سارا قصور عوام کا ہے؟

آئینِ پاکستان کو بنے پچاس سال بیت گئے مگر آئین کو لے کر ہمارا رویہ بلوغت کی منزلیں طے نہ کر سکا۔ ''آئین مقدم ہے اور سب سے بالاتر بھی‘‘۔ یہ وہ الفاظ ہیں جو ہمیں ہر روز سننے کو ملتے ہیں مگر کیا ہم اس پر عمل کرتے ہیں؟ کیا ہم اپنے کہے کی لاج رکھتے ہیں؟ کیا آئین کو اپنے مفادات کے مطابق موڑنا ہمارا قومی شعار نہیں بنتا جا رہا؟ سیاستدان آئین کی الگ تشریح کرتے ہیں اور قانون دان الگ۔ عوام کی اپنی توجیہات ہوتی ہیں اور ممبرانِ اسمبلی اپنی مرضی کے مطالب نکالتے ہیں۔ آئین کی پاسداری کے نام پر جس کا جو من چاہتا ہے‘ وہ کرتا ہے۔ کوئی فورم ایسا نہیں جو اس سے روک سکے۔ کوئی ادارہ ایسا نہیں جو آئین شکنی کے راستے میں دیوار بن جائے۔ آپ خود فیصلہ کریں‘ کیا ان رویوں سے آئین کی بالادستی قائم ہوتی ہے؟ میری دانست میں اس قضیے میں سب سے زیادہ قصور عوام کا ہے۔ عوام اگر آئین توڑنے والوں کی طاقت نہ بنیں تو کس کی مجال ہے کہ آئین پر عمل درآمد نہ کرے؟
ایک‘ دو برس کا قصہ نہیں‘ صدیوں کی غلامی نے ہمیں اس قدر بے حس کر دیا ہے کہ سو جوتے کھائیں یا سو پیاز‘ کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم اہلِ سیاست کو مسیحا بھی سمجھتے ہیں اور مسائل کی جڑ بھی۔ ہم 'جمہوریت بہترین نظام ہے‘ کی گردان بھی پڑھتے ہیں اور آمرانہ ذہنیت کے حامل سیاستدانوں کی راہوں میں پلکیں بھی بچھاتے ہیں۔ ہم آئین کو مقدم بھی مانتے ہیں اور اس کی بے توقیری پر تالیاں بھی پیٹتے ہیں۔ صدیوں پر محیط ہماری تاریخ بتاتی ہے کہ ہم ظلم سہہ لیتے ہیں مگر اس کے خلاف آواز نہیں اٹھاتے۔ ہم آنسو بہاتے ہیں مگر تھپڑ مارنے والے کا ہاتھ نہیں روکتے۔ شہاب الدین غوری نے ہندوستان فتح کیا تو عوام نے اس کے لگائے ہوئے دونوں گورنرز کی دل کھول کر جی حضوری کی۔ قطب الدین ایبک حکمران بنا تو کسی نے سر اٹھانے کی ہمت نہ کی۔ پھر سید خاندان آیا، تغلق، خلجی، لودھی آئے، مغل ہندوستان کی مسند پر بیٹھے، شیر شاہ سوری آیا، انگریزوں نے ہمیں غلامی کا طوق پہنایا پھر ان کے نوازے ہوئے سیاسی خانوادے‘ جو آج بھی کسی نہ کسی شکل میں ہمارے حکمران ہیں‘ ہم نے غلامی قبول کر لی مگر بغاوت کرنے کی ہمت ہمارے اندر پہلے تھی نہ اب ہے۔
گزشتہ ایک سال میں کیا کچھ نہیں ہوا۔ سیاست بے نقاب ہو گئی، معیشت کی چولیں ہل گئیں، معاشرت میں بگاڑ آ گیا اور آئین و قانون کا احترام نچلی حدوں کو چھونے لگا۔ ملک گرداب میں ایسا پھنسا کہ نکلنے کا نام نہیں لے رہا۔ سیاستدانوں کی اناؤں اور اقتدار کی ہوس نے سب کچھ تباہ کر دیا مگر عوام سیاسی بتوں کو پوجنے سے باز نہیں آ رہے۔ سب نے اپنے اپنے بت چُن رکھے ہیں۔ ہر کسی کے پاس اپنی اپنی دلیلیں ہیں اور کوئی کسی دوسرے کی بات ماننے کو تیار نہیں۔ چہار سو بہتان طرازی، جھوٹ، اقربا پروری اور اشتعال انگیزی کا بازار گرم ہے۔ عوام نے ہجوم کا روپ دھار رکھا ہے اور نفرت کی آگ کا ایندھن بنے ہوئے ہیں۔ خون کا بدلہ خون ہو سکتا ہے مگر سیاست میں نااہلی، ناکامی اور بے حسی کا جواب ووٹ کی طاقت سے دیا جاتا ہے۔ کیا اس بار عوام اپنے ووٹ کی طاقت سے سیاستدانوں کی اَناؤں کو شکست دیں گے؟ کیا جھوٹ کے آگے بند باندھا جائے گا؟
اگر کوئی سمجھتا ہے کہ موجودہ بحران کی ذمہ دار صرف حکومت ہے تو وہ غلطی پر ہے۔ عمران خا ن اور ان کی جماعت بھی معاشی، سیاسی اور آئینی بحران میں برابر کی شریک ہے۔ کوئی دن ایسا نہیں گزرا جب خان صاحب نے حکومت کی جانب پتھر نہ پھینکا ہو اور کوئی دن ایسا نہیں گزرا جب حکومت نے جوابی وار نہ کیا ہو۔ سیاسی لڑائی نے ہر طرف افراتفری پھیلا رکھی ہے اور اس لڑائی میں سب سے زیادہ آئین متاثر ہوا ہے۔ آئین کا تو جیسے حلیہ ہی بگڑ گیا ہے۔ ہر کوئی آئین کی بات کرتا ہے مگر اس پر عمل نہیں کرتا۔ عمران خان کا ماننا ہے کہ اسمبلی تحلیل کرنا وزیراعلیٰ کا آئینی حق تھا اور نوے روز میں الیکشن ہونا آئین کی منشا ہے‘ حکومت الیکشن نہ کرا کے آئین شکنی کر رہی ہے۔ حکومت کہتی ہے کہ عمران خان نے پرویز الٰہی اور محمود خان سے زبردستی اسملیاں تحلیل کرائی ہیں‘ یہ سیدھی سیدھی آئین کی خلاف ورزی ہے۔ نیز اگر صوبے اور وفاق میں الگ الگ انتخابات ہوں گے تو آئین کی شق (3)118 کی حکم عدولی ہوگی کیونکہ ایک ہی دن الیکشن نہ ہوئے تو یہ آزادانہ اور منصفانہ نہیں ہوں گے۔ اس بات کا فیصلہ کیسے ہوگا کہ کون آئین کے مطابق بات کر رہا ہے اور کون سیاسی فائدے کے لیے آئینی شقوں کو توڑ مروڑ رہا ہے؟ یقینا یہ کام اعلیٰ عدلیہ ہی کر سکتی ہے مگر ہوا کیا؟ سپریم کورٹ نے دو بار الیکشن کرانے کا حکم جاری کیا مگر اس پر عمل درآمد ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔ سپریم کورٹ کے پانچ جج صاحبان اس فیصلے کو اکثریتی فیصلہ نہیں مانتے اور حکومت بھی یہی موقف اپنائے ہوئے ہے۔ چیف جسٹس صاحب کا ایک موقف ہے اور پانچ ججز کا دوسرا۔ اس ماحول میں عوام کس کا فیصلہ مانیں اور کس کا فیصلہ نظر انداز کریں۔ عوام کے لیے یہ فیصلہ کرنا کٹھن ہو چکا ہے۔ کسی بھی معاشرے میں سپریم کورٹ امید کی آخری کرن ہوتی ہے۔ عوام کو جب کہیں سے انصاف نہیں ملتا تو اعلیٰ عدلیہ کے دروازے پر دستک دی جاتی ہے مگر اس وقت جو ماحول بنا ہوا ہے‘ وہ انتہائی افسوسناک ہے۔حکومت مکمل طور پر محاذ آرائی پر تلی ہوئی ہے۔ قومی اسمبلی میں ایسی زبان استعمال ہو رہی ہے جو اس سے قبل کبھی سننے کو نہیں ملی۔ سپریم کورٹ کے فیصلوں کے خلاف قرارداد منظور کر کے کابینہ اور پارلیمنٹ سے توثیق کرائی جا رہی ہے۔ کیا یہ آئین کے آرٹیکل 68 کی خلاف ورزی نہیں؟ آئین میں واضح لکھا ہے کہ اعلیٰ عدلیہ اور جج صاحبان کا کنڈکٹ پارلیمنٹ میں زیرِ بحث نہیں لایا جا سکتا مگر حکومت یہ بات ماننے کو تیار ہی نہیں۔
ہم کیا تھے اور کہاں پہنچ گئے۔ اس وقت بھارتی کرنسی کو عالمی طور پر پذیرائی مل رہی ہے۔ جرمنی، برطانیہ، روس اور نیوزی لینڈ سمیت اٹھارہ ممالک بھارتی روپے میں تجارت کرنے پر متفق ہو گئے ہیں۔ بھارت خلا میں مشن بھیج رہا ہے اور آئی ٹی کی دنیا میں تہلکہ مچا رہاہے مگر ہم یہ فیصلہ بھی نہیں کر پا رہے کہ الیکشن نوے دن میں ہوں گے یا نہیں؟ سپریم کورٹ کا فیصلہ تین‘ دو کا ہے یا چار‘ تین کا؟ انتخابات کے لیے فنڈز اور سکیورٹی فراہم کرنا اولین ذمہ داری ہے یا نہیں؟بالادست پارلیمنٹ ہے یا سپریم کورٹ؟ سیاستدانوں کی خواہشات بڑی ہیں یا آئین کا حکم؟ کھلی آنکھوں سے دیکھا جائے تو ہمارے سیاستدانوں نے ملک و آئین کا تماشا بنا دیا ہے۔ کبھی ایک ایوان میں سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف قرارداد منظور ہوتی ہے تو کبھی دوسرے ایوان میں طبلِ جنگ بجایا جاتا ہے۔ کبھی ایک جماعت آئین شکنی کرتی ہے تو کبھی دوسری۔ اس سیاسی جنگ میں معیشت پاتال میں گر چکی ہے، عام آدمی کی قوتِ خرید ختم ہو چکی ہے اور مہنگائی کے عذاب نے لوگوں کا جینا حرام کر دیا ہے مگر دکھ یہ ہے کہ اس سب کے باوجود بھی عوام اپنے حقوق کے لیے کھڑے نہیں ہو رہے۔ کیوں؟ کیا اس کیوں کا ہمارے پاس کوئی جواب ہے؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں