الیکشن کب ہوں گے ؟

سیاست کی دنیا سمندر سے زیادہ عمیق اور زندگی کے تنوع سے زیادہ عجیب ہوتی ہے۔ یہاں کبھی خاموشی کے نغمے سنائی دیتے ہیں اور کبھی چیختی روحوں کی صدائیں، کبھی پھولوں کی سرگوشیاں اورکبھی دلوں میں مچلتی حسرتیں۔ سیاست کی غلام گردشوں میں ہر وہ کام ہوتا ہے جس کا عام زندگی میں تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ ہیرو کب زیرو ہو جائے اور زیرو کب ہیرو کا روپ دھار لے‘ کچھ پتا نہیں چلتا۔ اس میدان کے اہم فیصلے کہاں ہوتے ہیں‘ کوئی نہیں جانتا یا پھر سب جانتے ہیں مگر معمہ یہ ہے کہ پردہ نشینوں کے نام کون منظر عام پر لائے؟ اندھیرے میں دیا کون جلائے؟ جون ایلیا کا ایک شعر لگتا ہے کہ ہماری سیاست کے لیے ہی لکھا گیا ہے:
میں بھی بہت عجیب ہوں اتنا عجیب ہوں کہ بس
خود کو تباہ کر لیا اور ملال بھی نہیں
نو مئی کے بھیانک واقعات کے بعد سیاست نے عجیب چال چلی ہے، جو مقبول تھے وہ پاتال میں گر گئے اور جو غیر مقبولیت کے بوجھ تلے دب چکے تھے‘ وہ پھر سے ابھرتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔ یوں لگ رہا ہے کہ جیسے پی ٹی آئی کا سیاست کی بساط پر ہونا اور نہ ہونا ایک برابر ہے۔ حکومت اپنی مرضی کر رہی ہے اور اسے کوئی روکنے ٹوکنے والا بھی نہیں۔ عید سے قبل میں نے اپنے کالم ''گرفتاریوں کا دوسرا مرحلہ‘‘ میں قارئین کو خبر دی تھی کہ عید کے بعد سیاست میں تیزی آئے گی اور حالات یکسر تبدیل ہو جائیں گے۔ پی ٹی آئی کے چیئرمین کی گرفتاری بھی ہو گی اور ان کے اہلِ خانہ کے گرد بھی گھیرا تنگ کیا جائے گا۔ رات کے اندھیر ے میں جس طرح نیب صدارتی آرڈیننس لایا گیا ہے‘ اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ القادر ٹرسٹ کیس میں پیشرفت ہونے والی ہے۔ نئے نیب آرڈیننس کے تحت گرفتار ملزم کو 14 کے بجائے 30 دن تک جسمانی ریمانڈ پر رکھا جا سکے گا۔ چیئرمین نیب عدم تعاون پر ملزمان کے وارنٹ گرفتاری جاری کر سکیں گے۔ آرڈیننس کے مطابق نیب کے ملزم کو اپنی بے گناہی خود ثابت کرنا ہو گی جبکہ وہ کسی بھی عدالت سے انکوائری کے خلاف رجوع بھی نہیں کر سکے گا۔
کیا حکومت بتانا پسند کرے گی کہ اگر ایک سال بعد ہی نیب قوانین دوبارہ تبدیل کرنے تھے‘ تو پھر پہلے اتنا کشٹ کیوں کاٹا گیا تھا؟ کیوں حکومت سنبھالتے ہی نیب آرڈیننس میں ترامیم کی گئی تھیں؟ اب اگر صرف ایک شخص کی گرفتاری کے لیے ہی یہ سب کچھ کیا جا رہا ہے تو یہ عمل سراسر بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔اس کی اجازت قانون دیتا ہے نہ آئین۔ پارلیمنٹ بھی 'پرسن سپیسیفک‘ قانون نہیں بنا سکتی‘ یہ تو پھر صدارتی آرڈیننس ہے‘ جس کی مدت چار ماہ سے زیادہ نہیں ہوتی۔ ہو سکتا ہے یہ آرڈیننس اعلیٰ عدلیہ میں چیلنج ہو جائے اور پھر فیصلہ وہی ہو گا جو آئین و قانون کی منشا ہو گی۔ تاہم اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ القادر ٹرسٹ کیس میں سابق وزیراعظم اور ان کی اہلیہ کے خلاف چارج شیٹ بہت سنجیدہ نوعیت کی ہے۔ انہیں نیب کے ساتھ ضرور تعاون کرنا چاہیے‘ ورنہ حالات جس نہج پر پہنچ چکے ہیں ان کی گرفتاری ناگزیر نظر آ رہی ہے۔
دوسری طرف حکومت کی خوش بختی ہے کہ آئی ایم ایف سے سٹینڈ بائی ارینجمنٹ کے تحت نیا معاہدہ ہو گیا ہے جس کے بعد پاکستان کو نو ماہ میں تین ارب ڈالر ملیں گے۔ یہی نہیں‘ سعودی عرب سے دو ارب ڈالر، یو اے ای سے ایک ارب ڈالر‘ ورلڈ بینک اور ایشین ڈویلپمنٹ بینک سے بھی دو ارب ڈالر جلد ملنے کی توقع ہے۔ اس کے ساتھ سیلاب متاثرین کی بحالی کی مد میں اعلان کردہ امدادی رقم بھی جلد ملناشروع ہو جائے گی۔ اس معاہدے کے مثبت اثرات مارکیٹ پر بھی دیکھنے کو ملے ہیں۔ سٹاک مارکیٹ میں بہتری آئی ہے، روپے کی قدر مستحکم ہوئی ہے اور سونے کی قیمت میں واضح کمی نظر آئی ہے۔ یہ معاہدہ بروقت کیا گیا ہے اور اگر حکومت الیکشن کی فکر کرتی تو یہ معاہدہ چھ ماہ مزید تاخیر کا شکار ہو جانا تھا جس کی سکت ہماری معیشت کے اندر نہیں تھی۔ شاید ہم آئی ایم ایف کے بغیر ایک سہ ماہی مزید گزار لیتے مگر اس کے بعد ڈیفالٹ کے خدشات سے بچنا تقریباً ناممکن ہو جانا تھا۔ ویسے بھی یہ حکومت اب سوا ماہ کی مہمان ہے‘ اس کے بعد نگران سیٹ اَپ نے آنا ہے اور آئی ایم ایف کبھی نگران حکومتوں سے معاہدہ نہیں کرتا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ آئی ایم ایف معاہدے کے بعد مہنگائی میں کمی آئے گی یا نہیں؟ اور یہ کہ یہ معاہدہ کن شرائط پر کیا گیا ہے۔
حکومت نے لیٹر آف انٹینٹ میں آئی ایم ایف کو گارنٹی دی ہے کہ وہ اگلے نو ماہ میں کوئی ٹیکس ایمنسٹی سکیم متعارف نہیں کرائے گی، تجارت پر عائد پابندیاں ختم کر دی جائیں گی، پاکستان قرض دینے والے دوست ممالک اور اداروں کی یقین دہانیوں پر عمل درآمد کرائے گا، زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ کیا جائے گا اور سرکاری اداروں میں اصلاحات کی جائیں گی۔ میری دانست میں سرکاری اداروں میں تین طرح کے مسائل انتہائی گمبھیر صورت اختیار کر چکے ہیں۔ اول: سرکاری اداروں میں کام کم ہے اور ملازمین زیادہ‘ جس کے باعث وسائل کا بے دریغ استعمال ہو رہا ہے۔ سرکاری اداروں میں توازن لانے کی اشد ضرورت ہے۔ دوم: جو سرکاری ادارے خسارے میں ہیں جیسے پی آئی اے‘ جو سالانہ نوے ارب روپے کے خسارے میں چل رہی ہے اور ریلویز‘ جس کا خسارہ پچاس ارب کے قریب ہے‘ اگر حکومت ان کو چلانے سے قاصر ہے تو پھر انہیں پرائیوٹائز کیوں نہیں کر دیا جاتا؟ سوم: پنشنز کا بوجھ سرکاری خزانے پر ناقابلِ برداشت ہو چکا ہے۔ پنشن کی مد میں آٹھ سو ارب سے زائد خرچہ آتا ہے، اس معاملے میں بھی اصلاحات ضروری ہیں۔ ان شرائط کے علاوہ حکومت نے آئی ایم ایف کو یقین دہانی کرائی ہے کہ پٹرولیم لیوی ساٹھ روپے تک بڑھائی جائے گی، مالیاتی نظم و ضبط کو یقینی بنایا جائے گا، ایکسچینج ریٹ پر سرکاری کنٹرول ختم کر دیاجائے گا، گیس اور بجلی کی قیمتوں میں اضافہ ہو گا، شرحِ سود بڑھانا ہو گی اور ان پالیسیوں پر مستقل بنیادوں پر عمل درآمد کرنا ہو گا۔ ان شرائط میں سے کوئی بھی ایسی نہیں کہ پاکستان کے معاشی مسائل کو حل کرنے کے لیے ناگزیر نہ ہو۔ ہاں البتہ! عوام کو مہنگائی کا مزید عذاب جھیلنا پڑے گا۔ اس کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں ہے۔
جہاں ایک طرف پی ٹی آئی کے چیئرمین روز بروز تنہا ہوتے جا رہے ہیں اور اب ان کی گرفتاری قریب آتی جا رہی ہے‘ وہیں میاں نواز شریف کی ملکی سیاست میں فعالیت بڑھتی جا رہی ہے۔ اب وہ بڑے بڑے فیصلے کرتے نظر آ رہے ہیں۔ دبئی میں ہونے والی ملاقاتوں میں الیکشن کی تاریخ، نگران سیٹ اَپ کی تشکیل، سیٹ ایڈجسٹمنٹ، معیشت اور اگلے وزیراعظم کے حوالے سے اجلاس ہو رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ الیکشن کب ہوں گے؟ نگران وزیراعظم کون ہو گا؟ سندھ اور بلوچستان میں نگران وزیراعلیٰ کسے بنایا جائے گا؟ سوال یہ بھی ہے کہ جب آئینی تقاضا اکتوبر‘ نومبر میں الیکشن کرانے کا ہے تو پھر مارچ‘ اپریل کا شوشہ کیوں چھوڑا جا رہا ہے؟ سردست کوئی نہیں جانتا ہے کہ الیکشن کی تاریخ پر کیا فیصلہ ہوا ہے اور کوئی فیصلہ ہوا بھی ہے یا نہیں۔ میں اتنی گزارش کروں گا کہ جب نگران وزیراعظم کا نام سامنے آئے گا تو اس سے یہ تعین کرنا آسان ہو جائے گا کہ الیکشن اکتوبر‘ نومبر میں ہوں گے یا مارچ‘ اپریل میں۔ کہا جاتا ہے کہ اگر کوئی سماجی و صحافتی شخصیت یا کوئی پرانا سیاستدان نگران وزیراعظم بنا تو گمان کیا جا سکتا ہے کہ الیکشن وقت پر ہوں گے اور اگر قرعہ فال کسی اکانومسٹ کے نام نکلتا ہے تو پھر الیکشن کی تاریخ پر دھند چھا جانے کا خدشہ ہے۔ عین ممکن ہے کہ پھر الیکشن تاخیر کا شکار ہو جائیں اور جب سیاست کی ساری گرد بیٹھ جائے تو پھر انتخابات کی جانب بڑھا جائے۔ واقفانِ حال کہتے ہیں کہ اگر ایسا ہوا تو یہ نواز شریف کی مشاورت اور مرضی سے ہی ہو گا‘ آخر ان کے کیسز کے فیصلے بھی تو ابھی ہونے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں