کاش ! عمران خان صبر کرسکتے

ہم بھی عجیب قوم ہیں! ہمارا سب سے اہم مسئلہ دم توڑتی معیشت ہے نہ تنزلی کی شکار معاشرت، منہ زور مہنگائی ہے نہ بند ہوتے کاروبار، روپے کی بدحالی ہے نہ زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی، امن و امان کی بگڑتی صورتحال ہے نہ آئین کی پامالی‘ ہمارا سب سے اہم مسئلہ ہم خود ہیں‘ ہمارے نظریات اور ہماری بے ہنگم ترجیحات ہمارا اولین مسئلہ ہیں۔ ہم سیاست کو اہم سمجھتے ہیں اور سیاستدانوں کو مسیحا۔ سیاست پر گفتگو ہمارا من پسند مشغلہ ہے اور سیاستدانوں کی محبت میں ایک دوسرے سے گتھم گتھا ہونا ہماری رِیت بن چکی ہے۔ ہم جھوٹ کے پجاری بنتے جا رہے ہیں اور پروپیگنڈے کے داعی۔ سچ کی تلاش ہماری ترجیح ہی نہیں رہی۔ ہم اپنے حالات کے خود ذمہ دار ہیں۔ دوسروں کو دوش دے کر حقیقت سے منہ نہیں موڑ ا جا سکتا! اگر ہمیں ترقی یافتہ قوموں کی صف میں کھڑا ہونا ہے تو سب سے پہلے اپنے نَقص دور کرنا ہوں گے۔ جیسے ہی معاشرے میں بہتری کے آثار نمایاں ہوں گے، حکمرانوں میں بھی تبدیلی آ جائے گی۔
بے حسی ملاحظہ کریں! آج کل نوے فیصد پاکستانی ایک دوسرے سے یہی سوال کرتے نظر آتے ہیں کہ سیاست میں کیا چل رہا ہے؟ پی ٹی آئی کالعدم ہو گی یا نہیں؟ عمران خان کے کون کون سے ساتھی پارٹی چھوڑنے والے ہیں؟ عمران خان سیاست سے مائنس ہوئے تو ان کا ردعمل کیا ہو گا؟ لندن پلان کیا ہے؟ میاں نواز شریف واپس کب آئیں گے؟ زرداری صاحب نے مسلم لیگ (ن) کی سیاست ختم کر دی ہے؟ عمران خان کی جان کو کس سے خطرہ ہے اور خان صاحب دوبارہ کب گرفتار ہوں گے؟ ستم یہ ہے کہ ہم کبھی ایک دوسرے سے نہیں پوچھتے کہ ملک میں سیاسی شدت پسندی کیوں بڑھ رہی ہے؟ ہر طرف انتشار کیوں برپا ہے؟ عوام منقسم کیوں ہیں؟ عدم استحکام کی آندھی کب تھمے گی؟ ہم ایک دوسرے کے وجود سے انکار کرنے کی دُھن میں کیوں مگن ہیں؟ معیشت کی خستہ حالی اور مہنگائی کی اصل وجوہات کیا ہیں؟ ہم کب تک قرضوں کے سہارے ملک چلا سکتے ہیں؟ چین، سعودی عرب اور دیگر دوست ممالک کب تک ہماری مدد کو آتے رہیں گے؟ ہم اپنے پاؤں پر کب کھڑے ہوں گے؟ ہمیں زندگی گزارنے کا سلیقہ کب آئے گا؟ ہمیں پینے کے لیے صاف پانی کیوں میسر نہیں ہے؟ صحت، تعلیم اور آمدورفت کی سہولتیں کب بہتر ہوں گی؟ ہم برآمدات کا حجم بڑھانے کے قابل کب ہوں گے؟ ہمارا جی ڈی پی اپنے مشرقی ہمسایے سے دس گنا کم کیوں ہے؟ بنگلہ دیش ہم سے آگے کیسے نکل گیا اور ہم ہر لحاظ سے پیچھے کیوں رہ گئے؟ حکمران طبقہ عوام سے جھوٹ کیوں بولتا رہتا ہے‘ اپنے موقف کو بیان کرنے کے لیے پروپیگنڈے کا سہار ا کیوں لیا جاتا ہے؟ سچ کو سچ اور جھوٹ کو جھوٹ کیوں نہیں کہتا؟ غلط کو غلط اور صحیح کو صحیح کیوں نہیں گردانتا؟ عوام کو سبز باغ دکھانے کی رسم کب تک جاری رہے گی؟
ایسا ہرگز نہیں کہ عوام میں شعور کی کمی ہے۔ اگر عام لوگ سیاسی مسائل پر رائے زنی کر سکتے ہیں تو اصل ایشوز پر رائے عامہ کیوں ہموار نہیں کر سکتے؟ زیادہ دور مت جائیں‘ گزشتہ ایک سال میں جو کچھ ہوتا رہا‘ کیا ہم بطور قوم اس کا درست تجزیہ کرنے کے قابل ہیں؟ کیا ہم سچ، جھوٹ، پروپیگنڈا اور سیاست کو الگ الگ کر سکتے ہیں؟ کیا ہمیں موجودہ حکومت کی نااہلیوں کا مکمل ادراک ہے؟ کیا ہمیں عمران خان کی سیاسی غلطیوں کی پہچان ہے؟ ہم نجانے کیوں بھول جاتے ہیں کہ سیاستدانوں کا مطمح نظر اپنا سیاسی مفاد ہوتا ہے۔ وہ اپنے مفادات کے لیے کچھ بھی کر سکتے ہیں۔ وہ بیانیہ بناتے ہیں اور پھر اس سے منحرف ہو جاتے ہیں۔ وہ لوگوں کو اشتعال دلاتے ہیں اور وقت آنے پر ان سے منہ پھیر لیتے ہیں۔ اہلِ سیاست کا یہ چلن بہت پرانا ہے مگر عوام کے دل میں ان کی محبت کم ہونے کا نام ہی نہیں لیتی۔ اگر عوام کا کسی کو خیال ہوتا تو کیا نو اور دس مئی کے پُر تشدد واقعات وقوع پذیر ہوتے؟ کیا ہم اپنے ہی ملک کی املاک کو جلاتے؟ کیا ہم عسکری تنصیبات پر حملے کرتے؟ کیا ہم سٹرکیں اور چوراہے بند کرتے؟ کیا عوام کی گاڑیاں اور موٹر سائیکلیں نذرِ آتش کی جاتیں؟ پی ٹی آئی کے ورکرز نے جو کیا‘ بہت غلط تھا۔ اور اب اس کی سزا سب کو بھگتنا پڑے گی۔ اس وقت پی ٹی آئی کا شیرازہ بکھر رہا ہے اور ایک ایک کرکے سارے اکابرین عمرا ن خان سے راہیں جدا کر رہے ہیں۔ اسد عمر، فواد چودھری، ملیکہ بخاری، مسرت جمشید چیمہ، مراد راس، ابرار الحق، فرودس عاشق اعوان اور عامر کیانی سمیت درجنوں رہنما پارٹی کو خیرباد کہہ چکے ہیں۔ اطلاعات ہیں کہ بیسیوں دیگر لائن میں لگے ہیں اور کسی بھی وقت علیحدگی کا اعلان کر سکتے ہیں۔ پارٹی میں ٹوٹ پھوٹ دیکھ کر عمران خان بھی دو قدم پیچھے ہٹے ہیں۔ انہوں نے خواہش کااظہار کیا ہے کہ ''بااختیار لوگوں‘‘ سے مذاکرات ہونے چاہئیں‘ میں اپنی ایک مذاکراتی کمیٹی بنا دیتا ہوں اگر بااختیار لوگ انہیں قائل کر لیں تو میں سیاست سے الگ ہو جاؤں گا۔ واقفانِ حال کہتے ہیں کہ اس معاملے پر پیغام رسانی ہوئی ہے مگر کوئی جواب نہیں آیا۔ میری ذاتی رائے ہے کہ خان صاحب نے بہت دیر کر دی ہے۔ اب نو مئی کے افسوس ناک واقعات کا دکھ ہر شے پر غالب ہے۔ اس ماحول میں مذاکرات کیسے ممکن ہیں؟ اگر یہ مذاکرات ہو بھی گئے تو شاید نتیجہ خیر نہیں ہوں گے۔
اس وقت ہر طرف سیاست ہی سیاست نظر آ رہی ہے۔ عدلیہ میں بھی ایک کے بعد ایک سیاسی کیس لگ رہا ہے۔ کہیں ضمانت کی درخواستیں سنی جا رہی ہیں تو کہیں انتخابات نہ ہونے کا شور ہے، کہیں جبری گمشدگی کا کیس ہے تو کہیں آڈیو لیکس کی بازگشت ہے۔ حکومتی ایوانوں کی غلام گردشوں میں بھی گرفتاریو ں کا چرچا ہے۔ فلاں کو پکر لو اور فلاں کو چھوڑ دو۔ یوں لگتا ہے کہ پورے ملک میں کوئی اور کام ہو ہی نہیں رہا۔ عوامی مسائل مسلسل نظر انداز کیے جا رہے ہیں۔ ان کی کوئی بات ہی نہیں کر رہا۔ سفید پوش لوگ کیسے زندگی گزار رہے ہیں‘ کسی کو فکر ہی نہیں۔ ایک روز قبل نیشنل اکاؤنٹس کمیٹی نے رواں مالی سال کے اعداد و شمار جاری کیے جوعام آدمی کے ہوش اڑانے کے لیے کافی ہیں۔ حکومت زیادہ تر معاشی اہداف حاصل کرنے میں ناکام رہی ہے۔ ملک میں معاشی ترقی کی شرح کا ہدف پانچ فیصد رکھا گیا تھا مگر شومیٔ قسمت اس دفعہ گروتھ ریٹ 0.29 فیصد رہا جو ملکی تاریخ کی دوسری کم ترین سطح ہے۔ صنعتی ترقی کا ہدف 5.9 فیصد تھا؛ تاہم گروتھ منفی 2.49 فیصد ریکارڈ کی گئی۔ بڑی صنعتوں کا پیداواری ہدف 7.4 فیصد تھا لیکن گروتھ منفی 7.9 فیصد رہی۔ زرعی شعبے کی ترقی کا ہدف 3.39 فیصد تھا لیکن گروتھ ریٹ 1.55 فیصد رہا۔ خدمات کے شعبے میں معاشی ترقی کا ہدف 12 فیصد تھا؛ تاہم اس کے مقابلے میں یہ شرح ملکی تاریخ کی دوسری کم ترین سطح 0.86 فیصد ریکارڈ کی گئی۔ ہول سیل اور ٹریڈرز کی سرگرمیاں منفی 4.41 فیصد اور تعمیرات کے شعبے کی گروتھ منفی 5.5 فیصد رہی۔
یہ ہے پی ڈی ایم حکومت کی معاشی کارکردگی! ہر شعبہ تنزلی کا شکار ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ عمران خان بطور اپوزیشن لیڈر اس پر پریس کانفرنس کرتے‘ عوام کو معاشی اشاریوں پر بریفنگ دیتے مگر وہ اپنے ہی معاملات میں پھنسے ہوئے ہیں۔ حکومت کی ''کارکردگی‘‘ کو عوام کے سامنے لانے والا کوئی ہے ہی نہیں۔ حکومت اپنی کارکردگی چھپانے کے لیے سیاسی درجہ حرارت بڑھا رہی ہے مگر خان صاحب کی کیا مجبوری تھی جو انہوں نے سیاسی استحکام آنے ہی نہیں دیا؟ وہ تو مقبول تھے‘ الیکشن آسانی سے جیت سکتے تھے مگر پھر بھی انہوں نے جذباتی اور غلط فیصلے کیے۔ کیوں؟ انہوں نے اپنے ہاتھوں سے اپنی پارٹی ڈبو دی۔ خان صاحب کی بے صبری اور جلدی بازی نے گنگا الٹی بہا دی۔ کا ش! خان صاحب ایسا نہ کرتے! وہ انتظار کر لیتے تو آج تحریک انصاف کو یہ دن دیکھنے نہ پڑتے۔ پھر عمران خان سیاست سے مائنس ہونے کے دہانے پرہوتے نہ ہی پی ٹی آئی کالعدم ہونے کے گرداب میں پھنستی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں