خوش ہو کہ ترا مدمقابل نہ رہا میں

کہا جاتا ہے کہ رقیب کبھی دوست نہیں ہو سکتے۔ اگر حالات کی تپش یا وقت کا جبر انہیں دوست بنا بھی دے تو یہ ساتھ زیادہ دیر نہیں چلتا‘ سیاست میں تو بالکل بھی نہیں۔ جلال الدین اکبر کا قول ہے ''دو دشمن تب تک دوست رہ سکتے ہیں جب تک ان کا مشترکہ دشمن کمزور نہیں ہو جاتا‘‘۔ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے ساتھ بھی یہی ہوا ہے۔ جب تک ان کا مشترکہ رقیب پوری قوت کے ساتھ کھڑا تھا یہ دونوں جماعتیں ایک دوسرے کی ڈھال بنی ہوئی تھیں مگر جیسے ہی چیئرمین پی ٹی آئی نے اپنی سیاست پر اپنے ہاتھوں سے کلہاڑی کے وار کیے ہیں‘ حکمران اتحاد میں پائی جانے والی دراڑیں واضح دکھائی دینے لگی ہیں۔ عباس تابش کا شعر ملاحظہ کریں؛
یہ دیکھ مرا ہاتھ مرے خون سے تر ہے
خوش ہو کہ ترا مدمقابل نہ رہا میں
مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی جہاں تحریک انصاف کے بکھرنے پر خوش ہیں وہیں دونوں پارٹیوں کے بیچ رقیبانہ کشمکش دوبارہ شروع ہو چکی ہے۔ دونوں جماعتوں کی نظریں آئندہ الیکشن پر لگی ہیں۔ پیپلز پارٹی کی اپنی خواہشات ہیں اور مسلم لیگ (ن) کی اپنی ترجیحات۔ آصف زرداری کی جماعت گزشتہ ڈیڑھ سال سے (ن) لیگ کی بی ٹیم بنی ہوئی ہے مگر جیسے ہی جنرل الیکشن قریب آیا ہے وہ اب الگ شناخت چاہتے ہیں۔ اس لیے دونوں جماعتیں کے درمیان کھینچا تانی کی ابتدا ہو گئی ہے۔ کچھ اختلافات ایسے ہیں جو سب کو نظر آ رہے ہیں مگر بہت کچھ درونِ خانہ چل رہا ہے۔ میرے نزدیک چیئرمین پی سی بی کا مسئلہ ہو یا چیئرمین نادرا کا مستعفی ہونا‘ کشمیر کا ضمنی الیکشن ہو یا کوئی اور وجہ۔ یہ مسائل حل طلب ہیں اور آج نہیں تو کل‘ کل نہیں تو پرسوں تمام معاملات خوش اسلوبی سے طے پا جائیں گے مگر جو پردوں کے پیچھے چل رہا ہے‘ وہ اختلافات زیادہ سنگین ہیں۔ ان مسائل کی تلخی کے اثرات زیادہ گہرے ہوں گے۔ آئیے! ان تمام سیاسی اختلافات کا ایک ایک کرکے جائزہ لیتے ہیں جن کے باعث مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے درمیان دوریاں بڑھ رہی ہیں۔ غالب گمان ہے کہ یہ دونوں جماعتیں ایک دوسرے کے خلاف انتخابات میں جائیں گی اور پھر وہی الزامات کی آندھی چلے گی جو دہائیوں سے چلتی آرہی ہے۔
(1) آصف علی زرداری کی خواہش اور کوشش ہے کہ بلاول بھٹو زرداری اگلے وزیراعظم ہوں۔ اس خواہش کی تکمیل کے لیے وہ چاہتے ہیں مسلم لیگ (ن) ان کا ساتھ دے‘ جیسے پیپلز پارٹی نے شہباز حکومت بنانے میں کردار ادا کیا تھا۔ پی پی پی کا مسئلہ یہ ہے کہ ان کی اندرونِ سندھ مقبولیت مسلمہ ہے مگر دیگر صوبوں میں ان کا ووٹ بینک ختم ہو چکا ہے۔ وہ اب بلوچستان اور جنوبی پنجاب کے الیکٹ ایبلزکو ٹارگٹ کر رہی ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ جب تک وہ پنجاب میں خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں کرے گی‘ بلاول بھٹو زرداری کبھی وزیراعظم نہیں بن سکتے۔ یہی وجہ ہے کہ زرداری صاحب (ن) لیگ کی مدد حاصل کرنے کے آرزو مند ہیں۔ دوسری طرف مسلم لیگ (ن) میاں نواز شریف کی واپسی کی آس لگائے بیٹھی ہے۔ (ن) لیگ کے تمام اکابرین چاہتے ہیں کہ میاں صاحب واپس آئیں اور انتخابی مہم کو لیڈ کریں تاکہ وہ چوتھی بار وزیراعظم بن سکیں۔ ساری جماعت کا خیال ہے کہ میاں نواز شریف کے ساتھ ناانصافی کی گئی تھی۔ اب اس کا ازالہ کرنے کا وقت آ چکا ہے‘ اس لیے مسندِ اقتدار پر بیٹھنا ان کا حق ہے۔ آئندہ وزیراعظم کا نام دونوں جماعتوں کے درمیان تلخی کی وجہ بنا ہوا ہے۔ دیکھئے یہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔
(2) پیپلز پارٹی کا ماننا ہے کہ اگر انہوں نے اگلی حکومت بنانی ہے تو پھر انہیں اپنی پارلیمانی پوزیشن کو بہتر کرنا ہوگا۔ وہ کراچی میں مزید سیٹیں حاصل کرنے کی تگ و دو میں لگے ہیں۔ انہیں یہ بھی ادراک ہے کہ صرف کراچی اور بلوچستان سے کام نہیں چلے گا‘ پنجاب میں سیٹیں حاصل کرنا ناگزیر ہے۔ اسی لیے پیپلز پارٹی مسلم لیگ (ن) سے سیٹ ایڈجسٹمنٹ چاہتی ہے۔ آصف زرداری نے موجودہ وزیراعظم کو کہا ہے کہ آئندہ الیکشن میں ان کی جماعت کے درجنوں بڑے رہنماؤں جیسے قمر زمان کائرہ‘ فیصل صالح حیات‘ راجہ پرویز اشرف‘ ثمینہ خالد گھرکی‘ ندیم افضل چن‘ تسنیم قریشی‘ چودھری منظور‘ نیئر بخاری‘ یوسف رضا گیلانی اور موسیٰ گیلانی کے خلاف امیدوار کھڑے نہ کیے جائیں۔ مسلم لیگ (ن) ایسا کرنے سے گریزاں ہے۔ ان کا موقف ہے کہ ہم ہر حلقے میں ایسا نہیں کر سکتے۔ ہمارے اپنے امیدوار ہیں‘ اگر ہم نے ٹکٹ نہ دیے تو وہ آزاد کھڑے ہو جائیں گے۔
(3) پیپلز پارٹی گزشتہ ڈیڑھ سال سے اقتدار کے مزے لوٹ رہی ہے مگر مہنگائی کا بوجھ اٹھانے کو تیار نہیں ہے۔ جب پیپلز پارٹی کے وزراء اور دیگر زعماء سے تنہائی میں بات کی جائے تو وہ شہباز حکومت کی کارکردگی کو ہدفِ تنقید بناتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں وزیراعظم مسلم لیگ (ن) کا ہے‘ وزارتِ خزانہ‘ داخلہ‘ پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ‘ اطلاعات اور دفاع جیسی اہم وزارتیں ان کے پاس ہیں مگر کارکردگی کیا ہے۔ معیشت پاتال میں گر گئی ہے‘ مہنگائی عروج پر ہے‘ زرِمبادلہ کے ذخائر کم ترین ہیں‘ روپیہ گراوٹ کا شکار ہے اور برآمدات بڑھ رہی ہیں نہ بے روزگاری کا راستہ روکا جا رہا ہے۔ نئے منصوبے شروع ہوئے ہیں نہ دیگر ترقیاتی کام ہو رہے ہیں۔ وزراتِ داخلہ بھی پی ٹی آئی کے چیئرمین کو کنٹرول کرنے میں ناکام رہی ہے۔ دوسری طرف ایسے ہی شکوے (ن) لیگ کے وزراء کرتے نظر آتے ہیں۔ وہ خارجہ‘ تجارت اور موسمیاتی تبدیلیوں کی وزراتوں کی کارکردگی سے ناخوش ہیں۔ مسلم لیگی وزراء کا خیال ہے کہ بلاول بھٹو سیلاب پر دنیا کی ہمدردیاں حاصل نہیں کر سکے۔ یہی وجہ ہے کہ سیلاب کی مد میں اعلان کی گئی امداد کی رقم تاحال نہیں مل سکی۔
(4) جہانگیر ترین کی استحکامِ پاکستان پارٹی بھی دونوں جماعتوں میں لڑائی کی بڑی وجہ ہے۔ آصف زرداری کی کوشش تھی کہ پی ٹی آئی کے منحرف ارکان ان کی جماعت کی طرف راغب ہوں مگر ایسا نہ ہو سکا۔ جہانگیر ترین نے اپنی جماعت بنا لی اور زرداری صاحب کا خواب ادھورا رہ گیا۔ پیپلز پارٹی کا ماننا ہے کہ جہانگیر ترین کی جماعت کے پیچھے (ن) لیگ کا ہاتھ ہے اور یہ سب پی پی پی کا پنجاب میں راستہ روکنے کے لیے کیا گیا ہے۔
(5) پی ٹی آئی کو لے کر (ن) لیگ کا رویہ بہت جارہانہ ہے۔ وزیر دفاع اور وزیر داخلہ متعدد بار تحریک انصاف پر پابندی لگانے کا عندیہ دے چکے ہیں مگر بلاول بھٹو اور آصف زرداری کا موقف بالکل مختلف ہے۔ وہ پی ٹی آئی کے چیئرمین کے خلاف کارروائی کے خواہش مند ہیں مگر جماعت کو کالعدم قرار دینے کے حامی نہیں۔ یہ مسئلہ بھی دونوں جماعتوں میں کشیدگی کی وجہ بنا ہوا ہے۔
(6) آئندہ الیکشن کی تاریخ پر بھی دونوں پارٹیاں متفق نہیں ہیں۔ پیپلز پارٹی وقت پر الیکشن چاہتی ہے مگر (ن) لیگ کا کہنا ہے کہ اگر چند ماہ اور مل جائیں تو کیا قباحت ہے۔ میاں نواز شریف واپس آ جائیں اور ان کے کیسزپر فیصلہ ہو جائے تو الیکشن کروا دیے جائیں۔
(7) پیپلز پارٹی وفاقی بجٹ پر بھی خوش نہیں ہے۔ اسحاق ڈار نے اپنی مرضی کا بجٹ بنایا ہے مگر پیپلز پارٹی کا موقف تھا کہ آئی ایم ایف کی شرائط کا مکمل خیال رکھا جائے تاکہ آنے والی حکومت کو مسائل کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ سندھ حکومت بھی گلہ گزار دکھائی دی۔ وزیراعلیٰ سندھ نے وفاقی بجٹ پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ کراچی کو اس کا حصہ نہیں دیا گیا۔ واقفانِ حال کہتے ہیں کہ عین ممکن ہے بجٹ سیشن میں پیپلز پارٹی وفاقی بجٹ پر تنقید کرے اور بہتر بنانے کے لیے اپنی سفارشات دے۔ میری دانست میں اگر ایسا ہوا تو مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کا یہ اتحاد وقت سے پہلے ہی ختم ہو جائے گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں