نگران وزیراعظم اور آئی ایم ایف

نگران حکومت آئین و قانون کے تحت بننی ہے‘ خواہشات کے تابع نہیں۔ میں سمجھنے سے قاصر ہوں کہ مسلم لیگ (ن) کو یہ خیال بھی کیسے آیا کہ اسحاق ڈار کو نگران وزیراعظم بنا دیا جائے۔ یہ آئیڈیا وزیراعظم شہباز شریف کا نہیں ہو سکتا‘ ضرور یہ کمال محترمہ مریم نواز اور میاں نواز شریف کے ذہنِ رسا کا ہو گا۔ الیکشن ایکٹ 2017ء کی شق 230 میں واضح لکھا ہے کہ نگران حکومت غیر جانبدار ہو گی۔ کیا اسحاق ڈار غیر جانبدار کہلا سکتے ہیں؟ وہ مسلم لیگ (ن) کے ٹکٹ پر چار بار سینیٹر منتخب ہو چکے اور چار بار وفاقی وزیر خزانہ بن چکے ہیں۔ ان کی مسلم لیگ نواز کے قائد میاں نواز شریف سے عزیز داری ہے۔ میاں نواز شریف جب وزیراعظم تھے تو ڈار صاحب عملی طور پر ڈپٹی وزیراعظم کے فرائض سرانجام دیا کرتے تھے۔ وہ بھلا کیسے غیر جانبدار ہو سکتے ہیں؟ اور سب سے بڑھ کر پی ٹی آئی کے ساتھ وہ تلخ ماضی کیسے بھلا سکتے ہیں؟ پی ٹی آئی کے چیئرمین نے ان کے خلاف کیا کیا نہیں کہا اور بدلے میں ڈار صاحب نے کیا کیا الزامات نہیں لگائے۔ دونوں ایک دوسرے کے خلاف عدالتوں میں مقدمات لڑتے رہے ہیں۔ کیا ایسی صورتحال میں غیر جانبداری سے کام لیا جا سکتا ہے؟ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ خبر کہاں سے آئی اور اس کی اتنی تشہیر کیوں کی گئی؟ واقفانِ حال کہتے ہیں کہ یہ خبر مبینہ طور پر خود اسحاق ڈار صاحب نے دی تھی۔ جس صحافی نے یہ خبر دی‘ وہ بزنس اور کامرس ہی سے متعلق ہے اور ڈار صاحب سے اس کا دیرینہ تعلق ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ شہباز حکومت اور اتحادیوں نے ایسی کوئی منصوبہ بندی نہیں کی تھی۔ ہو سکتا ہے کہ میاں صاحب اور ڈار صاحب نے ہی یہ سوچا ہو اور خبر اس لیے لیک کی گئی کہ حالات کی تپش کا اندازہ لگایا جا سکے۔
صد شکر کہ پیپلز پارٹی، وزیراعظم آفس اور وزیر دفاع نے اس خبرکا دفاع نہیں کیا۔ خواجہ آصف نے اس معاملے پر کھل کر اختلاف کیا اور کہا کہ اگر اسحاق ڈار کو نگران وزیراعظم بنایا گیا تو الیکشن پہلے دن ہی سے متنازع ہو جائیں گے۔ اب یوں لگتا ہے کہ خبر دینے والوں کے ارمانوں پر پانی پھر چکا ہے اور ان کی خواہش پایہ تکمیل کو نہیں پہنچے گی۔ اس خبر کا دوسراحصہ یہ تھا کہ حکومت الیکشن ایکٹ کی شق 230 میں ترمیم کرنا چاہتی ہے تاکہ نگران حکومت کے اختیار ات میں اضافہ کیا جا سکے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان آئی ایم ایف پروگرام میں ہے اور اگر آگے چل کر نگران حکومت کو بڑے معاشی فیصلے کرنا پڑیں تو کوئی قانونی رکاوٹ نہ ہو۔ یہ ایک مناسب فیصلہ ہے۔ آئی ایم ایف کی اگلی قسط نگران حکومت کو ملنی ہے‘ اس لیے اس کے پاس بڑے معاشی فیصلے کرنے کے اختیارات ہونے چاہئیں۔ حکومت جب بھی یہ قانون سازی کرے تو دو یا تین ماہ کا عرصہ بھی متعین کر دے تاکہ الیکشن کے انعقاد پر سوالیہ نشان نہ آئے۔ مبینہ طور پر ڈار صاحب آئی ایم ایف معاہدے کا ہی فائدہ اٹھانا چاہتے تھے تاکہ معاشی طور پر نازک حالات کو سبب بنا کر نگران وزیراعظم کا منصب سنبھال لیں۔ کوئی حکومت سے پوچھے کہ اگر معیشت کی سوجھ بوجھ رکھنے والی شخصیت ہی کو نگران وزیراعظم لگانا ہے توکیا کوئی اور معاشی ماہر نہیں جو ملک کی باگ ڈور احسن انداز میں چلا سکے؟ جو غیر متنازع الیکشن بھی منعقد کرائے اور آئی ایم ایف کے ساتھ بہتر اندا زمیں ڈیل بھی کر سکے؟
ہمارے ملک کا سب سے بڑا مسئلہ Right man for the right job ہے۔ باقی سارے معاشی، سیاسی اور انتظامی مسائل اسی کی کوکھ سے جنم لیتے ہیں۔ اس میں سب سے زیادہ قصور سیاسی جماعتوں اور خود عوام کا ہے۔ سیاسی جماعتیں الیکشن میں ٹکٹ دیتے ہوئے امیدوار کی قابلیت اور لیاقت سے زیادہ اس کی وفاداری اور ووٹ بینک کو ترجیح دیتی ہیں جبکہ عوام ووٹ ڈالتے وقت آنکھیں اور دماغ بند کر لیتے ہیں۔ ملک بھر میں ووٹرز شیر، بلا اور تیر کا نشان دیکھ کر ووٹ ڈالتے ہیں جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اسمبلیوں میں ماہرین کے بجائے خالص سیاسی افراد اکٹھے ہو جاتے ہیں۔ پارلیمنٹ کے دو بنیادی کام ہوتے ہیں۔ اول: قانون سازی کرنا۔دوم: انتظامی معاملات کو بہتر انداز سے چلانے میں مدد فراہم کرنا۔ پارلیمان ہی سے حکومت جنم لیتی ہے۔ حکومت کے ذمے ویسے تو سینکڑوں کام ہوتے ہیں مگر ایک بڑا ٹارگٹ معیشت کی بحالی ہوتا ہے۔ اگر ہم نے معیشت کے میدان میں Right man for the right job کی پالیسی اپنائی ہوتی تو ہمارے قرضے 59 ہزار ارب سے تجاوز نہ کر چکے ہوتے، مہنگائی تیس فیصد، بیروزگاری کی شرح (سرکاری طور پر) 8.5 فیصد، شرح سود 22 فیصد، زرمبادلہ کے ذخائر تین ماہ کی درآمدات سے بھی کم، کرنسی گراوٹ کا شکار اور ملک ڈیفالٹ کے دہانے پر نہ ہوتا۔ ہم بھی بھارت، بنگلہ دیش، ویتنام، جنوبی کوریا اور ملائیشیا کی طرح ترقی کی منازل طے کر رہے ہوتے۔ ہماری صنعتیں اور زراعت زوال پذیر نہ ہوتیں اور برآمدات روز بروز کم نہ ہو رہی ہوتیں۔
آپ کو جان کر حیرت ہو گی کہ 2018-23ء کی اسمبلی میں صرف ایک اکانومسٹ ہے؛ عائشہ غوث پاشا۔ آپ خود فیصلہ کریں‘ جب صورتحال یہ ہو تو معیشت کے حالات کیسے ٹھیک ہو سکتے ہیں؟ پیپلزپارٹی کی معاشی ٹیم میں نوید قمراور سلیم مانڈوی والا شامل ہیں۔ یہ دونوں پیپلز پارٹی کے سابقہ دور میں وزیر خزانہ کے منصب پر فائز رہے مگر نوید قمر معیشت دان ہیں نہ سلیم مانڈوی والا۔ نوید قمرکی تعلیم ایم بی اے ہے اور سلیم مانڈوی والا پرفیشنل پائلٹ ہیں۔ یہی نہیں‘ سندھ حکومت میں بھی کوئی اکانومسٹ نہیں ہے۔ وزیراعلیٰ مراد علی شاہ ہی وزیر خزانہ کے فرائض سر انجام دیتے ہیں جو پیشے کے اعتبار سے انجینئر ہیں۔ اگر آئندہ الیکشن پیپلز پارٹی جیتتی ہے تو وہ معیشت کے منہ زور مسائل کیسے حل کرے گی؟ کیا ایک بار پھر حفیظ شیخ اور شوکت ترین کی طرح وزیر خزانہ امپورٹ کیے جائیں گے؟ پیپلز پارٹی کے بعد پی ٹی آئی کا جائزہ لیا جائے تو یہاں بھی ایسی ہی صورتحال ہے۔ اس کی معاشی ٹیم کے سربراہ اس وقت شوکت ترین ہیں جو ایک بینکرہیں۔ وہ ساری عمر ملکی و غیر ملکی بینکوں کے ساتھ وابستہ رہے ہیں۔ میں سمجھنے سے قاصر ہوں کہ پی پی پی اور پی ٹی آئی نے شوکت ترین کو وزیر خزانہ کیسے بنا دیا؟ پی ٹی آئی میں شوکت ترین کے بعد حماد اظہر کا نمبر آتا ہے۔ وہ بھی وزیر خزانہ رہ چکے ہیں حالانکہ بنیادی طور پر وہ قانون دان ہیں‘ ان کا معیشت سے کیا لینا دینا۔ پی ٹی آئی حکومت کے پہلے وزیر خزانہ اسد عمر تھے۔ ان کی تعلیم ایم بی اے ہے اور سارا تجربہ مینجمنٹ کا ہے۔ ان کا معیشت سے کیا سروکار؟ تیمور جھگڑا پروفیشنل انجینئر ہیں اور ہاشم جواں بخت بینکر۔ ستم یہ ہے کہ یہ دونوں ساڑھے تین سال تک پنجاب اور کے پی کی معیشت کے فیصلے کرتے رہے۔ یہ ملک کی دو بڑی جماعتوں کی معاشی ٹیمیں ہیں‘ جن میں ایک بھی معاشی ماہر نہیں۔ اب آتے ہیں مسلم لیگ (ن) کی طرف۔ قومی اسمبلی اور سینیٹ کے 442 ممبرز ہیں جس میں ڈاکٹر عائشہ غوث پاشا واحد اکانومسٹ ہیں۔ وہ اس وقت وزیر مملکت برائے خزانہ ہیں۔ ان کے علاوہ کوئی ایک ممبر بھی ایسا نہیں جو اکانومسٹ ہو۔ اسحاق ڈار چار بار وزیر خزانہ رہ چکے ہیں مگر وہ چارٹر اکاؤنٹنٹ ہیں‘ اکانومسٹ نہیں۔ ڈاکٹر مفتاع اسماعیل بھی مسلم لیگ (ن) کی طرف سے دو بار وزیر خزانہ رہ چکے ہیں‘ وہ بھی اکانومسٹ ہیں اور معیشت کو بہتر انداز میں چلانے کی صلاحیت رکھتے ہیں مگر وہ اس وقت پارلیمنٹ کے ممبر نہیں ہیں۔ بڑی سیاسی جماعتوں میں صرف مسلم لیگ (ن) کے پاس دو اکانومسٹ ہیں مگر بدقسمتی یہ ہے کہ وہ چارٹراکاؤنٹنٹ سے وزیر خزانہ کا کام لے رہی ہے۔
بینکر ہو یا چارٹر اکاؤنٹنٹ‘ انجینئر ہو یا پائلٹ۔ معیشت کی سمجھ بوجھ ہونا ایک بات ہے اور معاشی مسائل کا حل تجویز کرنا دوسری بات۔ لانگ ٹرم معاشی پالیسیاں صرف ایک ماہر اکانومسٹ ہی بنا سکتا ہے‘ اور کوئی نہیں۔ اگر ملک کے معاشی حالات بہتر کرنے ہیں تو ساری سیاسی جماعتوں کو اپنی معاشی ٹیموں کو بہتر کرنا ہو گا ورنہ وہی لوگ ہر بار وزیر خزانہ بنتے رہیں گے جن کے غلط فیصلوں کی وجہ سے معیشت آج اس نہج تک پہنچی ہے اور ملک کے اقتصادی مستقبل پر بے یقینی کے بادل ہمیشہ چھائے رہیں گے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں