جیسی نیت ویسی مراد

رات بھیگ چکی تھی مگر قابیل کی آنکھوں میں نیند کے آثار تک نہ تھے۔ اسے مسلسل جاگتے ہوئے تیسرا دن تھا۔ جب سے ہابیل کی شادی اقلیما سے ہونا طے پائی تھی‘ قابیل کے سینے میں موجزن نفرت اور حسد کا طوفان مزید شدت اختیار کر گیا تھا۔ اقلیما جب ہابیل کو سامنے پا کر شرماتی تو قابیل کا بس نہ چلتا کہ ہابیل کا مسکراتا ہوا چہرہ مسخ کر دے۔ اس کے سینے میں دھڑکتا ہوا دل حسد کی آگ میں جھلس چکا تھا اور اب وہ اس مسلسل اذیت کا مستقل خاتمہ چاہتا تھا۔ صبح ہوتے ہی وہ اپنے والدین حضرت آدم ؑ اور امّاں حوا کی خدمت میں حاضر ہوا اور دو زانوں ہو کر‘ سر جھکائے ان کے سامنے بیٹھ گیا۔ حوا ماں تھیں‘ بیٹے کی سرخ آنکھیں دیکھ کر فوراً سمجھ گئیں کہ اُن کا لعل ضرورکسی ذہنی اذیت سے گزر رہا ہے۔ حضرت آدم ؑ اور امّاں حوّا کے ہاں خدا کے حکم سے جڑواں بچے (ایک لڑکا اور ایک لڑکی) کی پیدائش ہوا کرتی تھی اور ایک ساتھ پیدا ہونے والے حقیقی بہن بھائی تصور ہوتے اور ان کی شادی آپس میں طے کرنا ممنوع تھا۔ اُن کے ہاں قابیل اور اقلیما کی پیدائش ایک ساتھ ہوئی اور پھر ہابیل اور لیودا نے بھی ایک ساتھ جنم لیا۔ اب اصولی طور پر قابیل کی شادی لیودا اور ہابیل کی شادی اقلیما سے ہونا طے پائی تھی لیکن قابیل کو یہ رشتہ سخت نامنظور تھا اور اس کی وجہ اقلیما کا غیر معمولی حسن تھا۔ اُس نے تمام لحاظ ایک طرف رکھ کر اپنے والدین سے صاف کہہ دیا کہ وہ شادی کرے گا تو صرف اقلیما سے۔
قابیل کی ضد کو دیکھ کر آدم ؑ نے اللہ سے رجوع کر کے رہنمائی طلب کی‘ پھر دونوں بیٹوں (ہابیل اور قابیل) کو اپنے پاس بلایا اور انہیں اللہ کی راہ میں قربانی پیش کرنے کا کہا کہ دونوں بھائیوں میں سے جس کی پیش کردہ قربانی کو آسمانی آگ نگل لے گی‘ اس کی شادی اقلیما سے کر دی جائے گی۔ (اُس دور میں قربانی کو آسمانی آگ کا نگل لینا قبولیت کی سند سمجھا جاتا تھا) ہابیل نے دنبے کی جبکہ قابیل نے اناج کی قربانی پیش کی۔اللہ کے آخری رسول حضرت محمدﷺ کا ارشادِ گرامی ہے کہ ''بے شک تمام اعمال کا دارو مدار نیتوں پر ہے‘‘۔ قربانی جیسے افضل عمل کا تعلق بھی نیت سے ہی ہے اور نیت کی سچائی یقینا دلِ ما روشن کی عمدہ دلیل ہے۔ چونکہ ہابیل کا دل شیشے کی طرح شفاف تھا سو اس کی پیش کردہ قربانی قبول کر لی گئی جبکہ قابیل کا دل نفرت اور حسد کی آماجگاہ بن چکا تھا لہٰذا اُس کی قربانی شرفِ قبولیت نہ پا سکی اور یوں وہ بارگاہِ الٰہی میں اپنا کیس ہار گیا۔ اور پھر اس عالمِ آب و گِل پر پہلا انسان قتل ہوا جس کی وجہ حسد کی آگ اور نفسانی خواہشات کا غلبہ تھا۔ اس طرح ہمیں حضرت آدم ؑ کے دور میں قربانی کے تصورکی موجودگی کا پتا ملتا ہے جس کی معراج ہمیں حضرت ابراہیم ؑ کے ہاں نظر آتی ہے۔ (سورۃ المائدہ: آیات 27تا 30، تفاسیر: احسن البیان، معارف القرآن)
روزِ ازل سے اللہ کے انبیاء، اولیاء، صوفیا اور برگزیدہ بندے ہمیشہ کڑی آزمائش اور ابتلا کے پُرخار راستوں پر آبلہ پا چلے ہیں۔ ان کی زندگیاں اپنی ذات کی نفی اور خوشنودیٔ الٰہی کے حصول کو یقینی بنانے میں صرف ہوئیں۔ صبرِ ایوبؑ، گریۂ یعقوبؑ اور شہادتِ حسینؓ دراصل قربِ الٰہی کے راستے میں دی جانے والی فقید المثال قربانیوں کی عظیم داستانیں ہیں۔ تزکیہ نفس اور ربِ کریم کے احکامات کی ترویج و اشاعت میں ہمارے پیارے نبی خاتم النبیین حضرت محمدﷺ نے بے پناہ مصائب، آلام اور مشکلات کو صبر و رضا کا پیکر بن کر برداشت کیا۔ مشہور مغربی مورخ سٹینلے لین پول نے فتح مکہ کے موقع پر حضور اکرمﷺ کی دشمنان اور کفارِ مکہ کے لئے عام معافی کو ان الفاظ میں قلمبند کیا ہے: ''فتح مکہ کا دن دراصل حضور نبی کریمﷺ کا نفس کو فتح کرنے کا دن بھی ہے‘‘۔ آپﷺ نے عالمِ انسانیت کو یہ واضح پیغام دیا کہ عشق کا پہلا تقاضا اپنی ہستی کو فنا کر نا اور تسلیم و رضا کا پیکر بن کر ہر عمل مشیتِ الٰہی کے لئے انجام دینا ہے۔ حضرت ابراہیم ؑ نے اِسی روایت کو آگے بڑھاتے ہوئے اپنے بیٹے کی قربانی پیش کر کے قربانی کی نئی تاریخ رقم کی۔
حضرت اسماعیل ؑ نو برس کی عمر کو پہنچے تو حضرت ابراہیم ؑ اور بی بی حاجرہ انہیں دیکھ کر جینے لگے۔ اپنے بیٹے اسما عیل ؑ کی چھوٹی سی تکلیف انہیں بے چین کر دیتی تھی۔ پھر ایک رات حضرت ابراہیم ؑ نے ایک عجیب خواب دیکھا کہ وہ کئی سال کی دعائوں کے بعد پیرانہ سالی میں حاصل کی گئی اولادِ نرینہ کی گردن پر چھری چلا رہے ہیں۔ اس خواب کے بعد اچانک حضرت ابراہیم ؑ نے گھبرا کر آنکھیں کھول دیں۔ اُن کے چہرے پر گہری فکر کے آثار نمایاں تھے۔ باپ کو گہری سوچ میں ڈوبا دیکھ کر ننھے اسماعیل ؑ نے بابا کا چہرہ ہاتھوں میں لے کر معصومیت سے پریشانی کی وجہ سے دریافت کی۔ باپ بیٹے کے درمیان ہونے والا مکالمہ قرآن مجید کا حصہ بن گیا: ''اے میرے بیٹے! میں خواب دیکھتا ہوں کہ تجھے ذبح کر رہا ہوں‘ پس تیری کیا رائے ہے؟ کہا: اے ابا جان! جو حکم آپ کو ہوا ہے‘ کر گزریے‘ آپ مجھے ان شاء اللہ صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے‘‘۔ (سورۃ الصفّٰت: آیت102)
چونکہ حضرت ابراہیم ؑ دلِ ماروشن کی دولت سے مالا مال تھے اور دنیاوی آلائشوں سے کوسوں دور تھے، ان کی نیت کھری اور خالص تھی لہٰذا وہ آزمائش کی بھٹی سے کندن بن کر نکلے اور ان کی یہ قربانی ادا ہونے سے پہلے ہی‘ صرف نیت کے بل بوتے پر بارگاہِ الٰہی میں قبول کر لی گئی۔ وہ عظیم الشان قربانی قبولیت کے اُس درجے پر جا پہنچی کہ کروڑوں مسلمانوں کے دلوں کی دھڑکن بیت اللہ شریف کی تعمیرکے لئے اللہ تعالیٰ کی نظرِ انتخاب حضرت ابراہیم ؑ اور اُن کے بیٹے حضرت اسماعیل ؑ پر ہی جا کر ٹھہری۔ یہ مقامِ فیض دراصل اُس بے مِثل قربانی کی سندِ قبولیت ہی تو ہے۔ حجِ بیت اللہ اور جملہ مناسکِ حج دراصل حضرت ابراہیم ؑ کے بلند پایہ مقام کی گواہی دیتے ہیں۔ چاہِ زمزم، صفا مروہ، مقامِ ابراہیم، جبلِ رحمت، وادیٔ ابراہیم منیٰ و مزدلفہ‘ یہ سب مقامات آج بھی درُودِ ابراہیمی کا ورد کرتے نظر آتے ہیں۔ 
اب بھی حج کے موقع پر سنتِ ابراہیمی کی یاد میں عید الاضحی منائی جاتی ہے مگر صد افسوس کہ ہم نے اِسے عرف عام میں محض بکرا عید تک محدود کر دیا ہے۔ ہر سال مقابلے پر جانور ذبح کئے جاتے ہیں، دیوہیکل بیلوں اور اونٹوں کی رسی ہاتھ میں تھام کر لوگ فخر سے گردن اکڑا کر چلتے ہیں کہ کوئی ہے جو اُن سے زیادہ مہنگا جانور خرید سکے؟ قربانی کے لئے بڑا جانور خریدنا دراصل ذاتی انا کی تسکین کا ذریعہ بن کر رہ گیا ہے۔ حتیٰ کہ عید کے گوشت کی تقسیم بھی مقام و مرتبہ کو مدنظر رکھ کر کی جاتی ہے۔ اگر کسی غریب کا خیال آ ہی جائے تو گوشت بھیج کر پورا تعارف پیش کیا جاتا ہے کہ یہ گوشت فلاں ابن فلاں کے گھر سے بھیجا گیا ہے تاکہ وہ بیچارا جہاں کہیں راہ چلتے نظر آئے تو آپ کو دیکھ کر جھک کر سلام کرنا اُس پر واجب ٹھہرے۔ مزید برآں قربانی کے گوشت کا بہتر اور خطیر حصہ ہمارے ڈیپ فریزرز میں سجا دیا جاتا ہے۔ ارشادِ ربانی ہے: ''اللہ کو ہر گز نہ اُن (قربانیوں) کے گوشت پہنچتے ہیں نہ اُن کے خون ہاں تمہاری پرہیزگاری اُس تک باریاب ہوتی ہے‘‘۔ (سورۃ الحج: آیت 37 )
یاد رکھیں! اگر آپ عیدالاضحی والے دن لوگوں کو چِکن شاپ پر گوشت خریدتے ہوئے دیکھیں تو جان لیجئے یہ وہی سفید پوش لوگ ہیں جن تک اُس دن بھی گوشت نہیں پہنچا اور یہ خوددار لوگ یا اُن کے بچے شاپر لیے گلی گلی نہیں پھرتے۔ لہٰذا عید والے دن آدھ سیر مرغی کا گوشت خرید کر یہ لوگ فاقہ زدہ بچوں کے سامنے اپنی سفید پوشی کا بھرم رکھ لیتے ہیں۔
میں بیٹھا یہ سوچ رہا ہوں کہ اگر قابیل کی پیش کردہ قربانی اُس کے حسد اور نفرت کی وجہ سے بارگاہِ الٰہی میں رد کر دی گئی اور دوسری طرف حضرت ابراہیم ؑ کی خلوصِ دل پر مبنی عظیم الشان قربانی پیش ہونے سے پہلے ہی قبولیت کے مقبول ترین درجے پر جا پہنچی تو ریاکاری اور ذاتی انا کی تسکین میں دی جانے والی ہماری قربانی اللہ کے نزدیک قبولیت کے کس درجے پر شمار ہو گی؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں