مسلم لیگ (ن) بمقابلہ پیپلز پارٹی

''کچھ بھی ہو جائے میاں نواز شریف چوتھی بار وزیراعظم بن کر رہیں گے۔ یہ انصاف کا تقاضا ہے اور ملک کی ضرورت بھی۔ کوئی دوسرا لیڈر اتنا باصلاحیت نہیں ہے کہ ملک کو معاشی بھنور سے نکال سکے‘‘۔
مسلم لیگ (ن) کے رہنما کی بات سن کر پیپلز پارٹی کے لیڈر بھڑک اٹھے۔ ان کا چہرہ لال ہوگیا اور کانوں سے دھواں نکلنے لگا۔ دسمبر کی سرد شام میں اتنی گرمی میں نے پہلے نہیں دیکھی تھی۔ دونوں کے درمیان آدھے گھنٹے سے زائد مکالمہ جاری رہا اور مستقبل کے منظر نامے پر چھائی سموگ چھٹنے لگی۔ مجھے صاف دکھائی دینے لگا کہ اگلی حکومت کے خدوخال کیا ہوں گے اور کیوں؟
رہنما پیپلز پارٹی: ہم نے مسلم لیگ (ن) کی معاشی پالیسیاں دیکھ رکھی ہیں‘ آپ کی جماعت نے امیر کو امیر اور غریب کو غریب کیا ہے‘ ایسی پالیسیوں سے ذاتی کاروبار پنپتے ہیں ملک نہیں۔
رہنما مسلم لیگ (ن) : میاں نواز شریف پہلی بار وزیراعظم بنے تو انہوں نے معاشی انقلاب کی بنیاد رکھی‘ ایسی پالیسیاں بنائیں جن سے ملک ترقی کر سکے مگر افسوس! انہیں کام کرنے نہیں دیا گیا۔ بھارت ہماری معاشی منصوبہ بندی کو فالو کرکے کہاں سے کہاں پہنچ گیا اورہم آج بھی رینگ رہے ہیں‘ ایک ایک ڈالر کیلئے ترس رہے ہیں‘ بھارت کے پاس چھ سو ارب ڈالر کے زرمبادلہ کے ذخائر ہیں اور ہمارے پاس آٹھ ارب ڈالر بھی پورے نہیں۔ بھارت کی برآمدات سات سو ارب ڈالر سے زائد ہیں اور ہم تیس ارب ڈالر پر اٹکے ہوئے ہیں‘ اس میں قصور کس کا ہے؟
رہنما پیپلز پارٹی: آپ نوے کی دہائی میں کہاں چلے گئے؟ شہباز حکومت کی بات کریں۔ ملکی معیشت کو برباد کر دیا آپ کے وزیراعظم اور وزیر خزانہ نے۔ نجانے کس منہ سے دوبارہ حکومت بنانے کے خواب دیکھ رہے ہیں۔ آپ کو یہ زیب نہیں دیتا۔
رہنما مسلم لیگ (ن): میں مانتا ہوں سولہ ماہ کی حکومت کی وہ کارکردگی نہیں تھی جو ہمارا خاصہ ہے مگر اس میں سارا قصور ہمارا نہیں۔ آپ کیوں بھول جاتے ہیں کہ یہ پی ڈی ایم اور پیپلز پارٹی کی حکومت تھی، مسلم لیگ (ن) کی نہیں۔ ہم اس حکومت کا ویسے ہی حصہ تھے جیسے آپ کی جماعت تھی۔
رہنما پیپلز پارٹی: وزیراعظم کس جماعت کا تھا؟ وزارتِ خزانہ، پلاننگ اور ڈویلپمنٹ، اکنامک افیئرز، داخلہ اور دفاع کی وزارتیں کس کے پاس تھیں؟ ناکام مسلم لیگ (ن) ہوئی ہے‘ پیپلز پارٹی نہیں۔
مسلم لیگ (ن): سانجھے کی ہانڈی کا کوئی وارث نہیں ہوتا۔ موازنہ کرنا ہے تو ہماری 2013-18ء کی حکومت سے کریں۔
رہنما پیپلز پارٹی: میاں نوازشریف کو تین بار حکومت ملی اور وہ تینوں بار ناکام ہوئے۔ وہ اپنے وعدے پورے کر سکے نہ عوام کے دکھوں کا مداوا کر سکے۔ ہر بار اپنے لانے والوں سے لڑتے اور مخالفین پر مقدمات بناتے رہے۔ وہ چوتھی بار وزیراعظم بن کر بھی انتقام کی سیاست سے باہر نہیں نکل سکیں گے۔ ملک کا کوئی بھلا نہیں ہونے والا۔
رہنما مسلم لیگ (ن): اگر اس بار عوام نے میاں نواز شریف پر اعتماد کیا تو ہم معیشت کی ڈوبتی کشتی کو کنارے لگائیں گے‘ ہمارے پاس تجربہ کار اور قابل ٹیم ہے۔ آپ موازنہ کرکے دیکھ لیں۔
رہنما پیپلز پارٹی (بات کاٹتے ہوئے): آپ کو عوام کے اعتماد کے کیا ضرورت؟ نوے کی دہائی میں آپ آئی جے آئی کے ذریعے حکومت میں آتے رہے۔ 2013ء میں بھی لاڈلے کا ٹیگ لگوا کر آر اوز کے ذریعے حکومت بنائی‘ اب بھی آپ کو مقتدر حلقوں کی اشیرباد حاصل ہے۔ ایسے ہی تو سارے مقدمات ختم نہیں ہو رہے، ایسے ہی تو پروٹوکول نہیں مل رہا، ایسے ہی تو نگران حکومتیں آپ کی بی ٹیم نہیں بنی ہوئیں! کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے۔ دال کا کالا سب کو نظر آ رہا۔
رہنما مسلم لیگ (ن): یہ محض الزامات ہیں۔ میاں نوازشریف کی جمہوری جدوجہد سب کے سامنے ہے۔ ہمیں ایک دوسرے پر الزامات لگانے کے بجائے رواداری کو فروغ دینا چاہیے۔
رہنما پیپلز پارٹی : آپ ووٹ کی توہین کرنا چھوڑ دیں اور عوام کے ووٹ سے الیکشن جیتیں‘ ہم آپ کے ساتھ چلیں گے۔ اگر چوتھی بار بھی سلیکٹ ہوکر ہی آنا ہے تو پھر کون آپ کو تسلیم کرے گا؟ ہم ہر سلیکٹڈ کے خلاف تھے، ہیں اور رہیں گے۔ ہماری کسی سے ذاتی دشمنی نہیں‘ ہماری جنگ جمہوریت کے لیے ہے اور اس سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔
رہنما مسلم لیگ (ن): ابھی الیکشن ہوئے نہیں اور ہار آپ کے اعصاب پر سوار ہو گئی ہے۔ لوگ کارکردگی دیکھتے ہیں‘ باتیں بنانے والے اور بھی بہت ہیں۔ پیپلز پارٹی کی سندھ میں مسلسل پندرہ سال تک حکومت رہی‘ وہاں کیا کارکردگی ہے؟ آپ کراچی کا کچرا صاف کر سکے نہ کے فور منصوبہ مکمل کر سکے۔ دوگھنٹے کی بارش پورے شہر کو ڈبو دیتی ہے۔ اندرونِ سندھ جتنی غربت ہے‘ باقی پورے ملک میں نہیں۔ آج بھی پچاس فیصد مائیں کمزور بچے جَنتی ہیں۔ پورے سندھ میں ایک بھی فرانزک لیبارٹری نہیں۔ پی پی نے کراچی کو سیف سٹی جیسا پروجیکٹ دیا نہ شہر میں ٹرین چلائی۔ آپ نے کِیا کیا ہے؟ اتنے پُراعتماد کیسے ہیں؟
رہنما پیپلز پارٹی: کچرا لاہور میں بھی بہت ہے‘ وہ الگ بات کہ آپ کو نظر نہیں آتا۔ لا اینڈ آرڈر کی صورتحال لاہور میں کراچی سے بدتر ہو چکی‘ یقین نہیں آتا تو سرکاری اعداد و شمار اٹھا کر دیکھ لیں۔
رہنما مسلم لیگ (ن): جب ہماری حکومت تھی صورتحال مختلف تھی‘ سارا شہر صاف تھا‘ پی ٹی آئی نے آکر سب کچھ خراب کر دیا۔ یاد رکھیں! یہ الیکشن پاکستان کے لیے بہت اہم ہے۔ اگلی حکومت اگر ناکام ہوئی تو ملک کاناقابلِ تلافی نقصان ہو گا۔ اس لیے ضروری ہے کہ تجربہ کار ٹیم ملک کو سنبھالے‘ اسی لیے میاں نواز شریف کو واپس لایا گیا۔
رہنما پیپلز پارٹی: جو میاں صاحب کو لائے‘ وہ عوام کے سامنے بے بس ہیں۔ میاں صاحب دو تہائی اکثریت مانگ رہے مگر کیسے؟ سلیکٹڈ حکومت کبھی عوام کا بھلا نہیں کر سکتی۔ وہ ہمیشہ اپنی بقا کا سوچتی۔ ہمارا عمران خان سے بھی یہی اختلاف تھا اور نواز شریف سے بھی یہی اختلاف ہے۔ اگلی حکومت بلاول بھٹو کی ہو گی‘ وہ ملک کا روشن مستقبل ہیں۔
رہنما مسلم لیگ (ن): آپ سندھ کی فکر کریں‘ ہم نے پورا ملک ٹھیک کرنا ہے۔ سندھ میں بھی ہم اتحادی حکومت بنائیں گے اور رہی بات بلاول بھٹو کی‘ ان پر تو زرداری صاحب بھروسہ نہیں کر رہے‘ عوام کیا کریں گے۔ زرداری صاحب نے تو برملا کہہ دیا کہ بلاول ابھی ناتجربہ کار ہیں‘ ہم انہیں سکھا رہے‘ تھوڑا وقت لگے گا۔ آپ ایسے شخص کو حکومت دینا چاہتے جسے حکومتی امور چلانے کا کوئی تجربہ نہیں۔ ویسے بھی آپ کیا معاشی پالیسی بنائیں گے‘ پیپلز پارٹی کے پاس تو ایک بھی اکانومسٹ نہیں۔
رہنما پیپلز پارٹی: معیشت اکانومی کی سوجھ بوجھ سے زیادہ کمٹمنٹ سے چلتی ہے اور وہ ہمارے پاس سب سے زیادہ ہے۔ بلاول ملک کی مشکلات کم کرنے آ رہے ہیں۔ زرداری صاحب کی بات کو غلط طور پر لیا گیا۔ انہوں نے جو کچھ بلاول بھٹو کی صلاحیتوں بارے کہا‘ وہ آپ نے نظر انداز کر دیا۔
رہنما مسلم لیگ (ن): بلاول صاحب کو اگر وزیراعظم بننا ہے تو پہلے وزیراعلیٰ کے طور پر کام کریں تاکہ ان کو امورِ حکومت چلانے کا کچھ تجربہ ہو۔ میاں نواز شریف تین بار وزیراعلیٰ بننے کے بعد وزیراعظم کی کرسی پر بیٹھے۔ شہبازشریف بھی وزیراعظم بننے سے پہلے تین بار وزیراعلیٰ رہ چکے۔ بلاول بھٹو کو بھی تجربہ چاہیے‘ وہ فی الحال سندھ پر فوکس کریں۔ تلخیاں اتنی مت بڑھائیں کہ ہم سندھ بھی چھین لیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں