گرفتاریوں کا دوسرا مرحلہ

شیخ سعدی کا قول ہے: دانا وہ نہیں جو دیوقامت چٹانوں سے ٹکرا جائے بلکہ عقل مند وہ ہے جو راستہ بدل لے، بہادر وہ نہیں جو بپھری لہروں کی پروا کیے بغیر دریا میں کود جائے بلکہ دلیر وہ ہے جو طغیانی کم ہونے کا انتظار کرے، باشعور وہ نہیں جو ضد، اَنا اور ہٹ دھری سے بغل گیر ہو جائے بلکہ سلیقہ مند وہ ہے جو حکمت، تدبر اور فہم و فراست کا دامن تھامے رکھے۔ کسے خبر تھی کہ چیئرمین پی ٹی آئی کا فلسفۂ سیاست ریت کی دیوار ثابت ہو گا اور تحریک انصاف کے ورکروں کا عزم دیکھتے ہی دیکھتے قصۂ پارینہ بن جائے گا۔
واقفانِ حال کہتے ہیں کہ نو مئی کے سانحے کے بعد پی ٹی آئی کی صفوں کو تہ و بالا کرنے والا ریلا دوبارہ پُرعزم ہو چکا ہے اور اس بار طغیانی کا لیول پہلے سے بھی زیادہ ہو گا۔ عید کے بعد گرفتاریوں کا دوسرا مرحلہ شروع ہو گا۔ ورکرز کے بعد اب سینئر لیڈرشپ کی باری آئے گی۔ شرپسندی کے مرتکبین کو پابندِ سلاسل کرنے کے بعد منصوبہ بندی کرنے والوں کے گرد گھیرا تنگ کیا جائے گا۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ شرپسندوں اور سہولت کاروں کے خلاف طبل بج چکا ہے اور آنے والا وقت ان کی پریشانیاں مزید بڑھائے گا۔ تحریک انصاف کی لیڈرشپ فوجی عدالتوں کے خلاف کیس سے امیدیں لگائے بیٹھی تھی مگر اس کی سماعت اب غیر معینہ مدت تک کے لیے موخر کر دی گئی ہے۔ دیکھئے اب اس کی دوبارہ سماعت کب ہوتی ہے‘ عید کی چھٹیوں کے بعد یا گرمیوں کی تعطیلات کے بعد۔ ملٹری کورٹس کے حوالے سے زیر سماعت کیس اور اس پر طرح طرح کے تبصروں کے سبب ہر طرف بے یقینی کی دھند چھائی ہوئی تھی مگر ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل احمد شریف چودھری کی پریس کانفرنس نے صورتحال کو واضح کر دیا ہے۔ یہ پریس ٹاک غیر معمولی اہمیت کی حامل تھی۔ قبل ازیں ملٹری کورٹس کے حوالے سے اعلیٰ عدلیہ کے ججز کے ریمارکس بھی آ رہے تھے؛ تاہم اس پریس کانفرنس میں بہت سے پیغامات پنہاں تھے۔ میری دانست میں مذکورہ پریس کانفرنس میں سپریم کورٹ سے لے کر بار ایسوسی ایشنز تک‘ حکومت سے لے کر سول سوسائٹی تک‘ پیپلز پارٹی سے لے کر پی ٹی آئی تک اور شرپسندوں سے لے کر ان کے خاندانوں تک‘ سبھی کے لیے کچھ نہ کچھ تھا۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ فوجی عدالتوںمیں 102 شرپسندوں کا ٹرائل جاری ہے اور یہ ٹرائل جاری رہے گا۔ ایسا ہی ایک پیغام چند روز پہلے وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ اور وزیراعظم کے معاونِ خصوصی عرفان قادر نے بھی دیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر عدالت نے فوجی عدالتوں کے خلاف فیصلہ سنایا تو اسے تسلیم نہیں کیا جائے گا۔ پاک فوج کے ترجمان نے دوٹوک الفاظ میں کہا کہ سانحہ نو مئی کو نہ تو تاریخ میں کبھی بھلایا جائے گا اور نہ ہی ملوث شرپسند عناصر، منصوبہ سازوں او ر سہولت کاروں کو معاف کیا جائے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس سانحے سے جڑے تمام منصوبہ سازوں اور سہولت کاروں کو آئین و قانون کے مطابق سزائیں دی جائیں گی‘ چاہے ان کا تعلق کسی بھی ادارے، سیاسی جماعت یا معاشرتی حیثیت ہی سے کیوں نہ ہو۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ تادیبی عمل کو منطقی انجام تک پہنچانے میں رکاوٹیں ڈالنے والوں سے عوام کی بھرپور حمایت سے سختی سے نمٹا جائے گا۔ یہاںسوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ نومئی کے پُرتشدد واقعات میں ملوث شرپسندوں کو سزا کے عمل میں رکاوٹیں کون ڈال رہا ہے۔ کون ہے جو شرپسندوں کو تحفظ دینا چاہتا ہے؟ کون ہے جو اس سانحے کے ذمہ داران کو قانونی گرفت میں لانے کے عمل میں حائل ہے؟ اس بیان میں سمجھنے والوں کے لیے بہت سی نشانیاں ہیں۔ یہ اشارہ کس طرف ہے؟ ایک حکومتی اتحادی جماعت کے کچھ اکابرین کی جانب یا چیئرمین پی ٹی آئی کی طرف کہ وہ اس میں رکاوٹیں ڈال رہے ہیں یا گرفتار شرپسندوں کے خاندان اس میں رکاوٹ ہیں؟ سوشل میڈیا پر پروپیگنڈا کرنے والے اس کے پیچھے ہیں یا بیرونِ ملک بیٹھے کچھ عناصر؟ ان شخصیات کے علاوہ تو اور کوئی نہیں‘ جس نے ملٹری کورٹس کے خلاف محاذ کھول رکھا ہو اور جو سویلینز کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کی مخالفت کر رہا ہو۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے واضح کیا کہ نو مئی کے منصوبہ سازوں کو کیفر کردار تک پہنچانے تک سانحہ نو مئی انصاف کا منتظر رہے گا۔ اگر کسی کو رعایت دی گئی تو کل کو کوئی دوسرا گروہ کھڑا ہو جائے گا۔ اس میں کیا شبہ ہے کہ نو مئی کے واقعات شرمناک تھے اور افسوناک بھی۔ اصل نکتہ یہ ہے کہ اس سانحہ کی منصوبہ بندی کس نے کی تھی؟ کیا اس کے پیچھے صرف ایک شخص کا دماغ تھا یا ساری پارٹی قیادت ہی اس سازش کا حصہ تھی؟ ڈی جی آئی ایس پی آر نے پریس کانفرنس میں کچھ نہ کہہ کر بھی بہت کچھ کہہ دیا ہے۔ یوں گمان ہوتا ہے کہ جیسے عید کے بعد پی ٹی آئی کے چیئرمین بھی گرفتار ہو جائیں گے اور دیگر روپوش رہنماؤں کا بھی کھوج لگایا جائے گا۔ جو رہنما اب تک چھپے ہوئے ہیں‘ انہیں ڈھونڈا جائے گااور جو ملک سے فرار ہو چکے ہیں‘ انہیں واپس لانے کے لیے ہر ممکن اقدامات کیے جائیں گے۔ اب حماد اظہر بھی گرفتار ہوں گے اور مراد سعید بھی۔ علی امین گنڈا پور بھی گرفت میں آئیں گے اور کنول شوذب بھی۔علی نواز کی گرفتاری کے لیے بھی چھاپے مارے جائیں گے اور زلفی بخاری کے گرد بھی گھیرا تنگ کیا جائے گا۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے اپنی پریس کانفرنس میں بتایا کہ فوج کے اندر نو مئی کے واقعات کو لے کر بہت غم و غصہ پایا جاتا ہے اور شہدا کے خاندان ملزمان کے خلاف کارروائیاں تیز کرنے پر زور دے رہے ہیں۔ اس پریس کانفرنس میں سب سے اہم خبر یہ تھی کہ فوج نے نو مئی کے بعد خود احتسابی کا عمل مکمل کر لیا ہے۔ ایک لیفٹیننٹ جنرل سمیت تین افسران کو نوکری سے برخاست کیا جا چکا ہے، تین میجر جنرلز اور سات بریگیڈیئرز سمیت پندرہ افسران کے خلاف تادیبی کارروائی عمل میں لائی گئی ہے۔ ترجمان پاک فوج نے بتایا کہ ایک ریٹائرڈ فور سٹار جنرل کی نواسی اور ایک ریٹائرڈ فور سٹار جنرل کا داماد گرفتار ہیں۔ ایک ریٹائرڈ تھری سٹار جنرل کی بیگم اور ایک ریٹائرڈ ٹو سٹار جنرل کی بیگم اور داماد کے خلاف بھی کارروائی جاری ہے۔ اتنی حساس معلومات دینے کا مقصد یہی ہے کہ اگر فوج اپنی صفوں میں موجود کرداروں سے کوئی رعایت نہیں برت رہی تو کسی دوسرے کو بھی معافی نہیں ملے گی۔ اگر حاضر سروس لیفٹیننٹ جنرل، میجر جنرلز اور بریگیڈیئرز کے خلاف کارروائی ہو سکتی ہے تو سیاسی لیڈرشپ کو بھی گرفت میں لایا جائے گا۔ سیاسی جماعت کا کوئی ورکر ہو یا چیئرمین‘ کسی سے رعایت نہیں برتی جائے گی۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے واضح الفاظ میں کہا کہ سانحہ نو مئی کے ماسٹر مائنڈز وہی ہیں جنہوں نے عوام کی ذہن سازی کی۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کے معصوم عوام بالخصوص نوجوانوں سے انقلاب کا جھوٹا نعرہ لگوا کر انہیں بغاوت پر اکسایا گیا۔ اب یہ سوال پی ٹی آئی اور اس کی قیادت سے ضرور پوچھا جانا چاہیے کہ کس نے ادارے کے نیوٹرل ہونے کو طعنہ بنایا؟ کون میر جعفر اور میر صادق کے نعرے لگاتا تھا؟ کون اہم تعیناتی کو متنازع بنانے کے عمل میں شریک تھا، کون اس تعیناتی کو روکنے کے لیے لانگ مارچ لے کر اسلام آباد پر چڑھ دوڑا تھا؟
ڈی جی آئی ایس پی آر نے ملزمان کے خاندانوں کو پیغام دیا ہے کہ گھبرانے کی ضرورت نہیں‘ ملزمان کو سول وکلا کی سہولت میسر ہے۔ وہ ملٹری ٹرائل کے بعد ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ میں اپیل کرنے کا حق بھی رکھتے ہیں۔ ملٹری کورٹس نو مئی کے بعد نہیں بنائی گئیں بلکہ وہ پہلے بھی کام کرتی تھی اور آئندہ بھی کرتی رہیں گی۔ یقینا نو مئی سے قبل کسی کو بھی توقع نہیں تھی کہ ایک سیاسی جماعت اپنے ہی ملک پر حملہ آور ہو جائے گی۔ میں سمجھتا ہوں کہ اب بھی پانی پلوں کے نیچے سے نہیں گزرا۔ پی ٹی آئی کی قیادت کو سوچنا ہو گا کہ اس سے کہاں کہاں غلطیاں ہوئی ہیں؟ نو مئی کے واقعات کی محض زبانی مذمت کافی نہیں‘ اس سانحے پر قوم سے معافی مانگنی چاہیے۔ ہو سکتا ہے کہ حالات کی کشتی بھنور سے نکل آئے۔ عین ممکن ہے کہ سیاست کے دریا میں طغیانی کم ہو جائے۔ اگر ایسا نہ ہوا تو عید کے بعد گرفتاریوں کا دوسرا مرحلہ شروع ہو گا اور پھر کسی کو کوئی رعایت نہیں دی جائے گی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں