مسلم لیگ (ن) کا المیہ

''آگے کنواں ہے اور پیچھے کھائی۔ جائیں تو جائیں کہاں؟ آگے بڑھ نہیں سکتے اور پیچھے مڑنے کا وقت بیت چکا ہے۔ خواجہ آصف نے ٹھیک کہا ہے ہم حقیقت میں دیوالیہ ہو چکے ہیں۔ اگر حالات کا بے رحم ناگ ایسے ہی ڈستا رہا تو ہماری داستاں تک نہ ہو گی داستانوں میں۔ جب ہمیں معلوم تھا کہ معیشت کی حالت انتہائی دگرگوں ہے تو ہمیں حکومت کی باگ ڈور نہیں سنبھالنی چاہیے تھی‘‘۔
مسلم لیگ (ن) سے تعلق رکھنے والے ایک وفاقی وزیر نے مجلس میں بیٹھتے ہی اپنی پریشانی بیان کی تو پیپلز پارٹی کے وزیر کو زیادہ حیرانی نہ ہوئی۔ وہ اس طرح کی باتیں پہلے بھی بہت سے دیگر لوگوں سے سن چکے تھے۔ پیپلز پارٹی کے وزیرگویا ہوئے: ہم نے عمران خان کی حکومت ختم کرکے کوئی غلطی نہیں کی۔ اگر ہم تحریک عدم اعتماد نہ لاتے تو عمران خان اور اس کے ساتھیوں کی منصوبہ بندی دس سال حکومت کرنے کی تھی۔ ہم نے ان کی ساری امیدوں پر پانی پھیر دیا۔
وزیر مسلم لیگ (ن): ہم نے عمران خان کی امیدوں پر پانی نہیں پھیرا بلکہ اپنی سیاسی بنیادوں میں پانی بھر دیا ہے۔ ہماری سیاست کی عمارت کسی بھی وقت دھڑام سے گر سکتی ہے۔ دیکھا نہیں‘ لاہور ہائیکورٹ میں پیشی کے وقت مال روڈ پر کیا عالم تھا؟ اتنے کم وقت میں‘ کسی نوٹس کے بغیر اتنی بڑی تعدا د میں لوگ کیسے باہر آ جاتے ہیں؟ میاں نواز شریف اور آصف زرداری صاحب کی پیشیوں کے وقت تو یہ منظر دیکھنے کو نہیں ملتے تھے۔ ہمیں یہ تسلیم کر لینا چاہیے کہ عدم اعتماد سے ہم نے سیاسی طور پر مردہ گھوڑے میں جان بھر دی ہے۔ یہ اب کسی کے قابو میں نہیں آئے گا۔
پیپلز پارٹی کے وزیر نے بولنا چاہا مگر مسلم لیگ (ن) کے وزیر نے اپنی بات جاری رکھی۔
اب حالات بدل چکے ہیں۔ مقتدر حلقوں کے سہارے ایک کمزور سی حکومت ہی بن سکتی ہے‘ مضبوط نہیں۔ اگر عمران خان اپنی مرضی کی تعیناتی کر بھی لیتے تو کیا ہو جانا تھا؟ زیادہ سے زیادہ میاں شہباز شریف، حمزہ شہباز، آصف زرداری اور بلاول بھٹو نااہل ہو جاتے مگر عمران خان کی غیر مقبولیت کو مقبولیت میں نہیں بدلا جا سکتا تھا۔ وہ بطور وزیراعظم عوام کے دلوں سے نکل چکے تھے مگر ہم نے انہیں دوبارہ عوام کے اعصاب پر سوار کر دیا ہے۔ کوئی لاکھ دلیلیں دے مگر میری رائے یہی ہے کہ ہماری غلطی نے ہی عمران خان کو مقبولیت کے بامِ عروج پر پہنچایا ہے۔ یقین نہیں آتا تو عمران خان کے گھر کے باہر جا کر حالات کا مشاہدہ کر لیں۔ لوگ وہاں دیوانہ وار بیٹھے ہیں۔ یہ مقبولیت نہیں تو اور کیا ہے؟
وزیر پیپلزپارٹی: کون سی مقبولیت؟ کیسی مقبولیت؟ پچھلے مہینے ہم نے کراچی اور اندرونِ سندھ کے بلدیاتی الیکشن میں پی ٹی آئی کو واضح شکست دی تھی۔ کراچی میں اتنی بڑی کامیابی تو ہمیں محترمہ کی شہادت کے بعد بھی نہیں ملی تھی۔ ابھی جنرل الیکشن بہت دور ہیں۔ گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔
وزیر مسلم لیگ (ن): ہو سکتا ہے کہ حکومت سنبھال کر پیپلز پارٹی کو فائدہ ہوا ہو مگر ہمارے حصے میں تو نقصان ہی نقصان آیا ہے۔ ایک سال پہلے پنجاب میں سیاست دان ہماری پارٹی کے ٹکٹ کے حصول کے لیے لائنیں بنا کر کھڑے ہوتے تھے مگر اب ایسی صورتِ حال نہیں ہے۔ اب تو صدرِ مملکت نے پنجاب اور کے پی میں 9 اپریل کو عام انتخابات کی تاریخ بھی دے دی ہے۔ اگر ڈیڑھ‘ دو ماہ بعد الیکشن ہو گئے تو پنجاب ہمارے ہاتھ سے نکل جائے گا۔ ہم نے ملک کو بچاتے بچاتے اپنی سیاست کو ختم کر دیا ہے۔ ہم نے اقتدار کی خواہش میں سیاسی موت کو گلے لگا لیا ہے۔
وزیر پیپلز پارٹی: ایسے کیسے الیکشن ہو جائیں گے؟ صدر صاحب الیکشن کی تاریخ دینے کے مُجاز ہی نہیں ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ انہوں نے تاریخ دے کر اپنی آئینی حدود سے تجاوز کیا ہے۔ کیا آئین کی شق 105 مبہم ہے جو الیکشن ایکٹ 2017ء پر تکیہ کیا جا رہا ہے؟ آئین میں صریح الفاظ میں لکھا ہے کہ صوبے میں الیکشن کی تاریخ کا اعلان گورنر نے کرنا ہے۔ صدر نے الیکشن ایکٹ 2017 کی شق (1) 57 کا سہارا لیا ہے۔ جہاں ایک مبہم سی بات لکھی ہے۔ الیکشن کمیشن کسی طور اس تاریخ پر الیکشن نہیں کرائے گا۔ اگر الیکشن کمیشن نے صدر کی اعلان کردہ تاریخ پر الیکشن کرائے تو یہ ایک متنازع عمل ہو گا اور ایسے الیکشن کو کوئی نہیں مانے گا۔
پیپلز پارٹی کے وزیرکی یہ دلیل سن کر مجھے بہت حیرانی ہوئی اور میں سوچ میں پڑ گیا کہ آخر آئین پر عمل کر کون رہا ہے؟ کیا پنجاب اور کے پی کے گورنرز آئین کی پاسداری کر رہے ہیں؟ کیا وفاقی حکومت آئین کے ساتھ کھڑی ہے؟ کیا الیکشن کمیشن آئین کی سربلندی کے لیے کام کر رہا ہے؟ کیا عمران خان نے اپنی دو صوبائی حکومتیں ختم کر کے آئین کی خدمت کی ہے؟ چلیں ایک لمحے کے لیے مان لیتے ہیں کہ صدر صاحب نے الیکشن کی تاریخ دے کر غیر آئینی کام کیا ہے‘ سوال یہ ہے کہ اگر الیکشن کی تاریخ گورنرز نے دینی ہے تو وہ کیوں تاریخ نہیں دے رہے؟ کیا یہ غیر آئینی عمل نہیں ہے؟ اس حوالے سے پنجاب اور کے پی کے گورنرز نے جو عذر پیش کیا ہے وہ سراسر غیر منطقی ہے۔ آئین میں یہ بھی لکھا ہے کہ اسمبلی تحلیل ہونے کے نوے روز کے اندر الیکشن ہوں گے۔ اس پر عمل کیوں نہیں کیا جا رہا؟ کیا یہ آئین سے روگردانی نہیں ہے؟ تحریک انصاف کے اکابرین کہتے ہیں کہ گورنرز اور الیکشن کمیشن پر آئین سے غداری کے مقدمات بنائے جائیں گے اور انہیں منطقی انجام تک پہنچایا جائے گا۔ دوسری طرف ایسے ہی ارادے وفاقی حکومت کے بھی ہیں۔ وزیر دفاع خواجہ آصف اور وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ صدرِ مملکت کے بارے میں بھی ایسے ہی اعلانات کر چکے ہیں۔ کون کس پر مقدمات بنائے گا‘ اس کا فیصلہ تو وقت کرے گا مگر سرِدست آئین پر کوئی بھی عمل درآمد نہیں کر رہا۔
اعلیٰ عدلیہ کے دو جج صاحبان مقررہ مدت میں انتخابات کی تاریخ کے اعلان میں تاخیر پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے تحریری طور پر چیف جسٹس آف پاکستان سے سوموٹو لینے کی درخواست کر چکے ہیں۔ اس ضمن میں اسلام آباد ہائیکورٹ بار نے ایک پٹیشن بھی دائر کر رکھی ہے۔ اگر یہ معاملہ سپریم کورٹ تک گیا تو کیا اس سے جمہوری اداروں کی عزت افزائی ہو گی؟ اگر ہر کام عدالتوں میں ہی طے ہونا ہے تو پھر پارلیمنٹ کس کام کے لیے ہے؟ صوبائی اسمبلیاں کیوں تشکیل دی جاتی ہیں؟ سب سے بڑھ کر‘ حکومتی ادارے اپنا کام آئین کے تابع ہوکر کیوں نہیں کرتے؟ چیف الیکشن کمشنر سپریم کورٹ میں کہہ چکے ہیں کہ انہیں الیکشن کرانے سے روکا جا رہا ہے‘ حکومتی ادارے ان کے ساتھ تعاون نہیں کر رہے‘ الیکشن کمیشن کے اختیارات محدود کیے جا رہے ہیں۔ آپ خود فیصلہ کریں‘ اس کے بعد باقی کیا رہ جاتا ہے؟
میں اپنے خیالات کی دنیا سے باہر آیا تو سنا‘ پیپلز پارٹی کے وزیر کہہ رہے تھے: بس مہنگائی کا مسئلہ ہے‘ اگر ہم نے اس پر قابو پا لیا تو عمران خان کا کوئی نام لیوا بھی نہیں ہو گا۔ پڑھے لکھے لوگ پی ٹی آئی سے بیزار ہو چکے ہیں۔
وزیر مسلم لیگ (ن): اسی بات کا تو رونا ہے۔ فوری طور پر مہنگائی کو ختم کرنا ناممکن ہے۔ اس کام کے لیے ایک اور ٹرم چاہیے۔ آئی ایم ایف کی شرائط نے ہماری کمر توڑ دی ہے۔ ابھی تو مہنگائی مزید بڑھے گی۔ سمجھ نہیں آ رہی ڈالر کہاں جا کر رکے گا، سونا مزید کتنا مہنگا ہو گا، زرمبادلہ کے ذخائر کیسے اوپر جائیں گے، ہمیں اور کتنی دیر قرضوں کے سہارے جینا پڑے گا، کاربار ی حالات کب بہتر ہوں گے، شرحِ سود کیسے کم ہو گی، برآمدات کیسے بڑھیں گی اور درآمدات پر انحصار کیسے کم ہو گا۔ اوپر سے اب سینئر پارٹی رہنمائوں نے بھی حکومت پر نشتر چلانا اور اس سے لاتعلقی کا اظہار کرنا شروع کر دیا ہے۔ یوں لگتا ہے کہ میاں نواز شریف بھی ہمیں ہی ان حالات کا ذمہ دار سمجھتے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں