اگر مذاکرات کامیاب نہ ہوئے تو…

بند کمرے میں گھٹن بڑھ جائے تو دیوار توڑ کر در بنانا پڑے گا ورنہ سانس لینا مزید دشوار ہوتا جائے گا اور زندگی کا پہیہ رک جائے گا۔ جو درخت جھکنا جانتے ہیں وہ کبھی سرکش ہواؤں کے سبب زمیں بوس نہیں ہوتے۔ تاریخ گواہ ہے کہ جنگ ناگزیر ہو‘ تب بھی امن کی کوششیں جاری رہتی ہیں۔ جو حکمران ضد، اَنا اور ہٹ دھرمی کا شکار ہوتے ہیں وہ دیکھتے ہی دیکھتے ماضی کا قصہ بن جاتے ہیں اور جو معاملہ فہمی، منطق اور سیاسی بصیرت کو ترجیح دیتے ہیں، تاریخ کے اوراق پر ان کے نام ہی سنہرے حروف سے لکھے جاتے ہیں۔
شہباز حکومت اور تحریک انصاف کے درمیان مذاکرات کی بازگشت سنائی دے رہی ہے۔ نہ صرف سپریم کورٹ بلکہ قوم کی بھی یہی منشا ہے کہ سیاست دان باہم مل بیٹھیں اور باہمی رضامندی سے الیکشن کی تاریخ کا مسئلہ حل کریں۔ یہ ایک خوش آئند تجویز ہے اور اگر اس پر عمل درآمد ہو گیا تو ملک بہت بڑے سیاسی، آئینی اور معاشی بحران سے بچ جائے گا وگرنہ حالات کی تپش آئندہ کل کی حدت کی شدت کا پتا دے رہی ہے۔ ہمارے سیاست دانوں کو اندازہ ہی نہیں ہے کہ اس سیاسی جنگ سے ہماری کتنی جگ ہنسائی ہو رہی ہے۔ پڑوسی ملک کا میڈیا کیسے چسکے لے رہا ہے اور انٹرنیشنل میڈیا میں کیا کیا تجزیے کیے جا رہے ہیں۔ امریکی جریدے بلوم برگ کی تازہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ''عمران خان کی قبل از وقت انتخابات کی خواہش نے پاکستان کو آئینی بحران میں دھکیل دیا ہے۔ سپریم کورٹ منقسم نظر آ رہی ہے۔ وفاقی حکومت اور چیف جسٹس کے مابین تصادم کی صورتِ حال پیدا ہو چکی ہے۔ ملک میں تشدد کی فضا قائم ہونے کا بھی اندیشہ ہے۔ عمران خان تیزی سے ملک کو بحران اور انتشار کی جانب دھکیل رہے ہیں‘‘۔ کیا بلوم برگ کا تجزیہ ہمارے سیاست دانوں کے لیے چشم کشا نہیں ہونا چاہیے؟ کیا اس کے بعد بھی اگر مگر کی کوئی گنجائش باقی رہ جاتی ہے؟ کوئی شک نہیں کہ اس وقت ملک کے اندرونی حالات انتہائی مخدوش ہیں اور اس کی ذمہ داری کسی ایک فریق پر عائد نہیں کی جا سکتی بلکہ وفاقی حکومت اور پی ٹی آئی‘ دونوں اس بحران میں برابر کے شریک ہیں۔ دونوں فریقوں کو ادراک کرنا ہو گا کہ اقتدار کی بے لگام خواہش کے باعث گزشتہ ایک سال میں ملک کہاں سے کہاں سے پہنچ گیا ہے۔ غریب کا کیا حال ہے اور سفید پوش طبقہ کیسے گزر بسر کر رہا ہے؟ اگر یہ آئینی اور سیاسی بحران فوری حل نہ ہوا تو عام آدمی کا کیا بنے گا؟ دونوں فریقوں کو اپنے اپنے موقف سے پیچھے ہٹنا ہوگا ورنہ مذاکرات کا معاملہ کھٹائی میں پڑ جائے گا اور اگرمذاکرات ہو بھی گئے تو نتیجہ خیز نہیں ہوں گے۔ سیاسی مذاکرات ناگزیر ہیں ورنہ گنگا الٹی بھی بہہ سکتی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ تحریک انصا ف کی جانب سے دو اسمبلیاں تحلیل کرنے کے فیصلے نے بہت سی الجھنیں بڑھا دی ہیں اور ہمارا سیاسی، آئینی، معاشی اور سماجی کھوکھلا پن عیاں کر دیا ہے۔ آئیے باری باری ان الجھنوں کا جائزہ لیتے ہیں۔
اگر سیاسی جماعتوں کے مذاکرات کامیاب نہ ہوئے تو مستقل قریب میں آئین اور عدالتی فیصلوں سے انحراف کا قوی اندیشہ ہے۔ سپریم کورٹ تین بار فیصلہ دے چکی ہے کہ پنجاب میں فوری طور پر انتخابات کرائے جائیں مگر حکومت لیت و لعل سے کام لیتے ہوئے مسلسل حکم عدولی کر رہی ہے۔ اگر سیاست دانوں نے میچورٹی کامظاہرہ کیا، ''کچھ لو اور کچھ دو‘‘ کی پالیسی اپناتے ہوئے الیکشن کے لیے ایک تاریخ پر متفق ہوگئے تو سپریم کورٹ کے فیصلوں اور آئین کا بھرم رہ جائے گا۔ خاکم بدہن! اگر ایسا نہ ہوا تو اعلیٰ عدلیہ اور حکومت کے درمیان محاذ آرائی شدت اختیار کر جائے گی۔ ایسی صورت میں وزیراعظم اور وفاقی کابینہ توہینِ عدالت کے قانون کا شکار بھی ہو سکتے ہیں اور اگر بالفرض یہ فیصلہ آتا ہے تو اس پر عمل درآمد کیسے ہو گا‘ مجھے یہ فکر کھائے جا رہی ہے۔ اگر حکومت ہی عدالتی فیصلوں کو ایسے بے توقیر کرتی رہی تو عام آدمی کو انصاف کیسے ملے گا؟
صرف پنجاب میں انتخابات نہ ہونے کا مسئلہ ہی محاذ آرائی کی وجہ نہیں ہے۔ عدالتی اصلاحاتی بل نے بھی تناؤ میں اضافہ کیا ہے۔ پارلیمنٹ نے بہت اچھی اور ناگزیر اصلاحات کی ہوں گی مگر یہ وقت اس قسم کی قانون سازی کے لیے قطعاً موزوں نہیں تھا۔ اب جہاں سپریم کورٹ اس بل پر عمل درآمد روکنے کا حکم جاری کر چکی ہے‘ وہیں حکومت نے عدالتی فیصلے کو رد کرتے ہوئے اس بل کے قانون بننے کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا ہے۔ سپریم کورٹ پریکٹسز ایکٹ کے سیکشن آٹھ میں لکھا ہے کہ ''اس قانون کے مندرجات نافذ العمل ہوں گے چاہے سپریم کورٹ کا کوئی فیصلہ اس کے برعکس ہو‘‘۔ ابھی یہ دیکھنا باقی ہے کہ اس معاملے میں اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے مگر ایک بات میں پورے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ اگر دو صوبائی اسمبلیاں تحلیل نہ کی جاتیں تو کبھی اعلیٰ عدلیہ اور وفاقی حکومت آمنے سامنے نہ آتے۔ پارلیمنٹ، عدلیہ اور حکومت میں لڑائی ہوتی نہ ہی بالادستی کی جنگ شروع ہوتی۔ اب صورتحال یہ ہے کہ ایک ادارہ دوسرے پر سبقت حاصل کرنے کی تگ و دو میں ہے اور مقابلے کی یہ فضا ملک و قوم کے لیے نیک شگون ہرگز نہیں ہے۔
اگر سیاسی جماعتوں کے مذاکرات کامیاب نہ ہوئے تو جمہوریت کے تسلسل میں رخنہ ڈلنے کا خدشہ بھی موجود ہے۔ وزیراعظم، وفاقی کابینہ اور پارلیمنٹ کو گھر جانا پڑ سکتا ہے۔ پہلے ہی اس ملک میں آج تک کوئی وزیراعظم اپنی آئینی مدت پوری نہیں کر سکا اور اگر ایک بار پھر ایک وزیراعظم کو عدالتی فیصلے کے نتیجے میں گھر جانا پڑا تو کون ذمہ دار ہوگا؟ پارلیمنٹ، عدلیہ، وفاقی حکومت یا پھر پی ٹی آئی؟ اس لیے مذاکرات ضروری ہیں تاکہ عدالتی نافرمانی کی وجہ سے وزیراعظم کی نااہلی نہ ہو۔ اگر سیاسی جماعتوں میں مذاکرات ہی نہ ہوئے تو سیاسی عدم استحکام دوچند ہو جائے گا۔ حکومت سپریم کورٹ کی حکم عدولی کرتے ہوئے پنجاب میں الیکشن نہیں کرائے گی تو عمران خان کبھی آرام سے گھر نہیں بیٹھیں گے۔ وہ پہلے ہی سپریم کورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد نہ ہونے کی صورت میں سٹرکوں پر آنے کا اعلان کر چکے ہیں اور اگر چودہ مئی کو انتخابات ہوتے نظر نہ آئے تو عین ممکن ہے کہ وہ ملک گیر احتجاجی تحریک شروع کر دیں۔ بظاہر حکومت اس تحریک کا راستہ روکنے کے لیے ہر ممکن حربہ استعمال کرے گی‘ پھر کیا ہوگا؟ انارکی بڑھے گی، تصادم کا ماحول پروان چڑھے گا اور عام آدمی کی زندگی خطرے میں پڑے گی۔ وفاقی اداروں کی رپورٹ ہے کہ عمران خان کی زندگی کو شدید خطرات لاحق ہیں۔ کالعدم تنظیمیں ان کی جان کے درپے ہیں۔ انہیں جلسے‘ جلوسوں میں نشانہ بنایا جاسکتا ہے۔ ہمیں سانحہ کارساز اور سانحہ لیاقت باغ کو نہیں بھولنا چاہیے۔ ان خودکش حملوں میں محترمہ بے نظیر بھٹو ہی کو ٹارگٹ نہیں کیا گیا تھا، سینکڑوں ورکرز بھی اپنی زندگی گنوا بیٹھے تھے۔ خدارا! حالات کی نزاکت کو سمجھیں اور مذاکرات کے ذریعے ملک کو انتشار کی راہ سے بچائیں۔ اسی میں سب کی بہتری اور بھلائی ہے۔
اگر مذاکرات کامیاب نہ ہوئے تو ہم سماجی طور پر مزید منتشر اور تقسیم ہو جائیں گے۔ سیاسی اختلافات کا فتنہ گھر گھر میں داخل ہو چکا ہے۔ اگر ہم نے اس کے آگے بند نہ باندھا تو یہ پورے سماج کو نگل جائے گا۔ یہی نہیں‘ اگر مذاکرات نہ ہوئے تو پہلے سے کمزور معیشت مزید بدحال ہو جائے گی۔ معیشت کو پنپنے کے لیے سیاسی استحکام اور ساز گار ماحول درکار ہوتا ہے مگر افسوس! گزشتہ ایک سال سے ہم پے درپے بحرانوں کی زد میں ہیں۔ سیاسی عدم استحکام نے ملکی اکانومی کی چولیں ہلا دی ہیں۔ آئی ایم ایف سے معاہدہ ہو رہا ہے نہ مہنگائی کا جن بوتل میں واپس جانے کا نام لے رہا ہے۔ اگر حکومت اور پی ٹی آئی کو واقعی عوام کا درد ہے تو سیاسی مفادات سے بالاتر ہو کر سوچیں۔ ایک دوسرے کی حیثیت کو تسلیم کرتے ہوئے مذاکرات کریں۔ عمران خان چودہ مئی کے بجائے جولائی میں الیکشن کے لیے آمادگی کا عندیہ دے چکے ہیں۔ حکومت بھی تھوڑی لچک دکھائے تاکہ آئین، عدلیہ، پارلیمنٹ اور عوام کی عزت و توقیر بحال ہو سکے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں