ہم ایسے ترقی نہیں کرسکتے

جیسے انسان اپنے تجربات اور معلومات کے زیرِ اثر تغیر پذیر رہتا ہے‘ ویسے ہی شجر و حجر، صحرا اور دریا وقت کے نشیب و فراز کے ساتھ ساتھ اپنی ہیٔت و اپنا رخ بدلتے رہتے ہیں۔ کھجور کا درخت دن کی روشنی میں عروسِ نو کی مانند دکھائی دیتا ہے مگر رات کی تاریکی چھاتے ہی وہ دھویں کے ستون جیسا روپ دھار لیتا ہے۔ دیو قامت چٹانیں‘ جو دھوپ میں ناقابلِ تسخیر لگتی ہیں‘ اندھیرے میں وہی چٹانیں کمزور اور نحیف نظر آتی ہیں۔ ندی کا ایک روپ صبح کے وقت ہوتا ہے اور دوسرا شام کے وقت۔ جلاد کی زندگی جیل میں الگ ہوتی ہے اور گھر میں الگ، سرکس کے کھلاڑی جیسے کام کے دوران نظر آتے ہیں ویسے عام حالات میں نہیں ہوتے۔ اگر انسانی زندگی سے تبدیلی کی کشش ختم ہو جائے تو زندہ رہنے کا جواز ختم ہو جاتا ہے۔ تغیر قانونِ قدرت ہے اور انسانی فطرت بھی مگر نجانے کیوں ہمارے سیاست دان چوبیس گھنٹے‘ ساتوں دن اور بارہ مہینے ایک جیسے دکھائی دیتے ہیں۔ وہی سیاسی و گروہی مفادات کا تحفظ‘ وہی عوامی مسائل سے دوری اور وہی قومی ترجیحات سے بے اعتنائی۔ کیا اہلِ حَکم کو پاکستانیوں کے چہروں پر چھائی یاس کی زردی نظر نہیں آتی؟ کیا مہنگائی کے باعث خمیدہ گردنیں‘ خالی آنکھیں اور ٹوٹے دل دکھائی نہیں دیتے؟ ان کے رویوں اور عمل میں اتنی یکسانیت کیوں ہے؟ عباس تابش یاد آتے ہیں:
جھونکے کے ساتھ چھت گئی‘ دستک کے ساتھ در گیا
تازہ ہوا کے شوق میں میرا تو سارا گھر گیا
ملک کو جو مسائل درپیش ہیں‘ وہ عمران خان کی گرفتاری سے حل ہوں گے نہ پی ٹی آئی پر پابندی لگانے سے معاشی الجھنیں دور ہوں گی۔ پنجاب اور خیبر پختونخوا میں الیکشن کا انعقاد روکنے سے بات بنے گی نہ وفاقی حکومت کی مدت بڑھانے سے سیاسی مسائل حل ہو سکیں گے۔ اس کا حل صرف ایک ہے اور وہ ہے احساسِ ذمہ داری۔ جب تک سیاست دانوں‘ سیاسی جماعتوں اور عوام سمیت سب اداروں میں احساسِ ذمہ داری اجاگر نہیں ہو گا، یہ منہ زور معاشی اور سیاسی مسائل کبھی حل نہیں ہوں گے۔ ملک کا بچہ بچہ جانتا ہے کہ ہر گزرتے دن کے ساتھ ملک کے دیوالیہ ہونے کا خطرہ بڑھ رہا ہے‘ ایسے میں بحیثیت قوم ہمارے اندر احساسِ ذمہ داری کیوں پیدا نہیں ہورہا؟ جب سیاسی عدم استحکام نے معیشت کو کھوکھلا کر دیا ہے تو سب کچھ گنو ا کر بھی ہم ضد اور اَنا کو کیوں نہیں چھوڑ رہے؟ سیاست دان ایک دوسرے سے بات چیت کیوں نہیں کرتے؟ مل بیٹھ کر انتخابات کی تاریخ طے کیوں نہیں کرتے؟ چارٹر آف اکانومی کی تجویز پر ایک دوسرے کو قائل کرنے کے لیے ملاقاتیں کیوں نہیں ہوتیں؟ کیا ان کی اَنائیں ملکی مفادات سے زیادہ بڑی ہیں؟ کیا ہمارے سیاست دانوں نے کبھی سوچا کہ آخرکب تک عوام اقتدار کی کشمکش کی وجہ سے بدانتظامی اور مہنگائی کی چکی میں پستے رہیں گے؟
نیلسن میڈیلا کا قول ہے ''دنیا کا کوئی مسئلہ ایسا نہیں جسے سیاست دان حل نہیں کر سکتے مگر اس کے لیے اَنا کی میلی چادر اتار کر ظرف کا کمبل اوڑھنا پڑتا ہے‘‘۔ شومئی قسمت! ہماری قومی لیڈرشپ میں اسی صلاحیت کا فقدان ہے۔ جنگیں کبھی قوموں کو تباہ کرتی ہیں نہ معاشی بدحالی سے معاشرے اجڑتے ہیں۔ قومیں ہمیشہ اپنے منفی رویوں کی باعث ماضی کے اوراق کا حصہ بنتی ہیں۔ جاپان کے دو شہروں پر امریکہ نے ایٹم بم گرایا۔ اس وقت خیال کیا جا رہا تھا کہ یہ ملک دوبارہ کبھی اپنے پاؤں پر کھڑا نہیں ہو سکے گا مگر ہوا کیا؟ جاپان آج دنیا کی سب سے بڑی صنعتی طاقت ہے۔ سوویت یونین کا شیرازہ بکھرا تو بچا کھچا روس معاشی طور پر انتہائی کمزور ہو گیا۔ لوگوں کے پاس کھانے کے پیسے نہیں تھے مگر آج روس دنیا کی دس بڑی معاشی طاقتوں میں سے ایک ہے۔ یورپ کا ماضی بھی جنگوں سے بھرا پڑا ہے۔ فرانس اور جرمنی ایک دوسرے کی شکل دیکھنا گوارا نہیں کرتے تھے مگر پھر دونوں ملکوں نے ایک دوسرے کی حیثیت کو مان لیا۔ برطانیہ اور فرانس کئی صدیوں تک ایک دوسرے سے برسرپیکار رہے۔ آج دونوں ملک معاشی طور پر مضبوط ہیں۔ بھارت بھی 1990ء کی دہائی میں دیوالیہ ہونے کی نہج پر تھا مگر پھر سیاسی استحکام کی ناؤ نے اسے پار لگا دیا۔ آج بھارت کے پاس پانچ سو ارب ڈالر سے زائد کے زر مبادلہ کے ذخائر ہیں۔ وہاں جو بھی حکومت آتی ہے‘ دو ٹرمز ضرور پوری کرتی ہے مگر ہمارے ہاں تو وزیراعظم اپنا عہدہ سنبھالتے ہی خود کو غیر محفوظ سمجھنے لگتا ہے۔ اس کے خلاف محلاتی سازشیں شروع ہو جاتی ہیں اور بالآخر اسے اپنی مدتِ میعاد پورا کیے بغیر گھر جانا پڑتا ہے۔ یہی کچھ پچھلی سات دہائیوں سے ہو رہا ہے۔ اگر بھارت میں سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کو برداشت کر سکتی ہیں تو ہم ایسا کیوں نہیں کر سکتے؟ اگر جرمنی اور فرانس ایک دوسرے کی سیاسی حیثیت کو قبول کر سکتے ہیں تو پی ٹی آئی‘ (ن) لیگ اور پیپلز پارٹی کے ایسا کرنے میں کیا امر مانع ہے؟ عمران خان مقتدر حلقوں سے صلح کے خواہشمند ہیں‘ وہ دہشت گرد گروپوں سے بات چیت کے بھی حامی ہیں‘ انہیں علیحدگی پسند تنظیموں سے مذاکرات پر بھی کوئی اعتراض نہیں مگر وہ سیاستدانوں کے ساتھ گفت و شنید کے قائل نہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ سب سے بات ہو سکتی ہے مگر شہباز شریف اور آصف زرداری سے نہیں۔ کیوں؟ کیا وقت کے وزیراعظم سے بات کیے بنا قومی مسائل حل ہو سکتے ہیں؟ اگر ہو سکتے تو کیا ہمیں آج یہ دن دیکھنا پڑتے؟ ستم بالائے ستم‘ آصف زرداری نے بھی عمران خان سے بات چیت نہ کرنے کا بیان دیا ہے۔ اگر صورتحال اتنی پیچیدہ ہو چکی ہے تو ملک بھنور سے کیسے نکلے گا؟ کیا زرداری صاحب کی مفاہمت کی پالیسی صرف اقتدار کے حصول کے لیے ہے‘ ملک کو مسائل کی دلدل سے نکالنے کے لیے نہیں؟
معاشی اور سیاسی مسائل کا حل احساسِ ذمہ داری میں ضرور پنہاں ہے مگر یہ ذمہ داری صرف سیاست دانوں کو ادا نہیں کرنی۔ عوام نے بھی اپنا بھرپور حصہ ڈالنا ہے۔ اس بات میں کیا شبہ ہے کہ پٹرول اور ڈیزل بہت مہنگے ہوگئے ہیں‘ مگر کیا یہ واقعی عوام کی پہنچ سے باہر ہیں؟ اگر ایسا ہے تو اب تک گاڑیوں کے استعمال میں نمایاں کمی کیوں نہیں آئی؟ عوام کی جانب سے پبلک ٹرانسپورٹ پر سفر کرنے کو ترجیح کیوں نہیں دی جا رہی؟ زیادہ نہ سہی‘ ہفتے میں دو دن تو گاڑی گھر پر کھڑی کی جا سکتی ہے۔ اس کا فائدہ یہ ہو گا کہ جہاں اٹھارہ ارب ڈالر پٹرولیم مصنوعات کی درآمد پر خرچ ہوتے ہیں‘ وہاں درآمدی بل میں دو سے تین ارب ڈالر کی کمی آ جائے گی۔ اگر چینی اور کوکنگ آئل مہنگے ہیں تو ہم ان کا استعمال کم کیوں نہیں کر دیتے؟ اس سے بھی درآمدی بل کم ہو گا اور زرمبادلہ کے ذخائر بڑھیں گے۔ ملک کے درآمدی بل کا بڑا حصہ لگژری اشیا پر مشتمل ہے۔ ہم گھروں میں لوکل ٹائلز اور دوسری مقامی اشیا کے استعمال کو فروغ کیوں نہیں دیتے؟ مہنگے فونز‘ گاڑیوں‘ تزین و آرائش کی اشیا اور دیگر لگژری آئٹمز کو کچھ عرصے کے لیے چھوڑ کیوں نہیں دیتے؟ اس کا فائدہ یہ ہو گا کہ ڈالرز کا غیر ضروری استعمال کم ہو گا اور ادھار بھی کم سے کم لینا پڑے گا۔ اگر سبزیاں مہنگی ہیں تو کچن گارڈننگ پر توجہ کیوں نہیں دیتے؟ اگر بجلی مہنگی ہے تو ایئر کنڈیشنر کا استعمال محض مجبوری کی حالت میں ہی کیوں نہیں کرتے؟ اگر گیس نایاب اور مہنگی ہے تو اس کا استعمال کم کیوں نہیں کر دیتے؟
دکھ کی بات یہ ہے کہ ہمارے اندر احساسِ ذمہ داری نہیں ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ جو کریں محض حکمران کریں‘ ہمیں کچھ نہ کرنا پڑے، ہم اپنے کمفرٹ زون سے باہر نہ آئیں، ہمیں ملک کی خاطر کوئی قربانی نہ دینی پڑے۔ آپ خود فیصلہ کریں‘ کیا ملک ایسے ترقی کر سکتا ہے؟ ہمیں ہر حال میں اپنے اندر بدلاؤ لانا ہو گا۔ اگر سیاست دان اپنی روش تبدیل کرنے میں پہل نہیں کرتے تو بطور قوم ہمیں خود کو بدلنا ہوگا۔ جب ہم بدلیں گے تو سیاست دان بھی بدل جائیں گے۔ اگر ہم اپنے ملک کا خیال رکھیں تو ہمارے حکمران بھی اسے اپنی جاگیر نہیں سمجھیں گے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں