نواز شریف کی نااہلی کیسے ختم ہو گی؟

سر منڈاتے ہی اُولے پڑنے لگے۔ شہباز حکومت کے رخصت ہوتے ہی سپریم کورٹ نے ریویو آف آرڈرز اینڈ ججمنٹس ایکٹ کو کالعدم قرار دے دیا۔ اگر حکومت نے یہ قانون سازی میاں نواز شریف کو ریلیف دینے کی غرض سے کی تھی تو پھر سمجھ لیں کہ مسلم لیگ (ن) کے ارمانوں پر پانی پھر چکا اور اگر اس قانون سازی سے عام آدمی کو بھی فائدہ ہونا تھا تو پھر جان لیں کہ اس ریلے میں سب بہہ چکے ہیں۔ 87 صفحات پر مشتمل فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ریویو آف آرڈرز اینڈ ججمنٹس ایکٹ واضح طور پر آئینِ پاکستان سے متصادم ہے۔ یہ ممکن نہیں کہ اس قانون کو آئین سے ہم آہنگ قرار دیا جائے۔ اس فیصلے پر تبصرہ کرنے سے پہلے ہمیں یہ دیکھنا چاہیے کہ یہ قانون کیا تھا؟ ریویو آف آرڈرز اینڈ ججمنٹس ایکٹ میں سپریم کورٹ کے سوموٹو اختیار کے باعث سزا پانے والے شخص کو نظر ثانی کے بجائے اپیل کا حق دیا گیا تھا اور اپیل کی سماعت کرنے والا بینچ‘ فیصلہ دینے والے بینچ سے بڑا ہونا ضروری تھا۔ اس ایکٹ کا اطلاق آئین کے آرٹیکل 184/3 کے پچھلے تمام مقدمات پر ہونا تھا۔ میری ناقص رائے میں ریویو آف آرڈرز اینڈ ججمنٹس ایکٹ انتہائی اہمیت کا حامل تھا۔ یہ قانون بنیادی انسانی حقوق کا ضامن اور فیئر ٹرائل کا حق دیتا تھا۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک شخص پر الزام لگے اور اس کے کیس کو سول کورٹ سنے نہ سیشن عدالت اور نہ ہائیکورٹ۔ کیس کی سیدھی شنوائی سپریم کورٹ میں ہو اور ایک یا دو رکنی بینچ جو بھی فیصلہ کرے‘ وہ حتمی ہو۔ اس کے بعد نظر ثانی کا کیس بھی وہی بینچ سنے جس نے پہلے فیصلہ دیا ہو۔ کیا کوئی بینچ اپنے ہی فیصلے کے برخلاف فیصلہ دے سکتا ہے؟
اگر پارلیمنٹ نے سپریم کورٹ کے 184/3 کے اختیار میں توازن پیدا کرنے کے لیے قانون سازی کی تھی تو اس میں برائی کیا ہے؟ آئینِ پاکستان فیئر ٹرائل کا تقاضا کرتا ہے اور بنیادی انسانی حقوق کا بھی ضامن ہے۔ میں سمجھنے سے قاصر ہوں کہ کسی شخص کو فیئر ٹرائل کا حق نہ دے کر آئین کی سربلندی کیسے ممکن ہے؟ اپیل کا حق تو دہشت گردی ایکٹ کی شق 7‘ سی آر پی سی کی دفعہ 302‘ آئین سے غداری کے آرٹیکل 6 اور ملک سے غداری کے آرٹیکل 5 کے کیسز میں بھی دیا گیا ہے۔ یہ حق 184/3 کے مقدمات میں دینے میں کیا قباحت ہے؟ بھلا کوئی کیسے بنیادی انسانی حقوق تک رسائی کی راہ میں حائل ہو سکتا ہے؟ جہاں تک میں سمجھ پایا ہوں‘ اس قانون کو کالعدم قرار دینے کی دو وجوہات ہو سکتی ہیں۔ اول: سپریم کورٹ کے تمام ججز کے اختیارات ایک جیسے ہوتے ہیں‘ وہاں کوئی سینئر‘ جونیئر نہیں ہوتا۔ یہ نہیں ہو سکتا ہے کہ سینئر جج جو قانون کی تشریح کرے یا فیصلہ دے وہ دوسرے ججز پر ماننالازم ہو، جیسا کہ دیگر تمام اداروں اور محکموں میں ہوتا ہے۔ سپریم کورٹ میں تمام ججز برابر ہوتے ہیں، کوئی کسی کے تابع نہیں ہوتا۔ ہو سکتا ہے کہ یہ فیصلہ اسی ڈسپلن کو دیکھ کر دیا گیا ہو کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ سپریم کورٹ کے دو جج سوموٹو کے اختیار کے تحت فیصلہ دیں اور اسی عدالت کے دوسرے تین جج اسے کالعدم قرار دے دیں یا تین رکنی بینچ کسی نتیجے پر پہنچے اور پانچ رکنی بینچ اسے ختم کر دے۔ عین ممکن ہے کہ گمان کیا گیا ہو کہ یہ قانون سپریم کورٹ میں اختلافات کا شاخسانہ بنے گا اس لیے اسے کالعدم قرار دے دیا گیا۔ اگر ایسا ہے تو آئندہ اسمبلی کو 184/3 کا قانون ہی ختم کر دینا چاہیے یا پھر نئی قانون سازی کرنی چاہیے۔ جس پراسیس سے گزر کر تمام ملزمان سپریم کورٹ تک آتے ہیں‘ ویسے ہی 184/3 کے ملزمان بھی آئیں۔ سپریم کورٹ سوموٹو ضرور لے مگر وہ کیس خود سننے کے بجائے لوئر کورٹ کو بھیجے اور اسے مقررہ مدت میں فیصلہ کرنے کا پابند بنائے۔
ریویو آف آرڈرز اینڈ ججمنٹس ایکٹ کو کالعدم قراردینے کی دوسری وجہ ماضی میں 184/3 کے تحت دیے گئے فیصلوں کو بھی اپیل کاحق دینا ہو سکتی ہے۔ ماضی میں اس حوالے سے زیادہ مشہور تو میاں نواز شریف اور جہانگیر ترین کے مقدمات ہی ہیں جو سپریم کورٹ کے اسی اختیار کے باعث سیاست سے تاحیات نااہل قرار پائے۔ ممکن ہے کہ یہ سمجھا گیا ہو کہ یہ ''person specific‘‘ قانون سازی ہے‘ اس لیے اسے برقرار نہیں رکھا جا سکتا۔ میاں نواز شریف کو اب آخری امید اس قانون سازی سے ہے جس میں آئین کی شق 62 ون ایف کے تحت نااہلی کی مدت پانچ سال رکھی گئی ہے مگر اس کے لیے بھی سپریم کورٹ سے رجوع کرنا پڑے گا۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان ہزاروں افراد کا کیا ہوگا جو 184/3 کے قانون کے تحت سزائیں بھگت چکے ہیں یا بھگت رہے ہیں۔ سابق چیف جسٹس افتخار چودھری اور جسٹس ثاقب نثار کے ادوار میں اس قانون کا بے دریغ استعمال کیا گیا تھا اور ضروری نہیں کہ سب کے ساتھ انصاف ہوا ہو۔ آئین کسی بھی ادارے کو لامحدود اختیارات نہیں دیتا۔ اگر 184/3کے قانون میں کچھ قباحتیں ہیں تو وہ ہر صورت دور ہونی چاہئیں۔ اگر کوئی سیاسی جماعت اس فیصلے کے خلاف نظرثانی میں گئی تو سپریم کورٹ کو ضرور اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرنی چاہیے کیونکہ یہ فیئر ٹرائل اور بنیادی انسانی حقوق کا معاملہ بھی ہے۔
وفاقی حکومت تحلیل ہو چکی ہے‘ اس کا سولہ ماہ کا عرصہ عوام کو دہائیوں تک یاد رہے گا۔ پی ڈی ایم حکومت میں معیشت بدحال ہوئی اور مہنگائی نے عام آدمی کی کمر توڑ دی۔ مڈل کلاس کی چیخیں نکل گئی اور غریب کے لیے جسم و جان کا رشتہ برقرار رکھنا محال ہو گیا۔ بنیادی ضروریات کی اشیا عوام کی دسترس سے باہر ہو گئیں۔ چینی اپریل 2022ء میں 86 روپے فی کلو تھی جو اب 155 پر جا چکی ہے۔ بیس کلو آٹے کا تھیلا 1400 سے بڑھ کر 3000 روپے کا ہو چکا ہے۔ گھی 470 روپے فی کلو سے تجاوز کرکے 600 روپے تک پہنچ چکا ہے۔ زندہ مرغی 290 سے 460 روپے پر چلی گئی ہے۔ یوریا کی بوری 2000 سے بڑھ کر 3400 روپے کی ہو گئی ہے۔ پٹرول 150 روپے سے 273 روپے اور ڈیزل 150 روپے سے 274 روپے فی لیٹر پر جا چکا ہے۔ بجلی کے بنیادی ٹیرف میں کم از کم 18 روپے فی یونٹ تک اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ ڈالر پی ٹی آئی حکومت کے آخری دن 188 روپے کا تھا جو اب 290 روپے سے بھی اوپر جا چکا ہے۔ مہنگائی کی شرح 13 فیصد سے بڑھ کر 29 فیصد پر چلی گئی ہے۔ شرحِ سود نے 12 فیصد سے 22 فیصد تک کا سفر طے کیا ہے۔ ملک کے کل قرضے 44 ہزارارب سے بڑھ کر 58 ہزار ارب سے بھی زائد ہو چکے ہیں اور اس میں آئی ایم ایف، سعودی عرب اور یواے ای سے آنے والے نئے قرضے شامل نہیں ہیں۔ زرِمبادلہ کے ذخائر 17 ارب ڈالر سے کم ہوکر ساڑھے تیرہ ارب ڈالر کے قریب ہیں۔ گردشی قرضہ دو ہزار ارب سے بڑھ کر ستائیس سو ارب ہو چکا ہے۔ پی ڈی ایم حکومت معاشی چیلنجز کا مقابلہ کرنے میں بری طرح ناکام رہی۔ ہاں البتہ! جاتے جاتے جو آئی ایم ایف سے معاہدہ ہوا اور اس کی شرائط پر من و عن جو عمل کیا گیا‘ یہ خوش آئند ہے۔ اگر شہباز حکومت آخری دنوں میں پٹرول، ڈیزل اور بجلی کے نرخ کم کر دیتی تو یہ معاہدہ ایک بار پھر کھٹائی میں پڑ جاتا اور ڈیفالٹ کے بادل گہرے ہو جاتے۔ دوسری طرف پی ڈی ایم حکومت سیاسی چیلنجز کو حل کرنے میں بھی ناکام رہی ہے۔ پی ٹی آئی نے ڈیڑھ سال تک سیاسی عدم استحکام کی فضا قائم رکھی مگر حکومت اسے مذاکرات کی میز پر نہ لا سکی‘ جس کا نتیجہ سانحہ نو مئی کی صورت میں برآمد ہوا۔ اگر حکومت پی ٹی آئی کو سیاسی طور پر مینج کر لیتی تو نو مئی کے پُرتشدد واقعات پیش آتے اور نہ پاکستان کی جگ ہنسائی ہوتی۔ شہباز حکومت کی سب سے بڑی کامیابی سول ملٹری تعلقات میں بہتری رہی‘ اداروں کا حکومت کے ساتھ تعاون مثالی رہا۔ یہی نہیں‘ حکومت کی بین الاقوامی سطح پر بھی پذیرائی ہوئی۔ چین، سعودی عرب، یو اے ای اور امریکہ کے ساتھ مراسم نئے دورمیں داخل ہوئے۔ روس سے تاریخ میں پہلی بار پٹرول درآمد کیا گیا جبکہ بھارت کے ساتھ تعلقات میں اگر بہتری نہیں آئی تو بگاڑ میں اضافہ بھی نہیں ہوا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں