اصل ذمہ داری عمران خان کی ہے

شیخ سعدی کا ایک قول ہے ''گھر میں لڑائی پڑ جائے تو سب سے پہلے قربانی خاندان کے سربراہ کو دینا پڑتی ہے۔ اس کے بعد قربانی وہ دیتا ہے جس کا سب سے زیادہ مفاد وابستہ ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ سب جلتی پر تیل چھڑکنے کا کام کرتے ہیں‘‘۔ خاکم بدہن! مگر یہ حقیقت ہے کہ ریاستِ پاکستان اس وقت حالتِ جنگ میں ہے۔ اندرونی خلفشار اور انتشار بے قابو ہو رہا ہے۔ سیاست روگ بن چکی ہے اور معیشت ناسور۔ بھوک زندگیاں نگل رہی ہے اور مہنگائی انسانیت کی تذلیل کر رہی ہے۔ آٹے کے حصول کے لیے لگی قطاروں میں بھگدڑ مچی رہتی ہے اور راشن لینے والوں کی لاچارگی دیکھی نہیں جاتی۔ حکومت بیرونی ادائیگیاں کرنے سے قاصر ہے اور نئے ادھار کے لیے کشکول ہاتھ میں تھامے کھڑی ہے مگر کوئی مسیحا دور دور تک نظر نہیں آ رہا۔ ایسی کیفیت زندہ قوموں کو یکجا کرنے کے لیے کافی ہوتی ہے مگر ہم تو جیسے پہلے سے بھی زیادہ بکھر گئے ہیں۔ معاشی، سیاسی، آئینی اور انتظامی جھگڑوں نے سب کو بے نقاب کردیا ہے۔ ادارے ایک دوسرے سے گتھم گتھا ہیں اور عوام آپس میں دست و گریبان۔ کسی کو ملک کی فکر ہے نہ آئین کی۔ قانون کا احترام ہے نہ ریاستی رٹ کا خوف۔ پارلیمنٹ میں تقسیم ہے اور عدلیہ میں اختلافات۔ حکومت کو اپنی فکر کھائے جا رہی ہے اور اپوزیشن کو اقتدار کی کرسی نے بے کل کر رکھا ہے۔ ہرطرف ضد، اَنا اور ہٹ دھرمی کا راج ہے۔ عقل و فہم اور دانائی نایاب ہیں‘ مکمل نایاب!
مارچ 2022ء میں شروع ہونے والا سیاسی بحران ہرگز اتنا دراز نہ ہوتا اگر حکومت اور اپوزیشن کی جانب سے سیاسی بلوغت کا مظاہرہ کیا جاتا۔ اگر ان کے دل میں اقتدار کی خواہش سے زیادہ عوام کا درد ہوتا تو کبھی سیاسی لڑائی آئینی اور انتظامی بحران میں تبدیل نہ ہوتی۔ پھر پنجاب اور خیبر پختونخوا کی حکومتیں ختم ہوتیں نہ سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل درآمد میں رخنہ ڈلتا۔ آئین میں اگر انتخابات کی تاریخ کے حوالے سے کچھ ابہام موجود ہیں تو بھی سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل ناگزیر تھا مگر حکومت نے وہی کیا جس میں اس کا سیاسی فائدہ تھا۔ انتخابات میں سکیورٹی کے لیے الیکشن کمیشن سے تعاون کیا نہ مالی معاونت فراہم کی گئی۔ میں پورے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ آئین کی سب سے زیادہ پامالی گزشتہ ایک سال میں ہوئی ہے۔ شہبازحکومت نے آئین کی لاج رکھی نہ عمران خان نے آئین کو مقدم سمجھا۔ عوام نے آئین کا احترام کیا نہ الیکشن کمیشن نے اس کی عزت افزائی کی۔ عمران خان کے خلاف تحریکِ عدم اعتما د ایک آئینی عمل تھا مگر انہوں نے آئین کی منشا ماننے سے انکار کر دیا اور ایسے ایسے الزامات لگائے کہ جن کا کوئی سر تھا نہ پیر۔ اگر خان صاحب عدم اعتماد کو حکومت کی رخصتی کا آئینی طریقۂ کار سمجھ کر قبول کر لیتے اور آئندہ الیکشن کی تیار ی کرتے تو ملک آج بحرانی کیفیت میں نہ ہوتا۔ دوسری طرف وفاقی حکومت اور الیکشن کمیشن پنجاب اور خیبر پختونخوا میں آئینی مدت یعنی نوے روز کے اندر الیکشن کرا دیتے تو آئین کی بے حرمتی ہوتی نہ عدالتوں کے بارے میں بے باکی کا مظاہرہ کیا جاتا۔ عمران خان نے وفاقی حکومت کو نیچا دکھانے اور اپنی سیاسی نائو کو پار لگانے کے لیے دو اسمبلیاں تحلیل کیں۔ انہوں نے یہ کرتے ہوئے شاید آئین کی شق (3) 118 کو ملحوظِ خاطر نہ رکھا‘ جس میں الیکشن کمیشن کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ آزادانہ اور منصفانہ الیکشن کا انعقاد کرائے گا۔ کیا مکمل سکیورٹی، وفاق کے مالی اور صوبوں کے انتظامی تعاون کے بغیر الیکشن منصفانہ اور آزادانہ ہو سکتے ہیں؟ میری دانست میں عمران خان کا اسمبلیاں تحلیل کرنے کا فیصلہ یکطرفہ اور سیاسی طور پر غلط تھا مگر دوسری جانب وفاقی حکومت نے بھی آئینی بحران بڑھانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ اَنا کا جواب اَنا سے دیا، ضد کے مقابلے میں ضد لگائی اور ہٹ دھرمی کا توڑ ہٹ دھرمی میں تلاش کیا۔ کیا حکمرانی اسی کو کہتے ہیں؟
آئین و قانون کی بالادستی کے لیے جدوجہد کرنے والے افراد معزز عدلیہ کی موجودہ صورتحال سے خوش ہیں نہ حکومت کے رویے سے۔ سپریم کورٹ سوموٹو کے اختیار پر تقسیم نظر آتی ہے۔ عام آدمی کو سمجھ نہیں آ رہا کہ کس فیصلے کو قبول کرے اور کس فیصلے سے نظریں چرائے۔ خدا کرے کہ اعلیٰ عدلیہ کی یہ بحرانی کیفیت جلد سے جلد نارمل ہو تاکہ عوام کو سکھ کا سانس نصیب ہو سکے ورنہ حکومت کے ارادے کچھ ٹھیک دکھائی نہیں دے رہے۔ اتحادی حکومت فیصلہ کر چکی ہے کہ وہ تین رکنی بینچ کا فیصلہ من و عن نہیں مانے گی اور جب اسے قبول نہیں کیا جائے گا تو اس پر عمل درآمد کیسے ہو گا؟ وزیر داخلہ تین جج صاحبان کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس بھیجنے کا اشارہ دے رہے ہیں۔ یہی نہیں‘ وزیراعظم شہباز شریف نے جس طرح قومی اسمبلی میں کھل کر عدلیہ پر تنقید کی اور فل کورٹ بنانے کا مطالبہ کیا‘ اس سے حکومت کے عزائم واضح ہو جاتے ہیں۔ وفاقی کابینہ کے ہنگامی اجلاس میں جس طرح سپریم کورٹ کے رجسٹرار کو واپس بھیجنے کی منظوری دی گئی اس سے بھی اندازہ ہو جاتا ہے کہ حکومت محاذ آرائی جاری رکھنا چاہتی ہے۔ یہ حالات انتہائی افسوسناک ہیں اور 1997ء کی یاد دلا رہے ہیں۔ اس وقت کے چیف جسٹس‘ جسٹس سجاد علی شاہ اور وزیراعظم میاں نواز شریف کے مابین اختلافات اتنے بڑھ گئے تھے کہ کچھ شر پسندوں نے سپریم کورٹ پر حملہ کر دیا تھا جبکہ چیف جسٹس کے خلاف عدلیہ میں بغاوت ہو گئی تھی۔ میری دعا ہے کہ موجودہ حالات میں ایسے کسی اقدام کی نوبت نہ آئے۔ میں سمجھنے سے قاصر ہوں کہ حکومت اتنی دیدہ دلیری کیسے دکھا رہی ہے۔ سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل نہ کرنے کی باتیں کس قانون کے تحت کی جا رہی ہیں؟ مسلم لیگ (ن) کی گزشتہ حکومت بہت مضبوط تھی مگر 2014ء کے دھرنوں اور پاناما سکینڈل کے دوران یہ انتہائی کمزور نظر آئی۔ اس کے برعکس موجودہ شہباز حکومت تو دس‘ بارہ جماعتوں کو ساتھ ملانے کے باوجود دو ووٹو ں کی اکثریت پر کھڑی ہے مگر حکومت کا رویہ انتہائی جارحانہ ہے۔ کیوں؟ کیا حکومت کے اکابرین یوسف رضا گیلانی کے انجام سے ناآشنا ہیں؟ عدالت کی حکم عدولی کرنے کی پاداش میں انہیں نہ صرف وزارتِ عظمیٰ سے ہاتھ دھونا پڑے بلکہ پانچ سال کی نااہلی بھی ان کا مقدر ٹھہری۔
موجودہ سیاسی اور آئینی بحران صرف ایک صورت میں حل ہو سکتا ہے‘ وہ یہ کہ سارے سٹیک ہولڈرز ایک ایک قدم پیچھے ہٹ جائیں۔ چیف جسٹس ایک عدالت کے سربراہ نہیں بلکہ پورے ملک کے چیف جسٹس ہیں۔ ساری قوم کی امیدیں ان سے جڑی ہیں۔ ادھر سپریم کورٹ کے لارجر بینچ نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے فیصلے پر بھی غور کیا اور فیصلہ سنا دیا‘ امید ہے کہ اب اعلیٰ عدلیہ میں اختلافات کے تاثرات زائل ہو جائیں گے۔ اس وقت سب سے زیادہ سیاسی مفاد تحریک انصاف کا وابستہ ہے۔ عمران خان اس وقت ملک کے مقبول ترین سیاست دان ہیں اور یوں محسوس ہوتا ہے جیسے وزارتِ عظمیٰ کی کرسی ان سے چند ماہ کی دوری پر ہے۔ خان صاحب کو چاہیے کہ سیاسی فہم و فراست کو بروئے کار لائیں اور حالات کو نارمل ہونے دیں۔ حکومت سے الیکشن سمیت اہم معاملات پر مذاکرات کریں اور 'کچھ لو، کچھ دو‘ کی پالیسی اپنائیں۔ اس وقت سسٹم میں سب سے کم سٹیک حکومت کا ہے۔ وہ مہنگائی کے باعث غیر مقبول ہو چکی ہے اور اسی لیے الیکشن سے کترا رہی ہے۔ وہ کسی صورت نہیں چاہے گی کہ سیاسی درجہ حرارت کم ہو۔ اس لیے عمران خان پر دہری ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ وہ ایک بار تحمل سے بیٹھیں اور حالات کا درست تجزیہ کریں۔ انہیں کوئی نہ کوئی راستہ ضرور مل جائے گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں