میں اہم تھا‘ یہی وہم تھا

اب پچھتاوے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔ جب حکمت‘ دانائی اور فہم و فراست کو بروئے کار لانے کا وقت تھا تب ضد‘ اَنا اور ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کیا گیا۔ جب مقبولیت کو مال و متاع کی مانند تجوری میں سنبھالنا چاہیے تھا تب چوک چوراہوں میں مخالفین کی عزتیں اچھالی جارہی تھیں‘ جھوٹے سچے الزامات لگائے جا رہے تھے اور ملک کا وقار خاک میں ملایا جا رہا تھا۔ جب سیاسی ڈائیلاگ کا موقع تھا تب عوامی مقبولیت کا خمار حاوی تھا اور سیاسی مخالفین کی شکلیں تک دیکھنا گوارہ نہیں تھا۔ اب مذاکرات کس بات کے؟ یاد رکھیں! جب تک پہلوان رِ نگ میں ہوتا ہے اس کی اہمیت ہوتی ہے اور جب اکھاڑا چھوڑدیتا ہے یا وقت کا جبر اسے ایسا کرنے پر مجبور کردیتا ہے توکوئی اسے اہم نہیں سمجھتا۔ جو خود کو اہم سمجھتے ہیں‘ یہ ان کا وہم ہوتا ہے۔ دنیا میں کوئی چیز ایسی نہیں جس کا متبادل نہ ہو۔ کوئی شخص ایسا نہیں جس کی کوئی جگہ نہ لے سکے۔ پھر سیاست ہو یا کھیل کا میدان‘ اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔
اب موصوف کہتے ہیں کہ مجھ سے بات چیت کی جائے۔ کوئی مجھ سے ڈائیلاگ کیوں نہیں کرتا؟ اب انہیں کون بتائے کہ ناخن اور دانتوں کے بغیر شیر اور بلی میں کوئی فرق نہیں ہوتا۔ سیاسی ڈائیلاگ ان کی جبلت کا حصہ ہی نہیں۔ دوسروں جماعتوں کے ساتھ ٹیبل پر بیٹھنا انہوں نے سیکھا ہی نہیں۔ سیاسی جماعت کی بھاگ دوڑ سنبھالنا آسان ہے اور قوم کو لیڈکرنا انتہائی مشکل امر ہے۔ سیاسی مفاد کو سب ترجیح دیتے ہیں مگر قومی مفاد کو ترجیح دینا ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔ سوال یہ ہے کہ نو مئی کے پُرتشدد واقعات کے بعد ان سے ڈائیلاگ کیوں کیا جائے؟ فوجی اور دیگر سرکاری املاک کو نقصان پہنچانے والوں کے ساتھ رعایت کیوں برتی جائے؟ گاڑیاں اور موٹر سائیکلیں جلانے والوں کو قانون کی گرفت میں کیوں نہ لایا جائے؟ کورکمانڈر ہاؤس اور ریڈیو پاکستان کو آگ لگانے والوں کو کیفرکردار تک کیوں نہ پہنچایا جائے؟ اس افسوسناک واقعے کی پلاننگ کرنے والوں اور اس پر عمل درآمد کرنے والے سیاستدانوں کے ساتھ کس نکتے پر مذاکرات کیے جائیں؟ جنہوں نے فوجی تنصیبات اور شہدا کی یادگاروں کی بے حرمتی کی‘ ان کا ملٹری ایکٹ کے تحت ٹرائل کیوں نہ کیا جائے؟ کیا ان سوالوں کے تسلی بخش جوابات آپ کے پاس ہیں؟ اگر نہیں تو پھر بات چیت کی خواہش کا اظہار کرنا کہاں کی دانشمندی ہے ؟
کاش! اس وقت ہٹ دھرمی کا مظاہرہ نہ کیا جاتا جب انہیں کہا جا رہا تھا کہ آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ نہ توڑیں مگر انہوں نے سیاسی مفاد کو مقدم جانا۔ کاش! وہ اس لمحے ضد کی بانسری نہ بجاتے جب امریکی سازش کا جھوٹا بیانیہ بنانے سے روکا گیا تھا مگر انہوں نے ملک سے زیادہ سیاست کو ترجیح دی۔ کاش! انہیں ان دنوں بھی ملک کا خیال ہوتا جب وہ قومی اسمبلی سے مستعفی ہو رہے تھے اور منع کرنے والوں نے انہیں منع کیا تھا مگر وہ خود کو ایسا کرنے سے باز نہیں رکھ سکے تھے۔ کاش! انہیں گزشتہ سال پچیس مئی کو بھی بات چیت کی اہمیت کا ادراک ہوتا اور وہ وفاقی حکومت گرانے کے لیے لانگ مارچ نہ کرتے تو آج ملک کو یہ دن دیکھنے نہ پڑتے۔ کاش! انہیں اس گھڑی بھی ملک کی فکر کی ہوتی جب ان کی طرف سے میر جعفر اور میر صادق کے لقب دیے جا رہے تھے اور اداروں کی سیاست میں عدم مداخلت کی پالیسی کو طعنہ بنا دیا گیا تھا۔ کاش! سوشل میڈیا کے ذریعے ارشد شریف کے اندوہناک قتل کے بعد مقتدر حلقوں پر الزام تراشی نہ کی جاتی‘ ان کے خلاف ٹرینڈز نہ چلائے جاتے‘ منفی پراپیگنڈا نہ کیا جاتا تو ملکی سطح کی جماعت ملک کی بدنامی کا سبب نہ بنی ہوتی۔ کاش! اس وقت بھی ملک کا وقار عزیز سمجھا جاتا جب گزشتہ سال نومبر میں ایک معمول کی تعیناتی کو متنازعہ بنا دیا گیا تھا۔ یہاں تک کہا گیا تھا کہ پی ڈی ایم حکومت اپنی چوری بچانے کے لیے یہ تعیناتی کرے گی۔ کاش! جب چیئرمین پی ٹی آئی پر ایک جنونی نے قاتلانہ حملہ کیا تھا تو ان کی جانب سے غیر ذمہ داری کا مظاہرہ نہ کیا گیا ہوتا۔ کیا کوئی یہ بتانا پسند کرے گا کہ ایک سینئر آفیسر کو بدنام کرنے کی کوشش کس لیے کی گئی تھی؟ کیا اس وقت کسی کا خیال نہیں تھا؟ کاش! چیئرمین پی ٹی آئی اس وقت سیاسی ڈائیلاگ اور بات چیت کی اہمیت کا فہم کرتے جب انہیں پنجاب اور کے پی اسمبلیاں توڑنے سے روکا جارہا تھا۔ انہیں بتایا گیا تھا کہ ملک کے معاشی اور سکیورٹی کے حالات ایسے نہیں کہ بار بار الیکشن کروائے جائیں مگر وہ ضد پر اڑے رہے۔ کاش! ان کی گرفتاری کے بعد فسادات کی مبینہ طور پر منصوبہ بندی نہ کی جاتی۔ ان کی گرفتاری اہم نہیں تھی‘ ملک کی عزت زیادہ اہم تھی۔ کاش! وہ اس وقت خود سے زیادہ ملک کو اہم سمجھتے تو آج حالات مختلف ہوتے۔ گزرے ایک سال میں جب جب ڈائیلاگ اور سیاستدانوں کے ایک ٹیبل پر بیٹھنے کی بات کی گئی‘ انہوں نے انکار ہی کیا۔ اگر اس وقت مذاکرات کو اہمیت دی جاتی تو آج یقینا وقت کے دریا میں اتنی طغیانی نہ ہوتی۔
اس وقت پی ٹی آئی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ سینکڑوں رہنما پارٹی کو خیر باد کہہ چکے ہیں اور نئی جماعت استحکامِ پاکستان پارٹی کو اپنا مسکن بنا چکے ہیں۔ جن رہنماؤں نے تاحال پارٹی نہیں چھوڑی وہ روپوش ہیں یا ملک سے فرار اختیار کر چکے ہیں۔ زمان پارک کا مکین اکیلا ہے۔ کیکر کے اس درخت کی طرح جس کی جانب کوئی نہیں جاتا کیونکہ وہاں پھل ملتا ہے نہ چھاؤں۔ سیاسی ڈائیلاگ کی بات اس لیے کی جا رہی ہے کیونکہ آرمی ایکٹ کے تحت گرفتاری کا امکان بڑھ گیا ہے اور گمان غالب ہے کہ القادر ٹرسٹ کیس میں بھی سابق وزیراعظم اور ان کی اہلیہ جیل جائیں گے۔ پنجاب اور کے پی سے درجنوں ورکروں کو آرمی ایکٹ کے تحت کیس چلانے کے لیے عدالت نے آرمی کے حوالے کر دیا ہے اور سب سے بڑی گرفتاری بھی جلد ہو جائے گی۔ کچھ روز قبل شاہ محمود قریشی نے اپنے چیئرمین سے ملاقات کی اور پیچھے ہٹنے کا کہا تو وہ برامان گئے۔ واقفانِ حال کہتے ہیں کہ موصوف غصے سے بولے: قریشی صاحب میرے ہوتے ہوئے آپ کیسے پارٹی سنبھال سکتے ہیں؟ اس کے بعد شاہ محمود قریشی مایوس واپس لوٹ گئے مگر پھر چیئرمین پی ٹی آئی کی اہلیہ نے بیچ کا راستہ اختیار کرنے کا مشورہ دیا۔اس کے بعد شاہ محمود قریشی سے دوبارہ ملاقات کی گئی۔
اب اس بات کا قومی امکان ہے کہ بڑی گرفتاری سے قبل ہی پارٹی کی کمان شاہ صاحب کے ہاتھ میں آجائے گی۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو پھر جہانگیر ترین اور شاہ محمود قریشی میں ایک نیا مقابلہ شروع ہو جائے گا۔ دونوں اپنی اپنی ''وفاداری‘‘ ثابت کرنے کے لیے دن رات ایک کردیں گے۔ میری ذاتی رائے میں بھی تحریک انصاف کو مزید ٹوٹ پھوٹ سے بچانا ہے تو مائنس ون ناگزیر ہو چکا ہے۔ شاہ محمود قریشی ہی پارٹی کو سنبھال سکتے ہیں اورکوئی دوسرا راستہ موجود نہیں ہے۔ کل تک جو خود کو سب سے اہم سمجھتے تھے‘ آج انہیں اپنی اہمیت کا اندازہ ہوگیا ہوگا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں