیا کسی نے سوچا ہے کہ ان کے فالورز کوکیا پیغام گیا ہے؟ جب لیڈر عدالتوں کے احکامات کو نظر اندازکریں گے تو فالورز کیسے حکم بجا لائیں گے؟ ملک میں احتساب کا نظام کیسے آگے بڑھے گا؟ بہت سے لوگوں کو یہ بات ناگوار گزرے گی مگر میں یہاں ایک مثال دینا چاہتا ہوں۔ جب 2017ء میں میاں نواز شریف کو اقامہ کیس میں نااہل کیا گیا تو وزیراعظم کے مشیروں نے مشورہ دیا کہ ان کے ساتھ زیادتی کی گئی ہے۔ اس فیصلے پر عملدرآمد کے بجائے اسے پارلیمنٹ کے ذریعے ختم کیا جائے مگر میاں نواز شریف نے انکار کردیا تھا اور وہ فوری مستعفی ہوکر گھر چلے گئے۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ عمران خان زخمی ہیں اور انہیں سکیورٹی تھریٹس بھی ہیں۔ میری 35 روز قبل خان صاحب سے ملاقات ہوئی تھی۔ اس وقت وہ خود چل پھر رہے تھے اور ان کا کہنا تھا وہ دو ہفتوں تک مکمل صحت یاب ہو جائیں گے۔ ہو سکتا ہے کہ زخم اب بھی مکمل نہ بھرے ہوں مگر تین کلومیٹر کا سفر تو کیا جا سکتا تھا۔ کیا وہ زخمی ہونے کے 23دن بعد راولپنڈی جلسے کے لیے نہیں گئے تھے؟ اس وقت تو زخم بالکل تازہ تھا مگر اب تو ایسی صورتحال نہیں تھی۔ اگر چل کر عدالت میں پیش نہیں ہو سکتے تھے تو وہیل چیئر کا استعمال کیا جا سکتا تھا مگر خان صاحب نے دانستہ طور پر ایسا کرنے سے گریز کیا۔ کیوں؟ واقفانِ حال کہتے ہیں کہ انہیں خدشہ تھا کہ اگر عدالت نے ضمانت نہ دی تو انہیں وہیں سے گرفتار کر لیا جائے گا۔ اس لیے انہوں نے عدالت جانے سے اجتناب کیا۔ میرے نزدیک یہ ایسا عذر ہے جس کی کوئی قانونی دلیل نہیں دی جا سکتی۔ یہ ایسا الزام ہے جس سے نظامِ انصاف کی غیرجانبداری پر بھی سوال اٹھتا ہے۔ اگر آپ کے تحفظات تھے تو پھر حفاظتی ضمانت کے لیے ہائیکورٹ سے رجوع کیو ں کیا تھا؟ حفاظتی ضمانت ملزم کا حق ہوتا ہے اور سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق جب تک ملزم عدالت کے سامنے سرنڈر نہ کرے‘ اسے ضمانت نہیں دی جاتی۔ اگر خان صاحب عدالت آجاتے تو انہیں یقینی طورپر ضمانت مل جانا تھی اور جس کے بعد وہ واپس گھر چلے جاتے۔ ایسی صورت میں گرفتاری کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اگر ایسی بات نہیں تھی اور وہ سکیورٹی خدشات کی وجہ سے عدالت میں پیش نہیں ہوئے تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ الیکشن مہم کیسے چلائیں گے؟ اگر وہ تین کلومیٹر کا سفر نہیں کر سکتے تو وہ شہر شہر جلسے کیسے کریں گے؟ جنوبی پنجاب اور خیبر پختونخوا کیسے جائیں گے؟ احتیاط اچھی چیز ہے‘ اگروہ پولیس کے حصار میں ہائیکورٹ تک نہیں آسکتے تو انہیں جلسے جلوس سے بھی اجتناب کرنا چاہیے۔ ایسا نہ ہو تھوڑی سی لاپرواہی کسی بڑے حادثے کا سبب بن جائے۔ اہلِ پاکستان آج تک محترمہ بینظیر بھٹو کا غم نہیں بھولے۔ ہماری دعا ہے اللہ پاک خان صاحب کی حفاظت فرمائے۔
عمران خان کی گرفتاری سے جڑا ایک اور مسئلہ ان دنوں شد ت اختیار کر چکا ہے۔ میری اطلاعات کے مطابق حکومت عمران خان کو گرفتار کرنے کا ارادہ نہیں رکھتی۔ رانا ثناء اللہ محض ماحول کو گرم رکھنے کے لیے ایسے بیانات دیتے رہتے ہیں۔ جب بھی ان کی گرفتاری کا اعلان کیا جاتا ہے تو پی ٹی آئی کے ورکرز زمان پارک کے باہر آکر بیٹھ جاتے ہیں۔ گزشتہ ایک ماہ سے وہاں جو ماحول ہے‘ وہ ناقابلِ بیان ہے۔ پی ٹی آئی کے ورکرز نے کینال روڑ پر ڈیرے جما رکھے ہیں۔ جہاں ایک ساتھ پانچ گاڑیاں گزرتی تھیں وہاں اب ایک گاڑی گزرتی ہے۔ زمان پارک کے باہر کینال روڑ ہر وقت بند رہتا ہے اور وہاں سے گزرنا محال ہے۔ لاکھوں افراد روزانہ اس اذیت سے گزرتے ہیں مگر عمران خان صاحب کو اس کا احساس ہی نہیں ہے۔ روڑ بند کرنا آئین کی شق 10A‘ 15‘ 18‘ 23 اور 25Aکی خلاف ورزی ہے۔ ایک دو دن کی بات ہو تو لوگ برداشت کر لیتے ہیں مگر اب یہ سلسلہ اتنا دراز ہو چکا ہے کہ ناقابلِ برداشت ہے۔ عمران خان کو چاہیے وہ بنی گالا چلے جائیں۔ وہاں ہزاروں لوگ ان کی حفاظت کر سکتے ہیں اور خلقِ خدا پر گراں بھی نہیں گزرے گا۔ اہلِ لاہور یہ اذیت برداشت کرکر کے تھک چکے ہیں۔ خدارا! انہیں اس اذیت سے نجات دلائی جائے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں