نبوت کے ساتویں سال جب سرزمین عرب پر کفر و الحاد اور جرم و جہالت کے اندھیرے مدھم پڑ گئے اور مکہ کی ریتلی زمین پر آفتابِ نبوت پوری آب و تاب سے چمکنے لگا اور اللہ کے آخری نبی حضرت محمد ﷺتوحید ِالٰہی کا پیغام عام کرنے لگے تو ٹھیک اسی وقت ابو جہل کے ماتھے پر جہالت کی سیاہی اور گہری ہونے لگی۔ حضرت امیر حمزہ بن عبد المطلب ؓجیسے بہادر انسان اور حضرت عمر فاروق ؓ جیسے غیور نوجوان اپنے دل نورِ ایمان سے منور کر کے قافلۂ اسلام میں شامل ہو چکے تھے۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ پہلے ہی اپنی پوری وجاہت کے ساتھ اسلام کے ہراول دستے میں موجود تھے۔ نجاشی نے مسلمانوں کی روشن دلیلوں کے سامنے ہاتھ اٹھا دیے اور مسلمانوں کو اپنے ہاں پناہ دے کر کفار کے ناپاک عزائم خاکستر کر دیے تو مشرکینِ مکہ کے کفر کی شہنائی توحید و رسالت کے نغمات میں ڈوبنے لگی۔ اسلام کا پرچار عام ہونے لگا اور اہلِ ایمان خانہ کعبہ میں بلاخوف عبادت کرنے لگے توکفارِ مکہ کے دل میں نبی ٔآخر الزماں حضرت محمدﷺ کیلئے بغض اور کینہ شدت اختیار کر گیا۔ کفار نے ہر صورت میں فروغِ اسلام کا راستہ روکنے کی ٹھان لی۔ ابو جہل کی اسلام کے خلاف ریشہ دوانیاں بامِ عروج کو چھو نے لگیں اور وہ ہمارے پیارے نبی ﷺ کے خون کا پیاسا ہو گیا۔
ابو جہل کفارِ مکہ کے سرداروں کو لے کر حضور اکرمﷺ کے چچا حضرت ابو طالب کے پاس جا پہنچا ‘ ان سے رسولِ اکرمﷺ کی حوالگی کا مطالبہ کر ڈالا اور معاوضہ بھی ادا کرنے کی پیشکش کر دی۔ اس پر حضرت ابو طالب شدید برہم ہوئے اور صاف انکار کر دیا۔ اس موقع پر انہوں نے فرطِ جذبات میں نوے اشعار پر مشتمل بہت دردناک قصیدہ لکھا‘ جسے قصیدہِ لامیہ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ۔ اس قصیدہ کے ایک شعر میں وہ کفارِ مکہ کو للکارتے ہوئے کہتے ہیں کہ مجھے کعبہ کے رب کی قسم‘ تمہیں میرے بھتیجے تک پہنچنے سے پہلے بنو ہاشم کی تلواروں ‘ نیزوں اور تیروں سے ٹکرانا ہوگا اور ہاں میں تمہارا مطالبہ اس وقت مانوں گا‘ جب میرے بھتیجے کے چاروں طرف ہمارے قبیلے کے سارے نوجوانوں کی لاشوں کے ٹکڑے بکھرے ہوں گے۔اپنے اس مذموم منصوبہ کی ناکامی پر کفارِ مکہ دار لندہ میں جمع ہوئے اور قریش کی اعلیٰ مجلس کے رکن منصور بن عکرمہ کے قلم سے ایک عہد نامے پر دستخط کئے ‘جسے صحیفہ ٔ قریش کا نام دیا گیا اور دستخط شدہ عہد نامہ کعبے کی چھت پر لٹکا دیا گیا۔ کفار نے قسم کھائی کہ محمد اور ان کے حامیوں سے تمام تر تعلقات اور سماجی رابطے کلی طور پر منقطع کر دیے جائیں۔ محمد کے دشمنوں کو سر آنکھوں پر بٹھایا جائے اور آپ کے ساتھیوں پر زندگی کا دائرہ تنگ کر دیا جائے‘ یہاں تک کہ وہ محمد عربی کا ساتھ چھوڑ دیں۔
ایک طرف قریشِ مکہ کا جھوٹی طاقت کا زُعم‘ جاہل حکومت کا نشہ اور دنیاوی اقتدار کا طنطنہ تھا تو دوسری طرف توحید و رسالت پر یقینِ محکم‘ صراطِ مستقیم پر استقامت کی دولت سے مالامال دین ِ حق کی سربلندی کیلئے پر عزم اہلِ ایمان کا قافلہ جو پورے جوش اور ولولہ کے ساتھ دینِ اسلام کے فروغ کیلئے سر گرمِ عمل تھا۔ مسلمان یہ طے کر چکے تھے کہ اب جو بھی آزمائش ‘ ابتلایا مصائب آئیں وہ اللہ کے نبی ﷺ کا ساتھ نہیں چھوڑیں گے۔ خطرات کو بھانپتے ہوئے اور کفارِ مکہ کو اپنے بھتیجے کے خون کا پیاسا دیکھ کر حضرت ابو طالب نے بنو ہاشم اور بنی عبد المطلب کو مکہ چھوڑکر قبیلے کی آبائی زمین پر واقع گہری ‘مگر محفوظ گھاٹی شعبِ ابی طالب میں پناہ لینے کا حکم دے دیا‘ اُدھر ابو جہل کی سربراہی میں شعبِ ابی طالب کی طرف جانے والے واحد راستے پر کڑے پہرے بٹھا دیے گئے اور اہلِ ایمان کی طرف کھانے پینے کا سامان پہنچانے کی ہر کوشش کو راستے میں ہی ناکام بنا دیا جاتا۔ اس گہری گھاٹی میں محصوری کے یہ تین سال یوں گزرے جیسے کسی شہر مدفون پہ وقت گزرے۔ حضرت ابو طالب‘ محمدﷺ کی حفاظت اور سلامتی یقینی بنانے کیلئے ساری رات خود پہرہ دیتے اور ان کے بستر پر اپنے کسی بھائی یا بیٹے کو سلا دیتے۔جاڑے کا موسم ان کے جسم کی تمام ہڈیاں لرزا دیتا‘ مگر یہ حرف ِشکایت زبان پہ نہ لاتے؛ حتیٰ کہ جب شیر خوار بچے دودھ کی حسرت دل میں لیے پیاسے ہونٹوں پہ زبان پھیرتے اور ان کی چیخیں مکہ میں بھی سنی جاتیں تو ان کی مائیں تڑپ جاتیں‘ مگر یہ اہلِ ایمان کیسے عجیب لوگ تھے جن کی آنتیں بھوک سے سکڑ جاتیں ‘مگر اُن کا اللہ پہ توکّل اور پختہ ہو جاتا اور محمد ﷺ سے محبت مزید گہری ہوتی جاتی۔ صرف حج کے ایام میں اس محاصرے میں نرمی ہو جاتی تو آپﷺ حج پہ آنے والے اہلِ ایمان کو درسِ تبلیغ دیتے‘مگر قریشِ مکہ ہر وقت ان کے تعاقب میں رہتے اور تبلیغ ِ اسلام کے عمل میں ہر ممکن رکاوٹ ڈالنے کی کوئی کسر باقی نہ چھوڑتے۔ ایک طرف یہ قافلہ بھوک سے بے حال ‘ عالم ِ مجبوری میں درختوں کی چھال اور پتے جلا کر اس کی راکھ پانی کے ساتھ نگلنے پر مجبور تھا تو دوسری طرف مشرکینِ مکہ عیش و عشرت کی تمام حدیں پھلانگ رہے تھے۔ بدترین بھوک اور افلاس کے مارے ہوئے فرزندانِ اسلام کے کراہنے کی صدائیں پتھر دل مشرکینِ مکہ کے کانوں سے ٹکرا کر بے اثر لوٹ آتیں۔
تین صبر آزما برسوں پر محیط اس خوفناک لاک ڈائون میں اہلِ ایمان کی بے مثال استقامت خدا کو پسند آگئی اور آزمائش کے خاتمے کا آسمانی فیصلہ آن پہنچا۔ حضرت ابو طالب‘ محمد ﷺ کا چیلنج لے کر کفارِ مکہ کے پاس آئے کہ میرے بھتیجے کا کہنا ہے کہ دیمک نے اُس عہد نامے کو چاٹ کھایا ہے‘ جسے تحریر کرتے وقت تم تکبر کی ساری حدیں پار کر گئے تھے ۔دیمک نے صرف اللہ کے نام کو باقی چھوڑا ہے‘جائو اور دیکھو ‘اگر اُن کی بات سچی ہے تو تم محاصرہ اٹھا لو گے اور اگر جھوٹی ہے تو میں انہیں تمہاری شرائط پہ تمہارے حوالے کر دوں گا۔ کفارِ مکہ خوشی رضامند ہو گئے اور عہد نامے کو دیکھنے کیلئے خانہ کعبہ کا دروازہ کھولا تو چکرا کر رہ گئے کہ عہد نامے میں اللہ کے نام کے سوا کوئی حرف بھی موجود نہیں تھا اور اسے مکمل طور پہ دیمک چاٹ گئی تھی۔ یوں شعبِ ابی طالب کا محاصرہ ختم ہوا ۔بالآخر بنیِ ہاشم اور بنو عبدالمطلب صبر و رضا کا جھنڈا تھامے سربلندی ِاسلام کی فتح کے ساتھ واپس مکہ آکر آباد ہو گئے۔
کورونا وبا کے باعث نافذ لاک ڈاؤن میں عوام بے چینی اور اضطراب کا شکار ہیں‘ ان کا اضطراب اور پریشانی بجا ہے‘ لیکن اگر ماضی میں جھانکیں تو ہمیں روشنی کی ایسی کرنیں مل جائیں گی‘ جن کو ہم مشعل ِ راہ بنا سکتے ہیں۔ شعب ِ ابی طالب کی ہی مثال لے لیں۔دیکھیں کہ دنیا کے سب سے کامل انسان نے خوف ‘ بے چینی اور اضطراب میں کیسا طرزِ عمل اختیار کرنے کا درس دیا؟ یہ کہ برے حالات میں بھی صبر اور استقامت کا دامن نہیں چھوڑنا چاہیے۔اس سبق کو پیش نظر رکھیں‘ تو لاک ڈاؤن سے لاحق ہونے والی پریشانیاں بے معنی محسوس ہونے لگیں گی۔کورونا ایک قدرتی آفت ہے‘ جس میں ہمیں ثابت قدم رہنا ہے‘ تبھی ہم سر خرو ہو سکیں گے۔