ہم تو ڈوبے ہیں صنم…

غم زدہ روحیں یکجا ہو جائیں تو دکھ سوا ہو جاتا ہے۔ وہ ایک دوسرے کی طرف کھنچی چلی جاتی ہیں۔ غم جنہیں ملاتا ہے وہ دل عارضی مسرتوں سے جدا نہیں ہوتے۔ وہ دور ہو کر بھی قریب رہتے ہیں۔ محسوس ہوتا ہے کہ عمران خان اور عوام کا رشتہ بھی کچھ ایسا ہی بن چکا ہے۔ جب سے عمران خان اور اقتدار کے راستے الگ الگ ہوئے ہیں‘ عوام میں ان کی مقبولیت دوچند ہو گئی ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ خان صاحب کو حکومت نے ستایا ہے اور عوام کو مہنگائی نے۔ دونوں ہر گزرتے دن کے ساتھ قریب سے قریب تر ہو رہے ہیں، بالکل اس اجنبی کی طرح جو دوسرے اجنبی کے قریب یوں جاتا ہے جیسے وہ اس کی گم شدہ متاع ہو۔ پورے ملک میں بیک وقت الیکشن کرانے کے لیے حکومت ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کر رہی ہے تو عمران خان کو چاہیے کہ ملک و قوم کے لیے ضد اور اَنا کو ترک کر دیں۔ عوام آج بھی ان کے ساتھ ہیں‘ کل بھی ان کے ساتھ ہوں گے کیونکہ دکھ اور تکلیف کے دِنوں میں بنے رشتے اتنی آسانی سے ختم نہیں ہو پاتے۔
سپریم کورٹ میں ایک ساتھ الیکشن کیس کی ایک بار پھر سماعت ہوئی مگر انتخابات پر چھائی دھند چھٹ نہ سکی۔ حکومت نے مذاکرات جاری رکھنے پر زور دیا جبکہ تحریک انصاف نے چودہ مئی کوالیکشن کرانے کی ضد جاری رکھی۔ سپریم کورٹ کا کہنا تھا کہ ''سیاسی مذاکرات ناکام ہوئے تو عدالت چودہ مئی کا فیصلہ لے کر بیٹھی نہیں رہے گی۔ آئین کے مطابق اس پر عمل درآمد کرایا جائے گا‘‘۔ سپریم کورٹ میں جمع کرائی گئی حکومتی رپورٹ میں لکھا ہے کہ اتحادی حکومت نے مذاکرات میں لچک کا مظاہرہ کیا ہے جبکہ چیف جسٹس سے مکالمہ کرتے ہوئے سعد رفیق کا کہنا تھا کہ بات دو‘ تین ہفتوں کی رہ گئی ہے اس لیے مذاکرات جاری رہنے چاہئیں۔ میری رائے میں حکومت کی مذاکراتی ٹیم کا ممبر ہونے کے ناتے سعد رفیق کا بیان خوش آئند ہے۔ اگر معاملہ محض چند ہفتوں کا ہے تو یقینا گفت و شنید کے ذریعے حل کیا جا سکتا ہے۔ اس پر اتنی عجلت دکھانے کی کیا ضرورت تھی؟ مذاکرات کا ایک دور اور ہو جاتا تو شاید یکساں انتخاب کی تاریخ پر اتفاق ہو ہی جاتا۔
حکومت چاہتی ہے کہ موجودہ اسمبلی بجٹ پیش کرے اور آئی ایم ایف سے معاہدہ ہو جائے تو پھر قومی اسمبلی اور باقی صوبائی اسمبلیاں توڑ کر پورے ملک میں اکٹھے الیکشن کرا دیے جائیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ بجٹ کا معاملہ بہت سنجیدہ نوعیت کا ہے۔ اسے موجودہ حکومت نے ہی پیش کرنا ہے۔ نگران حکومت کا یہ کام ہے نہ اختیار۔ پی ٹی آئی کی خواہش اور کوشش ہے کہ شہباز حکومت بجٹ پیش نہ کرے اور آئندہ آنے والی حکومت اپنی مرضی سے بجٹ بنائے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پی ٹی آئی کوخدشہ ہے کہ کہیں حکومت معاشی معاملات میں ان کے ساتھ وہی سلوک نہ کرے جو ان کی حکومت نے جاتے جاتے کیا تھا۔ انہیں شاید ڈر ہے کہ آئی ایم ایف سے معاہدے کے بغیر بجٹ پیش کیا گیا تو وہ سیاسی بجٹ ہو گا۔ عوام کو ریلیف دیا جائے گا‘ سبسڈیز بڑھادی جائیں گی اور عین ممکن ہے کہ پٹرول، ڈیزل، بجلی اور گیس کی قیمتیں سیاسی فوائد بٹورنے کے لیے کم کر دی جائیں‘ جیسے 28 فروری 2022ء کو عمران خان نے کی تھیں۔ اگر پی ڈی ایم حکومت ایسا کرتی ہے تو آئی ایم ایف شدید ناراض ہو جائے گا اور پھر اگر پی ٹی آئی الیکشن جیت بھی گئی تو حکومت چلانا اس کے بس میں نہیں رہے گا۔ مومن خان مومن کا شعر ملاحظہ کریں:
الجھا ہے پاؤں یار کا زلفِ دراز میں
لو آپ اپنے دام میں صیاد آ گیا
دوسری طرف آئی ایم ایف سے معاہدہ اپنے آخری مرحلے میں ہے۔ ہو سکتا ہے کہ اگلے ایک‘ دو ہفتوں تک معاملات طے پا جائیں۔ آئی ایم ایف سے معاہدہ پاکستان کی معاشی ضرورت ہے۔ اگر یہ معاہدہ کھٹائی میں پڑگیا تو معیشت کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔ دیوالیہ ہونے کا خدشہ بڑھ جائے گا۔ کرنسی فری فال میں چلی جائے گی اور مہنگائی کا تو کوئی شمار ہی نہیں ہو گا۔ کاروبار بند اور بیروزگاری دگنی ہو جائے گی۔ آئی ایم ایف کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ نگران حکومتوں سے کبھی معاہدہ نہیں کرتا۔ اگر فوری طور پر دو یا تین ماہ کے لیے وفاق میں نگران حکومت آ گئی تو پھر یہ معاہدہ کم از کم چار‘ پانچ ماہ مزید تاخیر کا شکار ہو جائے گا۔ اس وقت ہماری معیشت کسی طور بھی اس کی متحمل نہیں ہو سکتی کیونکہ زرمبادلہ کے ذخائر پہلے ہی کم ہیں اور روپے کی بے قدری بہت ہو چکی ہے۔ آئی ایم ایف معاہدے میں تاخیر معیشت کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہو گی۔ اگر ایک ساتھ الیکشن کرانے ہیں تو تمام سٹیک ہولڈرز کو اتنی قربانی تو دینا پڑے گی کہ آئی ایم ایف سے معاہدہ ہونے کا انتظار کیا جائے ورنہ پنجاب کے الیکشن کے لیے تو عدالت فیصلہ دے ہی چکی ہے‘ اس پر عمل درآمد کرایا جائے۔ آئی ایم ایف سے فوری معاہدہ آئندہ آنے والی حکومت کے لیے بھی سودمند ہوگا‘ ورنہ جو بھی پارٹی الیکشن میں فاتح ٹھہرے گی‘ اقتدار سنبھالتے ہی اسے ایسے جھٹکے لگیں گے کہ سنبھلنا مشکل ہو جائے گا۔
آئین کہتا ہے کہ کسی بھی اسمبلی کی تحلیل کی صورت میں نوے دن میں الیکشن ہوں گے مگر اب تو 110 دن سے بھی زائد ہو گئے ہیں مگر الیکشن دور‘ دور تک دکھائی نہیں دے رہے۔ 14 مئی کو الیکشن تقریباً ناممکن ہیں۔ اس لیے پی ٹی آئی کو چاہیے کہ اگر اسے سپریم کورٹ، آئین اور ملک کی توقیر عزیر ہے تو شہر شہر ریلیاں اور تقریریں کرنے کے بجائے حکومت کے ساتھ ایک بار پھر مذاکرات کی میز پر بیٹھ جائے۔ دو‘ تین ہفتوں کی کوئی بات نہیں ہے۔ جہاں اتنا انتظار کیا ہے‘ وہاں تھوڑے دن اور سہی۔ جلسے، جلوسوں اور یکجہتی ریلیوں سے سپریم کورٹ اور اس کے فیصلوں کا احترام بحال نہیں ہو گا، فیصلوں پر عمل درآمد سے ان کے وقار میں اضافہ ہو گا۔ عمران خان کو سوچنا ہو گا کہ اگر ملک میں سپریم کورٹ کی حکم عدولی کی رسم چل پڑی تو پھرکیا ہو گا؟ حکومت نے تو اپنے سر پر سیاسی کفن باندھ رکھا ہے اور وہ ''ہم تو ڈوبے ہیں صنم تم کو بھی لے ڈوبیں گے‘‘ کی پالیسی پر عمل پیرا نظر آتی ہے۔ وہ قصداً عدلیہ سے محاذ آرائی بڑھانا چاہتی ہے تاکہ سیاسی شہادت حاصل کر سکے۔ شاہد خاقان عباسی کہتے ہیں کہ سپریم کورٹ کو پارلیمنٹ کے فیصلے نہیں کرنے دیں گے‘ چیف جسٹس کو طلب کرکے ان سے پوچھنا چاہیے کہ انہوں نے ایسا حکم کیوں دیا؟ رانا ثناء اللہ کا بیان اس سے بھی زیادہ خطرناک ہے‘ وہ کہتے ہیں کہ اگر سپریم کورٹ نے وزیراعظم کو طلب کیا تو ہم بھی ان کو طلب کریں گے‘ اگر وہ نہیں آئے تو ہم بھی نہیں جائیں گے۔ حکومت کو اندازہ ہی نہیں کہ اداروں میں تصادم سے اصل نقصان عوام کو جھیلنا پڑتا ہے۔ اگر ملک میں انتشار بڑھا تو اس کا ذمہ دار کون ہو گا؟ اس لیے چیئرمین تحریک انصاف کو سیاسی بصیرت اور دانشمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مذاکرات کی راہ سے گریز نہیں کرنا چاہیے۔
پی ٹی آئی کو خدشہ ہے کہ حکومت مذاکرات کے ذریعے وقت کا ضیاع چاہتی ہے۔ بات 14 مئی سے آگے چلی گئی تو حکومت قومی اسمبلی تحلیل نہیں کرے گی۔ ہو سکتا ہے کہ پی ٹی آئی کا خدشہ درست ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ یہ سب اس کی خام خیالی ہو مگر سوال یہ ہے کہ اس کے سوا اور راستہ کیا ہے؟ اگر حکومت وعدہ خلافی کرے گی تو اس میں بھی فائدہ پی ٹی آئی کا ہی ہے ۔ حکومت غیر مقبول ہو گی اور عوام عمران خان کے مزید قریب آ جائیں گے۔ ہمدردی کا جذبہ بہت توانا ہوتا ہے۔ اس بات کو کبھی نہیں بھولنا چاہیے۔ شہباز حکومت کا ہر دن عمران خان کی مقبولیت کی علامت ہے۔ الیکشن میں جتنی مزید تاخیر ہو گی‘ اتنی ہی عوام کی عمران خان سے قربت بڑھے گی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں