جائیں تو جائیں کہاں؟

مہاتما گاندھی کہتے تھے ''آنکھ کے بدلے آنکھ مانگو گے تو ایک دن ساری دنیا اندھی ہو جائے گی۔ نفرت کے بدلے نفرت تقسیم کرو گے تو ایک دن دنیا رہنے کے قابل نہیں رہے گی اور جھوٹ کے بدلے میں جھوٹ بولو گے تو ایک دن سچ کی موت ہو جائے گی‘‘۔ ہمارا المیہ مہاتما گاندھی کے فلسفۂ حیات سے بالکل مختلف ہے۔ کئی دہائیوں سے ہماری سیاست میں نفرت، جھوٹ اور اشتعال انگیزی کا راج ہے۔ ہم آنکھ کے بدلے آنکھ، نفرت کے بدلے نفرت اور جھوٹ کے بدلے جھوٹ کا بیوپار کر رہے ہیں۔ ہمیں اندھے ہونے کا خوف ہے نہ سچ کی موت کا ڈر۔ دنیا بھلے رہنے کے قابل رہے‘ نہ رہے، ہمیں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ہم معاشرے کا چہرہ اپنے ہاتھوں سے نوچ رہے ہیں اور اسے مزید بدصورت بنانے میں مگن ہیں۔سچ تو یہ ہے کہ ہماری سیاست زہر آلود ہو چکی ہے اور معاشرت نفرت کے پائیدان پر کھڑی ہے۔ آخر جائیں تو جائیں کہاں؟
اس میں کیا شبہ ہے کہ ہماری عدلیہ کا ماضی ہرگز ایسا نہیں رہا جس پر فخر کیا جائے۔ نظریۂ ضرورت کا داغ دہائیوں تک اس کے دامن پہ لگا رہا مگر کیا اندھیرا ہمیشہ کے لیے ہوتا ہے؟ سحر نے کبھی تو ہونا ہی ہوتا ہے اور یہ وہ لمحہ ہوتا ہے جب تاریکی کا مکمل خاتمہ ہو جاتا ہے۔ حکومت ماضی کا قصہ چھوڑ کیوں نہیں دیتی؟ جسٹس منیر، مولوی مشتاق، جسٹس انوار، جسٹس ارشاد حسن اور جسٹس ثاقب نثار کی عدالتوں کا حوالہ بہت ہو چکا۔ اب ہمیں آگے بڑھنا ہے۔ اگر ہم ماضی کی دلدل میں دھنسے رہے تو ملک کا بہت نقصان ہو جائے گا۔ ہو سکتا ہے کہ عدلیہ کے ساتھ محاذ آرائی کر کے حکومت کو آئندہ الیکشن کے لیے بیانیہ مل جائے مگر سوال یہ ہے کہ نظامِ انصاف کا کیا ہو گا؟ اگر حکومت ہی سپریم کورٹ کی حکم عدولی کرے گی تو عام آدمی کے دل میں عدلیہ کے احترام کی شمعیں کیسے روشن ہوں گی؟ میں مانتا ہوں کہ پنجاب اور خیبر پختونخوا میں وفاق سے پہلے انتخابات کرانے سے بہت سی قباحتیں جنم لیں گی۔ تین ماہ بعد نگران حکومتوں کا مسئلہ کھڑا ہو جائے گا اور اگر یہ ریت پڑ گئی تو ہر بار قومی خزانے سے کم از کم پینتیس ارب روپے زائد خرچ ہوا کریں گے مگر الیکشن نہ کرانے سے آئین اور عدلیہ کے تشخص کا جو نقصان ہو گا وہ ناقابلِ برداشت ہوگا اور ناقابلِ تلافی بھی۔ میرے خیال میں الیکشن کرانے کا نقصان کم ہے اور انتخابات نہ کرانے کی قیمت زیادہ۔ اتنی سی بات ہے جو حکومت کو سمجھ نہیں آ رہی۔
حکومت عدلیہ سے پنجہ آزمائی کیوں کر رہی ہے؟ سپریم کورٹ کے فیصلے کے سامنے سرِ تسلیم خم کیوں نہیں کر دیتی؟ پنجاب اور کے پی میں الیکشن ہونے سے کیا ہو جائے گا؟ عمران خان اپنی مقبولیت کے باعث جیت جائیں گے؟ تو کون سی انہونی ہو جائے گی؟ حکمران اتحاد اپنی غیر مقبولیت کی وجہ سے الیکشن ہار بھی گیا تو کیا ہو گا؟ کیا یہ آخری انتخابات ہیں‘ دوبارہ انتخابات نہیں ہوں گے؟ عمران خان 2018ء میں بھی کسی نہ کسی طرح پنجاب اور وفاق میں حکومت بنانے میں کامیاب ہو گئے تھے مگر تین ماہ بعد ہی ان کی مقبولیت کا گراف دھڑام سے نیچے گر گیا تھا۔ پھر انہوں نے عوام کے غضب کا سامنا کیا اور ضمنی انتخابات میں ہار کا مزہ بھی چکھا۔ مقبولیت کا اتنا ہی خمار ہوتا ہے۔ مقبولیت اس ہار کی مانند ہوتی جو گلا بدلتی رہتی ہے۔ کبھی اس کے گلے میں تو کبھی کسی اور کے گلے میں۔ واقفانِ حال کہتے ہیں کہ حکومت سپریم کورٹ کا حکم نہ ماننے کا فیصلہ کر چکی ہے‘ وہ آخری حد جانے کو تیار ہے مگر الیکشن کرانے کیلئے آمادہ نہیں۔ میاں نواز شریف کا خیال ہے کہ اس وقت الیکشن کرانا عمران خان کے سامنے جھکنے کے مترادف ہے۔ اس لیے کچھ ہو جائے‘ الیکشن کیلئے فنڈز دیے جائیں نہ سکیورٹی فراہم کی جائے۔ اب سوال یہ ہے کہ سپریم کورٹ کی اس حکم عدولی پر سزا دے جائے گی؟ محض وزیراعظم کے خلاف توہینِ عدالت کی کارروائی کی جائے گی یا پوری کابینہ اس کی زد میں آئے گی؟ اور پارلیمنٹ کا کیا ہو گا‘ جو حکومت کی پشت پر کھڑی ہے اور جہاں عدلیہ کے خلاف قراردادیں منظورکی جا رہی ہیں۔ کیا ممبرانِ پارلیمنٹ کے خلاف بھی توہینِ عدالت کا کیس چل سکتا ہے؟ میرا قانونی فہم کہتا ہے کہ عدالت صرف وزیراعظم، وزیر داخلہ، وزیر خزانہ اور وزیر دفاع ہی کو طلب کرے گی اور پھر کیا حکم دیا جائے گا‘ اس کا فیصلہ سپریم کورٹ نے کرنا ہے۔ حالات کی تپش بتا رہی ہے کہ توہینِ عدالت کی کارروائی ہو سکتی ہے اور وزیراعظم کو گھر جانا پڑ سکتا ہے۔ ''جی کا جانا ٹھہر گیا ہے صبح گیا یا شام گیا‘‘۔
دکھ کی بات یہ ہے کہ حکومت توہینِ عدالت کے بعد بھی الیکشن نہ کرانے کا ارادہ رکھتی ہے۔ ذرائع کے مطابق میاں نواز شریف نے اپنی پارٹی اور حکومت کو پیغام دیا ہے کہ بھلے کتنے ہی وزیراعظم توہینِ عدالت کے قانون کا شکار ہو جائیں‘ الیکشن اکتوبر میں ہی ہوں گے۔ میں سمجھنے سے قاصر ہوں کہ شہباز شریف نااہل ہوئے تو مسلم لیگ (ن) کی سیاست کو کیا فائدہ ہو گا؟ اس کے بعد ایک‘ دو اور وزیراعظم بھی رخصت ہو گئے تو کون سا تمغۂ جمہوریت مل جائے گا؟ آصف علی زرداری نے یوسف رضا گیلانی کو جمہوریت کا سپاہی کہہ کر بلی کا بکرا بنایا تھا مگر بعد ازاں ان پر کیا بیتی‘ وہ گیلانی صاحب کے ساتھ ساتھ سارا ملتان جانتا ہے۔ ہم یہ قصہ کسی اور وقت کے لیے اٹھا رکھتے ہیں۔ اگر موجودہ وزیراعظم توہینِ عدالت کی زد میں آ گئے تو کیا وہ فیصلہ بھی قبول نہیں کیا جائے گا؟ اس بات کا پورا خدشہ موجود ہے کیونکہ حکومت اس کیس کی بنیاد ہی کو ماننے سے انکاری ہے۔ دوسری طرف وزارتِ قانون ایک ریفرنس پر بھی کام کر رہی ہے جو سپریم جوڈیشل کونسل کو بھیجا جائے گا۔ اگر ایسا ہوا تو پھر حکومت اور جمہوریت‘ دونوں کا نقصان ہو گا۔ محاذ آرائی کے شعلے دور تک جائیں گے اور خسارہ عوام کی جھولی میں گرے گا۔
اب بھی وقت ہے کہ حکومت ہوش کے ناخن لے اور انتخابات کے راستے سے ہٹ جائے۔ اگر مسلم لیگ (ن) عمران خان کو غیر مقبول کرنا چاہتی ہے تو چودہ مئی کو الیکشن ہونے دے۔ عمران خان الیکشن جیت گئے تو مسلم لیگ (ن) کی سیاست کی سانسیں بحال ہونا شروع ہو جائیں گی۔ پنجاب کے وزیراعلیٰ کا فیصلہ ہی خان صاحب کے لیے دردِ سر بن جائے گا۔ اس بار پنجاب کی پوری قیادت وزارتِ اعلیٰ کی امیدوار نظر آتی ہے۔ شاہ محمود قریشی، فواد چودھری، حماد اظہر، عثمان ڈار، عثمان بزدار، میاں محمود الرشید سمیت دیگر کئی اکابرینِ جماعت پنجاب اسمبلی کا الیکشن لڑنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ کس کس کو وزیراعلیٰ بنایا جائے گا؟ یقینا چودھری پرویز الٰہی اور مونس الٰہی بھی اس فہرست میں شامل ہوں گے۔ یہ ایک فیصلہ ہی پی ٹی آئی کو کمزور کر دے گا اور اس کا خمیازہ قومی اسمبلی کے انتخابات میں بھگتنا پڑے گا۔ اگر اکتوبر میں قومی اسمبلی کے انتخابات میں بھی تحریک انصاف نے میدان مار لیا تو مسلم لیگ (ن) کے وارے نیارے ہو جائیں گے۔ عمران خان کی انا پرستی ساری دنیا کو معلوم ہے۔ گمانِ غالب ہے کہ وہ اقتدار میں آ کر وہی کچھ کریں گے جو گزشتہ دورِ حکومت میں ان کی ترجیحات تھیں۔ محسوس ہوتا ہے کہ وہ گورننس سے زیادہ سیاسی مخالفین پر توجہ دیں گے۔ وہ بھی اب کی بار مخالفین پر اتنے ہی مقدمات بنائیں گے جتنے ان پر بنائے جا رہے ہیں۔ وہ اینٹ کا جواب پتھر سے دیں گے اور آنکھ کے بدلے آنکھ مانگیں گے۔ وہ نفرت کا جواب نفرت سے دیں گے اور مخالفین پر سیاسی مقدمات کی سنچری مکمل کریں گے۔ خان صاحب کو دوبارہ حکومت مل جانے سے عوام کے دکھ، درد اور مصائب دور ہوں گے یا نہیں‘ یہ وہ سوال ہے جس کا جواب شاید عمران خان کے پاس بھی نہیں ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں