اگلی حکومت کے لیے صف بندی

وہم انسان کو گمان کی راہ سے بھٹکا کر بدگمانی کی اندھیر نگری میں دھکیل دیتا ہے‘ جہاں دائمی اذیت اس کا استقبال کرتی ہے۔ وہم کی لپیٹ میں عام آدمی آئے تو سارے خاندان کے لیے دردِ سر بن جاتا ہے اور اگر وہم کسی حکمران کے خیالوں پر حکمرانی کرنے لگے تو پھر سزا سارے معاشرے کو ملتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ وفاقی حکومت رخصتی سے پہلے دوبارہ واپسی کی منصوبہ بندی کیوں کر رہی ہے؟ انہیں کیوں لگتا ہے کہ وہ ناگزیر ہیں؟ اگر الیکشن پرانی مردم شماری اور حلقہ بندیوں پر ہی کرانا تھے تو قومی خزانے سے 35 ارب روپے کیوں ضائع کیے گئے؟ اور سب سے بڑھ کر‘ کیا پاکستان میں سیاسی جماعتوں کی کمی تھی جو دو نئی پارٹیاں کھڑی کردی گئی ہیں؟ کس بات کا خطرہ ہے؟ کون سی ایسی مشکل آن پڑی ہے جو ٹلنے کا نام ہی نہیں لے رہی؟ کیا کوئی ہے جو ان سوالوں کا جواب دے سکے۔
ایک طرف وفاقی حکومت مختلف قسم کے اوہام میں مبتلا ہے اور دوسری طرف پرویز خٹک اور جہانگیر ترین زعمِ عظمت میں مبتلا نظر آتے ہیں۔ وفاقی حکومت کو محسوس ہو رہا ہے کہ ان کے بغیر ملک کی ناؤ پار نہیں لگ سکتی‘ اس لیے انہیں کم از کم ایک مزید ٹرم ملنی چاہیے تاکہ معاشی، سیاسی اور معاشرتی صورتحال بہتر ہو سکے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے ہر حربہ استعمال کیا جا رہا ہے۔ کہیں نئی سیاسی پارٹیاں بنانے میں مدد فراہم کی جا رہی ہے اور کہیں پرانی مردم شماری اور پرانی حلقہ بندیوںکا سہارا لیا جا رہا ہے۔
وفاقی وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ نے اعلان کیا ہے کہ اگلا الیکشن پرانی مردم شماری پر ہو گا‘ اس لیے حکومت نئی مردم شماری کا نوٹیفکیشن جاری نہیں کرے گی۔ عجب صورتحال درپیش ہے! جب رواں برس جنوری میں پی ٹی آئی نے پنجاب اور خیبر پختونخوا کی اسمبلیاں تحلیل کی تھیں تو وفاقی وزرا کا اس وقت الیکشن نہ کرانے کا سب سے بڑا جواز یہ تھا کہ دونوں صوبوں میں الیکشن اس لیے نہیں ہو سکتے کہ ڈیجیٹل مردم شماری ابھی مکمل نہیں ہوئی۔ مئی کے وسط میں مردم شماری کے نتائج آ جائیں گے اور پھر چار مہینوں میں نئی حلقہ بندیاں کرنے کے بعد ہی الیکشن ممکن ہو سکیں گے۔ اس حوالے سے دوسری دلیل یہ دی جاتی تھی کہ اپریل 2021ء میں گزشتہ حکومت نے مشترکہ مفادات کونسل میں بھی یہی فیصلہ کیا تھا کہ آئندہ قومی انتخابات نئی مردم شماری اور نئی حلقہ بندیوں کے بعد منعقد کرائے جائیں گے۔ وزیراعظم سے لے کر وزیر داخلہ تک‘ وزیر منصوبہ بندی سے لے کر وزیر خزانہ اور وزیر خارجہ تک‘ ساری کابینہ اس وقت یہی دلیل دیا کرتی تھی۔ اب کیا ہو گیا ہے؟ مردم شماری کا عمل تو پندرہ مئی کو مکمل ہو چکا ہے‘ اب تک نوٹیفکیشن کیوں جاری نہیں کیا گیا؟ اور اگر نئی حلقہ بندیاں نہیں کرنا تھیں تو مردم شماری پر 35 ارب روپے خرچ کرنے کی کیا ضرورت تھی؟
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ کچھ تکنیکی مسائل بھی ہیں جو نئی مردم شماری پر الیکشن کرانے سے روک رہے ہیں مگر میں سمجھتا ہوں کہ حکومت کے لیے تکنیکی سے زیادہ سیاسی وجوہات اہم ہے۔ الیکشن کمیشن کا موقف ہے کہ ڈیجیٹل مردم شماری کے نتائج کا باقاعدہ نوٹیفکیشن جاری نہیں کیا گیا‘ اس لیے تازہ حلقہ بندیوں کی بنیاد پر الیکشن کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ الیکشن کمیشن کو نئی مردم شماری پر حلقہ بندیوں میں کم از کم چار ماہ لگ سکتے ہیں‘ اس لیے الیکشن میں تاخیر سے بہتر ہے کہ پرانی حلقہ بندیوں پر ہی اکتفا کیا جائے۔ کوئی حکومت سے پوچھے کہ نئی مردم شماری کا نوٹیفکیشن اب تک کیوں نہیں کیا گیا؟ دو ماہ کی تاخیر کے پیچھے کیا کہانی ہے؟ کیا حکومت کو لگتا ہے کہ نئی حلقہ بندیوں کی وجہ سے وہ مشکلات کا شکار ہو سکتی ہے؟ کیا آبادی کے تناسب سے پنجاب کی نشستیں کم تو نہیں ہو رہیں؟ وزیر داخلہ کہتے ہیں کہ سیاسی اتفاقِ ر ائے نہ ہونے کی وجہ سے نوٹیفکیشن جاری نہیں کر رہے کیونکہ ایم کیو ایم سمیت بہت سی جماعتوں کو مردم شماری کے نتائج پر اعتراضات ہیں۔ ایم کیو ایم کا کیا ہے‘ وہ تو ہر مردم شماری کو ایسے ہی متنازع بناتی آئی ہے۔ 2017ء میں بھی خوب شور شراباکیا گیا تھا مگر بعد ازاں الیکشن میں حصہ بھی لیا گیا تھا۔ ایم کیو ایم نے اس دفعہ بھی خوب واویلا کیا مگر اب نئی مردم شماری پر الیکشن کرانے کی ضد بھی لگائے ہوئے ہے۔ یقینا ایم کیو ایم کے اعتراضات درست بھی ہو سکتے ہیں مگر مردم شماری پر اعتراضات کے حوالے سے اس کا رویہ ہر بار یکساں رہا ہے‘ شاید یہی وجہ ہے کہ انہیں زیادہ سنجیدہ نہیں لیا جاتا۔ وزیر داخلہ کو چاہیے کہ اگر کوئی اور عذر ہے تو وہ پیش کریں۔ میں سمجھتا ہوں کہ نئی مردم شماری پر الیکشن نہ ہونے کی سب سے بڑی وجہ آئین کے آرٹیکل 51 کی شق 5 ہے۔ یہ شق کہتی ہے کہ ''قومی اسمبلی میں نشستیں شائع شدہ گزشتہ آخری مردم شماری کے مطابق آبادی کی بنیاد پر ہر صوبے اور دارالحکومت کے لیے متعین کی جائیں گی‘‘۔ جب بھی نئی مردم شماری ہوتی ہے اور اس کا نوٹیفکیشن جاری ہوتا ہے تو نئی حلقہ بندیاں کی جاتی ہیں جس کے بعد آئینی ترمیم کی ضرورت پیش آتی ہے۔ قومی اسمبلی میں چونکہ اس وقت آئینی ترمیم کے لیے دو تہائی اکثریت نہیں ہے‘ اس لیے یہ ناگز یر ترمیم ناممکن ہے۔ اس عذر کی بہت اہمیت ہے مگر سوال یہ ہے کہ جب مردم شماری کا مرحلہ شروع ہوا تھا تو اس وقت پی ٹی آئی اسمبلی سے استعفے دے چکی تھی‘ پھر کیوں حکومت نے جان بوجھ کر مردم شماری کے عمل کو جاری رکھا؟ بدحال معیشت پر غیر ضروری بوجھ کیوں ڈالا گیا؟ یہ کام اگلی حکومت بھی تو کر سکتی تھی؟ کیا صرف پنجاب اور کے پی میں الیکشن نہ کرانے کا بہانہ تراشنے کے لیے اتنی خطیر رقم ضائع کی گئی؟ اگر ایسا ہے تو قومی وسائل کے بے دریغ استعمال کی اس سے بدتر کوئی مثال نہیں ملتی۔
دوسری طرف جہانگیر ترین کے بعد پرویز خٹک نے بھی نئی جماعت کی بنیاد رکھ دی ہے۔ پاکستان تحریک انصاف پارلیمنٹیرینز خیبر پختونخوا کی نئی جماعت ہے جو پی ٹی آئی کو توڑ کر بنائی گئی ہے۔ کہا جا رہاہے کہ اس میں پچاس سے زائد سابق ایم پی ایز، صوبائی وزرا، ایم این ایز اور وفاقی وزرا شامل ہیں۔ سب سے بڑھ کر‘ دو سابق وزرائے اعلیٰ محمود خان اور پرویز خٹک نے ایک ساتھ رختِ سفر باندھ لیا ہے۔ یوں خان صاحب کے تینوں وزرائے اعلیٰ باری باری اپنی پارٹی سے الگ ہو گئے ہیں۔ سابق وزیراعظم نے محمود خان اور عثمان بزدار کے لیے جہان بھر کی تنقید برداشت کی مگر ان کو تبدیل نہیں کیا۔ اب جب پارٹی کو ان کی ضرورت تھی تو سب سے پہلے انہوں نے ہی منہ پھیر لیا۔ شاید یہی پاکستان کا سیاسی کلچر ہے۔
پرویز خٹک نے پی ٹی آئی کے بہت سے امیدوار تو ساتھ ملا لیے ہیں مگر اہم سوالات یہ ہیں کہ کیا ووٹ بینک بھی ان کی جماعت کو منتقل ہو گا‘ کیا ان سیاستدانوں کے جانے سے خیبر پختونخوا میں پی ٹی آئی کمزور ہو گی؟ میں نہیں سمجھتا کہ ایسا کوئی معاملہ ہے۔ پرویز خٹک کے علاوہ کوئی بھی اتنی بڑی سیاسی شخصیت نہیں ہے کہ وہ بلے کے نشان کے بغیر جیت سکے۔ یہ سب رہنما پی ٹی آئی ہی کی وجہ سے تھے اور اب ان کی سیاسی حیثیت پر ایک بڑا سوالیہ نشان لگ چکا ہے۔ باقی سب کو چھوڑیں‘ سوات میں محمود خان کی جیت بھی کرشمہ ہی ہو گی۔ جیسے پنجاب میں استحکامِ پاکستان پارٹی کوئی بڑا ووٹ بینک نہیں رکھتی‘ اسی طرح پی ٹی آئی پارلیمنٹیرینز بھی چند سیٹوں کے علاوہ بڑا کارنامہ سرانجام نہیں دے پائے گی۔ یہ دونوں جماعتیں الیکشن سے قبل اور بعد میں مسلم لیگ (ن) کی بی ٹیم بنتی نظر آ رہی ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جہاں شیر کے نشان پر جیت مشکل نظر آئے گی‘ وہاں ان دونوں جماعتوں کی مدد لی جائے گی۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ ان دونوں پارٹیوں کو میاں نواز شریف کی اشیرباد بھی حاصل ہے کیونکہ خان صاحب کے ساتھ ساتھ مسلم لیگ نواز پیپلز پارٹی کا راستہ بھی روکنا چاہتی ہے، کیونکہ اگر پیپلز پارٹی پی ٹی آئی کے منحرف اراکین کو اپنے ساتھ ملا لیتی تو اس کی پوزیشن بہتر ہو جانا تھی جو (ن) لیگ کو کسی طور بھی سوٹ نہیں کرتا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں