اگر الیکشن جیتنا ہے تو…

میرا ایک دوست پریشانی کے عالم میں سر جھکائے بیٹھا تھا۔ میں نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور پوچھا: کیا بات ہے‘ خیریت تو ہے نا؟ اس نے خالی خالی نظروں سے میری جانب دیکھا مگر منہ سے کچھ نہیں کہا اور خاموش رہا۔ یہ دیکھ کر میری بے چینی مزید بڑھ گئی، میں نے دوبارہ پوچھنے کی کوشش کی تو وہ بولا: مہنگائی بہت ہو گئی ہے‘ تنخواہ کب آتی ہے اور کب ختم ہو جاتی ہے‘ کچھ پتا ہی نہیں چلتا۔ اب تو سفید پوشی کا بھرم قائم رکھنا بھی مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ نجانے کب اس حکومت سے جان چھوٹے گی۔ اس کی بات مکمل ہوئی تو میں نے عرض کی: یہ حکومت تو اب ویسے بھی چند ہفتوں کی مہمان ہے‘ اس کے بعد نگران حکومت آ جائے گی۔ اگرچہ یہ درست ہے کہ پی ڈی ایم حکومت نے پورا سال معیشت کو ٹھیک طریقے سے ہینڈل نہیں کیا مگر جاتے جاتے یہ کچھ اچھے کام کر گئی ہے۔ اس حکومت نے الیکشن کو نزدیک آتا دیکھ کر بجٹ کو سیاست زدہ نہیں کیا اور آئی ایم ایف سے معاہدہ کرنے سے بھی گریز نہیں کیا۔ خدا کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ آئی ایم ایف سے معاہدہ ہو گیا ہے اور پہلی قسط بھی موصول ہو گئی ہے۔ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے بھی تین ارب ڈالر سٹیٹ بینک کو موصول ہو چکے ہیں۔ ورلڈ بینک، ایشیائی ترقیاتی بینک، اسلامی ترقیاتی بینک اور چین سے بھی جلد ہی رقم موصول ہو جائے گی۔ اس کے بعد زرمبادلہ کے ذخائر بڑھ جائیں گے اور روپیہ مزید مستحکم ہو گا۔ اب گھبرانے کی کوئی بات نہیں۔ دھیرے دھیرے مہنگائی کی شرح نیچے آ جائے گی۔ میں اپنے دوست کی ڈھارس بندھانے کے لیے مزید کچھ کہنا چاہتا تھا مگر اس نے ٹوک دیا اور قدرے تلخی سے گویا ہوا: آئی ایم ایف سے معاہدہ حکومت کی وجہ سے نہیں بلکہ خان صاحب کے باعث ہوا ہے۔ اگر پی ٹی آئی اس معاہدے کی حمایت نہ کرتی تو آئی ایم ایف نے اس امپورٹڈ حکومت سے کبھی معاہدہ نہیں کرنا تھا۔ حکومت کو کریڈٹ دینے کی ضرورت نہیں۔ یہ معاہدہ بھی خان صاحب کی وجہ سے ہوا ہے اور اگر اس کے بعد مہنگائی میں کمی آئی تو وہ بھی ان کی وجہ سے ہی آئے گی۔ یہی سچ ہے اور سچ کو بدلا نہیں جا سکتا۔
میرے د وست نے اسی پر اکتفا نہیں کیا‘ وہ اس کے بعد بھی کافی دیر تک چیئرمین پی ٹی آئی کی تعریفیں کرتا رہا۔ مجھے محسوس ہوا کہ اس کا مسئلہ مہنگائی نہیں تھابلکہ آئی ایم ایف معاہدے کا کریڈٹ یہ اپنی پسندیدہ پارٹی کو دینا چاہتا تھا۔ میں نے اس سے کوئی بحث نہیں کی اور اس کی ہاں میں ہاں ملا کر وہاں سے چلتا بنا۔ اس ملاقات کے بعد مجھے یقین ہو گیا کہ پروپیگنڈا سچ سے بڑا ہوتا ہے اور الیکشن کے دوران مقابلہ کارکردگی پر نہیں بلکہ بیانیے پر ہو گا۔ جو پارٹی جتنا اچھا بیانیہ بنائے گی‘ اس کی کامیابی کے امکانات اتنے ہی زیادہ ہوں گے۔ آئی ایم ایف معاہدے پر جو موقف میں نے درج بالا سطور میں بیان کیا ہے‘ یہ ایک پڑھے لکھے اور سیاسی سوجھ بوجھ رکھنے والے شخص کا موقف تھا۔ نیم خواندہ اور اَن پڑھ افراد پروپیگنڈے کا شکار کیسے ہوتے ہوں گے‘ اس کا اندازہ بہ آسانی لگایا جا سکتا ہے۔
سوشل میڈیا پروپیگنڈے کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ وہاں نوے فیصد لوگ جھوٹ اور سچ، صحیح اور غلط میں تمیز کرنے سے قاصر ہوتے ہیں۔ جو بات بار بار بیان کی جاتی ہے‘ اسے من و عن تسلیم کر لیا جاتا ہے۔ سیاسی جماعتوں نے کروڑوں‘ اربوں روپے لگا کر اپنے اپنے پروپیگنڈا سیل بنا رکھے ہیں جن کا کام ہی عوام کو گمراہ کرنا ہوتا ہے۔ اس بات میں بھی کوئی شک نہیں کہ سب سے بڑا اور مؤثر پروپیگنڈا سیل تحریک انصاف کا ہے۔ اس کے بعد مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کی باری آتی ہے۔
گزشتہ دنوں بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کا ایک وڈیو کلپ وائرل ہوا (یا پھر وائرل کیا گیا)۔ نریندر مودی پاکستان کے خلاف زہر اگل رہے تھے۔ اس حوالے سے پی ٹی آئی چیئرمین نے بھی اپنی تقریر میں کہہ دیا کہ مودی نے پاکستان مخالفت کی ہر حد عبور کر دی ہے مگر شہباز حکومت خاموشی کی چادر تانے ہوئے ہے۔ اس کے بعد پروپیگنڈا سیل متحرک ہو گیا، لاکھوں ٹویٹ کرائے گئے اور وی لاگز کیے گئے مگر جب حقیقت سامنے آئی تو پتا چلا کہ یہ کلپ تو 2019ء کا تھا اور اس وقت پی ٹی آئی ہی برسرِ اقتدار تھی مگر سوشل میڈیا پر پروپیگنڈے کا تیر ایک بار چل جائے تو پھر ہر طرف جھوٹ پھیلاکر ہی دم لیتا ہے۔ اس معاملے میں بھی ایسا ہی ہوا۔
وزیراعظم شہبازشریف نے اعلان کیا ہے کہ ان کی حکومت اگلے مہینے ختم ہو جائے گی اور اس کے بعد نگران حکومت کمان سنبھال لے گی۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا وزیراعظم کے اعلان کے بعد مستقبل کا سیاسی منظر نامہ واضح ہو گیا ہے؟ الیکشن کے انعقاد پر چھائی دھند چھٹ گئی ہے؟ الیکشن کمیشن آئینی مدت میں الیکشن کرا دے گا؟ اور سب سے بڑھ کر‘ پی ٹی آئی اور اس کے چیئرمین الیکشن لڑنے کے لیے اہل ہوں گے یا نہیں؟ واقفانِ حال کہتے ہیں کہ الیکشن اسی سال ہو جائیں گے۔ نگران حکومت کو توسیع دینے کی کوئی منصوبہ بندی ہو رہی ہے نہ قومی اسمبلی کی مدت بڑھائی جائے گی۔ ایک ماہ قبل مارچ‘ اپریل میں الیکشن کرانے کی تجویز ضرور سامنے آئی تھی مگر متعلقہ حلقوں نے انکار کر دیا تھا۔ مقتدر حلقوں کا موقف تھا کہ پنجاب اور کے پی کے بعد وفاق میں بھی نگران حکومت کو توسیع دی گئی تو مناسب عمل نہ ہو گا۔ اس سے عوام میں منفی پیغام جائے گا جو کسی طور بھی ٹھیک نہیں۔ باقی رہا یہ سوال کہ پی ٹی آئی اور اس کے چیئرمین الیکشن کے لیے اہل ہوں گے یا نہیں؟ اس کا جواب بہت آسان ہے۔ پی ٹی آئی تو بطور جماعت انتخابات میں حصہ لے گی مگر تحریک انصاف کے چیئرمین کا سیاسی مستقبل واضح نہیں ہے۔ اگر کسی کیس میں انہیں سزا ہو گئی تو وہ الیکشن میں حصہ نہیں لے سکیں گے اور اگر محض گرفتاری ہوئی تو بھی پارلیمانی سیاست کے لیے ان کا راستہ روکنے کے بہت سے طریقے ہیں۔ گزشتہ سینیٹ الیکشن میں مسلم لیگ (ن) کے رہنما پرویز رشید کے ساتھ کیا ہوا تھا؟ ان کے صرف ایک بیان کو جواز بنا کر ان کے کاغذاتِ نامزدگی منظور نہیں کیے گئے تھے۔ اس طرح کے درجنوں جواز تو خان صاحب نے خود ہی فراہم کر رکھے ہیں۔ یہاں یہ بات بھی اہم ہے کہ خان صاحب کے بعد پی ٹی آئی کی سربراہی کون کرے گا؟ شاہ محمود قریشی یا پھر کوئی اور؟ میں سمجھتا ہوں کہ پی ٹی آئی کے چیئرمین شاید شاہ محمود قریشی کو پارٹی کی سربراہی نہیں دیں گے۔ انہیں یقین ہے کہ اگر معاملات شاہ محمود قریشی کے ہاتھ میں چلے گئے تو وہ مفاہمت کا دامن تھام لیں گے۔ اس لیے چھ رہنماؤں پر مشتمل کمیٹی پارٹی کو چلائے گی اور شاہ محمود قریشی بھی اس کمیٹی کاحصہ ہوں گے۔
اگر الیکشن اسی سال ہوتے ہیں تو پھر سب سے زیادہ مشکلات مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف کے لیے ہوں گی۔ مسلم لیگ (ن) کو عوامی غیظ وغضب کا سامنا کرنا پڑے گا۔ عوام مہنگائی اور بیروزگاری پر سوال کریں گے تو مسلم لیگ (ن) کے رہنما کیا جواب دیں گے؟ کیا مہنگائی کا الزام بھی پی ٹی آئی چیئرمین کے سر تھوپ دیا جائے گا؟ کیا اس پندرہ ماہ کی حکومت کی بری کارکردگی کو بھی نو مئی کے پُرتشدد واقعات کے پیچھے چھپانے کی کوشش کی جائے گی؟ میری دانست میں (ن) لیگ کے لیے ووٹرز کو قائل کرنا محال ہو گا۔ البتہ پی ٹی آئی کی مشکل دوسری قسم کی ہے۔ ووٹرز تو شاید اس کے ساتھ ہوں مگر الیکشن کے لیے امیدوار کہاں سے آئیں گے؟ پی ٹی آئی میں ٹوٹ پھوٹ کا سلسلہ پولنگ ڈے تک جاری رہا تو یہ مشکل دوچند ہو جائے گی۔ اس لیے پی ٹی آئی کو حالات میں بہتری کے لیے کوششیں کرنی چاہیے۔ ضد اور غصہ پارٹی کے لیے نقصان دہ ہو گا۔ اگر پی ٹی آئی کو الیکشن جیتنا ہے تو پھر ضد اور غصے کو تالا لگانا ہو گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں