یہ کہانی ہے رائل ملٹری کالج سینڈہرسٹ میں زیرِ تعلیم متحدہ ہندوستان کے دو گہرے دوستوں کی۔ ایک کا تعلق ہندو خاندان سے جبکہ دوسرا مسلمان گھرانے کا ہونہار سپوت تھا۔ یہ دونوں لڑکپن سے ہی بڑے بڑے خواب دیکھنے کے عادی اور غیر معمولی ذہانت کے مالک تھے۔ ہندو گھرانے سے تعلق رکھنے والا لڑکا حد سے زیادہ خوش فہم واقع ہوا تھا اور وہ اکثر اپنی اس عادت کی وجہ سے بھاری نقصان اٹھایا کرتا جبکہ اُس کا مسلمان دوست اُسے اکثر سمجھاتا کہ ضرورت سے زیادہ خوش فہمی اچھی چیز نہیں ‘یہ انسان کو تباہ کر دیتی ہے لیکن وہ ایک کان سے سنتا اور دوسرے سے نکا ل دیتا اور اپنی ضد اور ہٹ دھرمی پہ بدستور قائم رہا۔ پھر بر صغیر پاک و ہند کی تقسیم ہوئی اور وسطِ اگست 1947ء میں پاکستان ایک علیحدہ مملکت کے طور پر دنیا کے نقشے پر ابھرا۔ یہ دونوں دوست اپنی اَن تھک محنت اور قابلیت کے بل بوتے پر اپنی اپنی مسلح افواج کے اعلیٰ ترین عہدے تک جا پہنچے۔ یہ خوش فہم نوجوان بھارتی چیف آف آرمی سٹاف کے عہدے پر براجمان ہوا تو اس کا دوست پاکستان میں فیلڈ مارشل کے رینک سجانے میں کامیاب ہوا۔ بد قسمتی سے اعلیٰ ترین منصب کے ملنے کے بعد اس ہندو دوست کی خوش فہمیوں پر یقین کی مہر لگ چکی تھی لہٰذا اس نے اپنا یہ مشغلہ جاری رکھتے ہوئے پاکستان کے شہر لاہور کے جم خانہ کلب میں چائے پینے کی خوش فہمی پال لی۔
ایک دن بھارتی آرمی چیف جنرل جے این چودھری نے اس بیوقوفانہ خواہش کا اظہار اپنے دوست فیلڈ مارشل ایوب خان سے کیا جو اُسے اِس احمقانہ منصوبے کے نقصانات بتا کر باز رکھنے کی کوشش کرتا رہا مگر اس کی ساری دلیلیں بے سود ثابت ہوئیں۔پھر 6ستمبر 1965ء کی تاریک رات ہمارے تاریک ذہن اور پست سوچ کے حامل بے اصول اور بیوقوف دشمن بھارت نے پوری تیاری کے ساتھ پاکستان پر لاہور کی جانب سے حملہ کر دیا۔ وہ اِس جنگ کی منصوبہ بندی ایک طویل عرصے سے کر رہا تھا۔ 1947ء کے بعد سے ہی بھارت اس خوش فہمی میں مبتلا تھا کہ اس نے لارڈ مائونٹ بیٹن کے ساتھ مل کر برصغیر پاک و ہند کی غیر منصفانہ علاقائی، صنعتی، سرکاری، فوجی اور کاروباری تقسیم کر کے جو گھنائونا کھیل کھیلا تھا اس کی بدولت پاکستان نامی یہ نوزائیدہ ریاست محض چند ہی ماہ قائم رہ سکے گی اور کچھ ہی عرصے میں واپس ہندوستان سے آن ملے گی لیکن نتیجہ اس کے برعکس نکلا اور پاکستان محدود وسائل کے باوجود ترقی کرتے ہوئے مضبوط سے مضبوط تر ہوتا چلا گیا ۔ جب بھارت کو اپنا متحدہ ہندوستان والا خواب شرمندہ تعبیرہوتا دکھائی نہ دیا تو اس نے پوری طاقت سے پاکستان پر چڑھائی کر دی اور سمندری، فضائی اور زمینی راستوں سے پاکستان کی طرف بڑھنے لگا۔
دشمن کی سب سے بڑی بیوقوفی اور خوش فہمی یہ تھی کہ اسے نہ تو اپنی کمزوریوں کا علم تھا نہ ہمارے جذبۂ ایمانی کا اندازہ ۔ اُسے لگا کہ وہ ایک بد مست ہاتھی کی طرح دندناتا ہوا آئے گا اور پاکستان کو ایک تر نوالے کی مانند نگلنے میں بہ آسانی کامیاب ہو جائے گالیکن پاکستان کے اس وقت کے صدر فیلڈ مارشل ایوب خان ریڈیو کے ذریعے عوام سے مخاطب ہوئے ''میرے عزیز ہم وطنو! السلام علیکم! دس کروڑ پاکستانیوں کی آزمائش کا وقت آ چکا ہے۔ آج صبح سویرے ہندوستانی فوج نے پاکستان کے علاقے پر لاہور کی طرف سے حملہ کیا اور بھارتی ہوائی بیڑے نے وزیر آباد میں کھڑی ایک مسافر گاڑی کو اپنے بزدلانہ حملے کا نشانہ بنایا۔ پاکستان کے دس کروڑ عوام جن کے دل کی دھڑکن میں لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کی صدا گونج رہی ہے‘ اس وقت تک چین سے نہیں بیٹھیں گے جب تک دشمن کی توپیں ہمیشہ کے لئے خاموش نہ ہو جائیں‘‘۔
بھارت نے جنگ کا آغاز تو کر دیا لیکن پاک فوج کے جوابی حملوں نے اسے ہلا کر رکھ دیا ۔ بھارتی فوج کے وہم و گماں میں بھی نہ تھا کہ بی آر بی نہر کے اُس پار اُسے میجر عزیز بھٹی جیسے مرد ِ آہن کا سامنا کرنا پڑے گا جو محض 120جوانوں کے ساتھ اُس کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بن جائیں گے۔بھارتی فضائیہ نے یہ کب سوچا تھا کہ سرگودھا کی فضائوں میں اس کا سامنا ایم ایم عالم جیسے علامہ اقبال کے شاہینوں سے ہو گا جو ایک منٹ کے قلیل وقت میں اس کے پانچ جنگی طیارے تباہ کر کے عالمی ریکارڈ بنا تے ہوئے اُسے نشانِ عبرت بنا دیں گے۔ دوار کا آپریشن کے دوران بھارت کے بحری بیڑے سمندر کے نیلگوں پانیوں میں جس قدر بے آبرو ہوئے وہ بھی ہزیمت کی ایک الگ داستاں ہے۔ غرور کا سر ہمیشہ نیچا ہوتا ہے لیکن کیسے‘ یہ اُس وقت پتا چلا جب بھارتی جنرل اپنی آرمرڈ ڈویژن جسے وہ ''فخرِ ہند ‘‘کا خطاب دے چکا تھا‘ کی پوری قوت کے ساتھ سیالکوٹ پر حملہ آور ہوا ۔دشمن اس خوش فہمی میں تھا کہ وہ گوجرانوالہ سے ہوتا ہوا لاہور کے عقب میں جی ٹی روڈ پر پہنچ کر اپنی فتح کے جھنڈے گاڑے گا لیکن شومئی قسمت کہ ''فخرِ ہند‘‘ کا سامنا ہماری ایک آرمرڈ یونٹ 25کیولری سے ہوا جس نے تین دن تک'' فخرِ ہند‘‘ کی پوری آرمرڈ ڈویژن کو چونڈہ سیکٹر سے آگے نہ بڑھنے دیا۔آج بھی پاک فوج کے قبضے میں لیا جانے والا وہی بھارتی ٹینک جو کبھی '' فخرِ ہند‘‘ تھا‘ اب ''ذلت ِ ہند‘‘ بن کر آرمی میوزیم میں آنے والے سیاحوں کو اپنی عبرتناک شکست کی داستاں سنا رہا ہے۔ چونڈہ سیکٹر عملی طور پر بھارتی ٹینکوں کا قبرستان بن گیا۔
بھارتی میجر جنرل نرنجن پر ساد کی وہ بوکھلاہٹ تاریخ کا حصہ بن چکی ہے جس کا شکار ہو کر وہ اپنی سرکاری جیپ چھوڑ کر بھاگ گیا ، جس میں اُس کی ذاتی ڈائری سمیت کئی اہم بھارتی دستاویزات بھی موجود تھیں اور جسے آٹھ ستمبر کے روز 18بلوچ رجمنٹ کے جوانوں نے واہگہ سیکٹر میں بی آر بی نہر پار کر کے اپنے قبضے میں لیا۔ جنرل نرنجن کی بزدلی کی داستان بھارتی وزیر دفاع وائے بی چون (Y.B. CHAVAN)خود اپنی کتاب میں بیان کر چکے ہیں۔سترہ روز جاری رہنے والی اس جنگ کی گرد بیٹھی تو بھارت کا رعب، دبدبہ اور غرور بھی جھاگ کی طرح بیٹھ چکا تھا اور بھارت اپنے سینکڑوں ٹینکوں، درجنوں لڑاکا طیاروں اور کئی بحری بیڑوں سمیت پانچ ہزار سے زائد فوجیوں سے محروم ہو چکا تھا۔ قصور سے لے کر اکھنور تک‘ ہریارا سے لے کر کھیم کرن تک، واہگہ سے لے کر جام نگر تک، چونڈا سے لے کر ہلواڑ تک اور بی آر بی نہر سے لے کر دوارکا کے قلعے تک ہر سمت پاک فوج کی کامیابیوں کے نشان ثبت تھے اور سبز ہلالی پاکستانی پرچم کا وقار مزید بلند ہو چکا تھا۔ وائے بی چون اس شکست کا برملا اعتراف کر تے ہوئے رقمطراز ہیں ''محاذوں پر 6ستمبر کا دن ہمارے لیے بہت کٹھن تھا‘ ہم پر حد درجہ خوفناک جوابی حملے کئے گئے۔ چیف آف آرمی سٹاف خود بھی بے یقینی کا شکار تھے‘‘۔
سچ کہتے ہیں تاریخ خود کو دہراتی ہے اور جو قومیں تاریخ سے سبق نہیں سیکھتیں‘ذلت ان کا مقدر ٹھہرتی ہے ۔ بھارت کا شمار بھی انہی قوموں میں ہوتا ہے جو تاریخ سے سبق نہیں سیکھتیں ۔ 26فروری 2019ء کی رات بھارت نے ایک بار پھر تاریکی میں پاکستانی فضائی حدود کی خلاف ورزی کی اور ایک نام نہاد کارروائی میں بالاکوٹ کے چند درختوں کو نقصان پہنچا کر چلتا بنا۔اگلے ہی روز پاک فضائیہ کے جوابی حملے نے اسے ایک بار پھر چھٹی کا دودھ یاد کرادیا اور اُس کا طیارہ مِگ 21 مار گرایا اور اُس کے پائلٹ ابھینندن کو زندہ گرفتار کر لیا ۔ایک بار پھر پاک فوج نے دشمن کو یہ بتا دیا کہ اگر آپ کو لاہور کے جم خانہ میں چائے پینے کا اتنا ہی شوق ہے تو اس کے لئے آپ کو بھی ابھینندن کی طرح اپنے طیارے کی قربانی دے کر بطور قیدی ہمارا مہمان بننا پڑے گا ۔ ابھینندن کی خوف سے منجمد ہوتی ہوئی دھڑکنوں کو رواں رکھنے کے لئے پاک فوج نے اُسے چائے کی گرما گرم پیالی پیش کر کے فیلڈ مارشل ایوب خان کے ہم جماعت بھارتی جنرل جے این چودھری کی دیرینہ ادھوری خواہش پوری کر دی جس کی حسرت ِناکام وہ دل میں لیے راکھ کی ڈھیر ی میں بدل گیا۔ یوں بھارتی پائلٹ ابھینندن کو دنیا کا مہنگا ترین چائے کا کپ پینے کا اعزاز حاصل ہوا جس پر وہ خود اور پوری بھارتی قوم شرمندہ ہے۔