تمہاری داستاں تک نہ ہوگی داستانوں میں

مولانا رومی کا قول ہے ''بربادی اور خوشحالی کا فرق وہی جانتاہے جس نے خوشحالی کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ہو‘‘۔ خاکم بدہن! مگر سچ یہی ہے کہ ملک کی بنیادیں اس وقت کھوکھلی ہو چکی ہیں۔ سیاست، معیشت اور معاشرت میں بگاڑ خطرناک حدوں کو چھو رہا ہے۔ وقت کی تلوار آخری وار کرنے کے لیے تیار ہے۔ اگر ہم نے اب بھی اپنی آنکھیں نہ کھولیں اور حالات کی نزاکت کو نہ بھانپا تو پھر وہی ہو گا جو تاریخ میں ہوتا آیا ہے۔ سیاست تباہ، معاشرت برباد اور معیشت کنگال۔
وقت آ گیا ہے کہ اب ہمیں یہ فیصلہ کرنا ہو گا کہ ملک عزیز ہے یا شخصیات۔ آئین مقدم ہے یا لاقانونیت۔ جمہوریت ضروری ہے یا آمرانہ رویے۔ ہم آج اس دوراہے پر کھڑے ہیں جہاں سے ایک راستہ ترقی کو جاتا ہے اور دوسرا بربادی کو۔ ایک پگڈنڈی عاجزی اور انکساری کو جاتی ہے اور دوسری شدت پسندی کو۔ ایک طرف روشنی کے مینار ہیں اور دوسری جانب ظلمتوں کی حکمرانی۔ اب ہم نے بطور قوم فیصلہ کرنا ہے کہ ہماری منزل کون سی ہونی چاہیے؟ اس بات میں کیا شبہ ہے کہ پی ٹی آئی کا ساڑھے تین سالہ دور ناکامیوں کی داستان تھا اور اس بات میں بھی کوئی دورائے نہیں کہ شہباز حکومت بھی معیشت کو بچانے میں بری طرح ناکام ہوئی ہے۔ گزشتہ سوا سال میں عوام کے ساتھ وہ سلوک ہوا ہے جو شاید منگول فوجوں نے بغداد کے ساتھ کیا تھا۔ منگول لوٹ مار کرکے آگے بڑھ گئے تھے مگر بغداد کے باسی دہائیوں تک فاقہ کشی پر مجبور رہے تھے۔ آج مہنگائی کا جو عالم ہے‘ اگر ہم نے اس کا راستہ نہ روکا اور معیشت کی سَمت درست نہ کی تو ہمارے ساتھ اس سے مختلف کیا ہو سکتا ہے؟
اٹھارہویں صدی کے مشہور اکانومسٹ ایڈم سمتھ کا کہنا تھا کہ ''قوموں کی دولت حکمرانوں سے زیادہ عوام بڑھاتے ہیں۔ عوام اگر اپنے پیٹ پر پتھر نہ باندھیں تو قومی خزانہ نہیں بھر سکتا‘‘۔ ہمارا قومی المیہ یہ ہے کہ ہمیں ریاست سے زیادہ حکومتیں عزیز ہیں اور وطن سے بڑھ کر سیاسی جماعتیں۔ کیا ہم نے کبھی سوچا کہ ایسا کیوں ہے؟ کیا ترقی یافتہ قوموں کا چلن یہی ہوتا ہے؟ یورپ، امریکہ، برطانیہ اور چین کو چھوڑیں‘ کیا بھارت اور بنگلہ دیش میں بھی ایسا ہی ہوتا ہے؟ کیا وہاں بھی وزیراعظم کی شکل دیکھ کر سرمایہ کاری کی جاتی ہے؟ کیا ان ملکوں میں بھی ترسیلاتِ زر اپنی پسندیدہ پارٹی کی وجہ سے بھیجی جاتی ہیں؟ مالی سال 2021-22ء میں بیرونِ ملک پاکستانیوں نے تاریخ میں سب سے زیادہ‘ 31 ارب ڈالر سے زائد کی ترسیلاتِ زر بھیجیں مگر جیسے ہی پی ٹی آئی کی حکومت رخصت ہوئی‘ اوور سیز پاکستانیوں کا رویہ بھی بدل گیا۔ گزشتہ مالی سال کے دوران ترسیلاتِ زر میں چودہ فیصد کمی دیکھنے میں آئی، یہ 31 ارب ڈالر سے کم ہوکر 27 ارب ڈالر پر آ گئیں۔ سوال یہ ہے کہ باقی کے چار ارب ڈالر کہاں گئے؟ اگر یہ لگ رہا ہے کہ بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں نے اپنے خاندانوں کو پیسے بھیجنے کم کر دیے ہیں تو ایسا ہرگز نہیں ہے۔ عین ممکن ہے کہ انہوں نے ہنڈی جیسے غیر قانونی طریقوں سے یہ رقم پاکستان منتقل کی ہو۔ پی ٹی آئی کے چیئرمین کا فلسفہ بھی یہی ہے۔ اگرملک میں ان کی حکومت نہیں‘ تو پھر ہنڈی کے ذریعے پیسے بھیجے جائیں۔ ماضی میں اپنے جلسوں میں وہ متعدد بار ایسی ترغیبات دے چکے ہیں۔ اب اوور سیز پاکستانیوں کو کون سمجھائے کہ یہ چار ارب ڈالر ملک کی معیشت کے لیے کتنے اہم تھے۔ ان کے اس طرزِ عمل سے کسی پارٹی یا حکومت کا نہیں‘ ملک کا نقصان ہو رہا ہے، حکومتوں کا کیا ہے وہ تو تبدیل ہوتی رہتی ہیں۔ کل پی ٹی آئی کی حکومت تھی اور آج پی ڈی ایم برسرِ اقتدار ہے‘ کون جانے کل کس کی حکومت ہوگی مگر ملک اور ریاست تو وہیں رہتے ہیں۔
حکومت نے اچھا کیا کہ فوج کے ساتھ مل کر معیشت کی بحالی کا منصوبہ بنایا۔ اس منصوبے کی خاص بات یہ ہے کہ اس کا انحصار قرضوں سے زیادہ سرمایہ کاری پر ہے۔ اگر ملک میں بیرونی سرمایہ کاری بڑھے گی تو صنعتوں کا پہیہ چلے گا اور برآمدات میں اضافہ ہو گا۔ یہی وہ واحد طریقہ ہے جس پر عمل کر کے قرضوں کے گرداب سے نکلا جا سکتا ہے۔ یہی نہیں‘ حکومت نے آرمی کی مدد سے پاکستان کے دوسرے زرعی انقلاب منصوبے یعنی گرین پاکستان انیشی ایٹو کا بھی آغاز کیا ہے۔ اس منصوبے پر صحیح معنوں میں عمل کیا جائے تو ملک کی زراعت دن دُگنی رات چوگنی ترقی کر سکتی ہے۔ زراعت کی ترقی کے لیے فوج کی نگرانی میں لینڈ انفارمیشن اینڈ مینجمنٹ سسٹم (لِمز) کا قیام عمل میں لایا گیا ہے۔ لِمز کے قیام کا مقصد فوڈ سکیورٹی، زرعی برآمدات کو بڑھانا، درآمدات کو کم کرنا، قومی خزانے سے بوجھ گھٹانا، ملک میں کروڑوں ایکڑ غیر کاشت شدہ اراضی کو قابلِ کاشت بنانا، جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے زرعی پیدوار میں اضافہ کرنا، کسانوں کو موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات سے بچانا، فصلوں کی سیٹلائٹ نگرانی کرنا، پانی، کھاد اور سپرے بارے بروقت آگاہی دینا اور کسانوں کی منڈیوں تک براہِ راست رسائی کو یقینی بنانا ہے۔ زرعی اصلاحات کے منصوبے کی سب سے اچھی بات یہ ہے کہ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، قطر، بحرین اور چین ان میں سرمایہ کاری میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ حکومت کا یہ منصوبہ انتہائی خوش آئند ہے۔ کہنے کو پاکستان ایک زرعی ملک ہے مگر دکھ یہ ہے کہ یہاں زراعت ایک گھاٹے کا سودا سمجھا جاتا ہے۔ کسان کو سستی کھاد میسر ہے نہ زرعی ادویات، پانی کی فراوانی ہے نہ جدید ٹیکنالوجی میسر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ملک بھر میں فی ایکڑ پیداوار مسلسل کم ہوتی جاتی ہے اور کسان کبھی خوشحال نہیں ہو پاتے۔
گرین پاکستان انیشی ایٹو وقت کی اہم ضرورت ہے۔ موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے پاکستان میں غذائی قلت کا خطرہ بہت بڑھ گیا ہے۔ عالمی ادارۂ خوراک کے مطابق 36.9 فیصد پاکستانی غذائی عدم تحفظ کا شکار ہیں اور 18.3 فیصد پاکستانی شدید غذائی بحران میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔ یہی نہیں‘ پاکستان میں تقریباً پچاس فیصد بچے غذائی قلت کے باعث کمزور پیدا ہو رہے ہیں۔ زچگی کے دوران ماؤں کو مناسب خوراک نہیں مل پاتی۔ اگر ہم نے گرین پاکستان انیشی ایٹو سے فائدہ نہ اٹھایا تو غذائی قلت کا خطرہ ناقابلِ برداشت حد تک بڑھ جائے گا۔ اس کی ضرورت اس لیے بھی ہے کہ پاکستان ان چند ممالک میں شامل ہے جنہیں موسمیاتی تبدیلیوں نے سب سے زیادہ متاثر کیا ہے۔ گزشتہ سال ہونے والی بارشوں نے بہت تباہی پھیلائی تھی جس سے تیار فصلیں تباہ ہو گئی تھیں۔ اس سال بھی معمول سے زیادہ بارشوں اور سیلابی صورتحال کا خدشہ موجود ہے، اس لیے ہمیں ہر حال میں ان کا سدِباب کرنا ہے ورنہ خدانخواستہ وہی حال ہو گا‘ جو گزشتہ سال ہوا تھا۔
گرین پاکستان انیشی ایٹو کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے آرمی چیف نے کہا کہ پاکستان میں لوگ مایوسی اور حوصلہ شکنی کی باتیں کرتے ہیں لیکن ایسا نہیں ہے۔ مایوسی پھیلانے والے غلط پروپیگنڈا کر رہے ہیں۔ ملک کی معیشت ایک سال میں درست سمت میں آ جائے گی۔ خدا کرے کہ ایسا ہی ہو۔ معاشی اصلاحات کے منصوبوں کے ذریعے معیشت میں بہتری آئے، بیرونی سرمایہ کاری میں اضافہ ہو، زرمبادلہ کے ذخائر بڑھ جائیں، فوڈ سکیورٹی کے مسائل حل ہو جائیں، کسانوں کی آمدن میں اضافہ ہو، صنعتوں اور آئی ٹی کے شعبوں میں انقلاب برپا ہو جائے۔ اگر خاکم بدہن ایسا نہ ہو سکا تو وقت کا ناگ تو پھن پھیلائے بیٹھا ہی ہے اور وہ کسی بھی وقت ہم پر حملہ آور ہو سکتا ہے۔ اگر ہم نے اپنی آئندہ نسلوں کو خوشحال دیکھنا ہے تو اپنے آج کو بہتر بنانا ہو گا۔ ایسا نہ ہوا تو علامہ اقبال کے مصرع کی طرح:
تمہاری داستاں تک نہ ہو گی داستانوں میں

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں