بلاشبہ انسان ربِ کریم کی سب سے شاہکار تخلیق ہونے کے سبب اشرف المخلوقات کہلانے کا مستحق ٹھہرا۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے واضح الفاظ میں فرمایا ''بے شک ہم نے انسان کو بڑے عمدہ انداز میں پیدا کیا ہے‘‘۔ دوسرے مقام پر ارشادِ ربانی بڑی صراحت سے انسان کے قابلِ تکریم ہونے کی دلیل پیش کرتا ہے ''اور ہم نے بنی آدم کو قابلِ تکریم بنایا۔‘‘ انسان کے اسی اعلیٰ و ارفع مقام کو تسلیم کروانے کے لیے اللہ تعالیٰ نے اسے زمین پر اپنا نائب مقرر کرتے ہوئے سارے ملائکہ سے عالمِ بالا میںحضرت آدمؑ کو سجدہ کروایا۔ ربِ دو جہاں کی اس خوبصورت کائنات کے آب و گِل میں موجود انعاماتِ خداوندی کے سب خزانے اور سمندروں میں چھپے لعل و گوہر دراصل انسان کی ہی آسودگی اور تسکین کے لیے پیدا کیے گئے ہیں۔ جبکہ انسان کا واحد مقصدِ تخلیق صرف اپنے خالق و مالک کو بلا شرکتِ غیرے معبود مان کر اس کی بندگی، اطاعت اور عبادت قرار پایا۔ انسان اور اس کے معبود کے درمیان تعلق کو مضبوط بنانے کے لیے اور اُس کا تزکیۂ نفس کر کے آدابِ بندگی سکھانے کے لیے اللہ تعالیٰ نے بنی آدم کی تعلیم و تربیت کے لیے ہر علاقے اور ہر قوم میں انبیاء کرام معبوث فرمائے۔ انسان کی تربیت کی سب سے بڑی درسگاہ ماں کی گود قرار پائی۔ عظیم مائیں اپنی اولاد کی فکر و نظر کی درستی اور شخصیت و کردار میں نکھار کا سبب بنتی ہیں۔ نپولین نے اِسی لیے کہا تھا ''مجھے عظیم مائیں دو اور میں تمہیں ایک عظیم قوم دوں گا‘‘۔ یہی وجہ ہے کہ تاریخِ انسانی میں ایسی بے شمار درخشندہ مثالیں موجود ہیں جب انسان نے اپنے اس عظیم مقصد کو پہچانتے ہوئے ربِ کائنات کے سامنے سرِ تسلیم خم کیا اور بارگاہِ الٰہی میں سجدہ ریز ہو کر انسانی کردار کی معراج حاصل کی۔ کوئی اپنی بوڑھی ماں کی دن رات خدمت کر کے حضرت اویس قرنیؓ بنا اور رسولِ اکرمﷺ سے بالمشافہ ملاقات کئے بغیر صحابی کا رتبہ حاصل کرنے میں کامیاب رہا اور کوئی اپنی ماں کی مثالی تربیت اور تابعداری کے سبب شیخ عبد القادر جیلانیؒ بنا اور انسانیت کے مقامِ فیض کے حصول کو یقینی بنانے میں کامیاب ٹھہرا۔
دورِ جدید میں بھی اخلاقی اقدار اور انسانی کردار کی کئی سنہری مثالیں موجود ہیں جب بڑے کردار کے حامل لوگوں نے خدا تک رسائی ممکن بنانے کے لیے مخلوقِ خدا کی بے لوث خدمت کا راستہ منتخب کیا۔ انفرادی سطح پر فلورنس نائٹ انگیل سے لے کر مدر ٹریسا تک کئی قابلِ رشک کردار انسانی خدمت کو اپنا شعار بناتے ہوئے تاریخِ انسانی میں ہمیشہ کے لیے امر ہو گئے۔ اسی طرح بین الاقوامی سطح پر بِل اینڈ میلنڈا گیٹس فائونڈیشن اور کلنٹن فائونڈیشن اربوں ڈالرز کی خطیر رقم اور عطیات سے انسانی خدمت میں پیش پیش نظر آتی ہیں۔ وطنِ عزیز پاکستان میں عبدالستار ایدھی اور بلقیس ایدھی نے مل کر انسانیت اور انسانی خدمت کے نئے معیار وضع کیے اور ان کا بیٹا خدمت کے مشن کو آگے بڑھا رہا ہے۔ اخوت فائونڈیشن بلاسود قرضوں پر مبنی دنیا کا سب سے بڑا پروگرام‘ چلا رہی ہے جس کا حجم سو ارب سے تجاوز کر چکا ہے‘ جس کے تحت ملک بھر میں ایک ہزار سے زیادہ برانچز کے ذریعے دس لاکھ سے زائد گھرانوں تک قرضِ حسن کو بلا امتیاز و تفریق شفاف انداز میں مستحقین کی دہلیز تک پہنچایا جا رہا ہے۔ اس کے علاوہ انہوں نے مفت تعلیم کا خواب شرمندہ ِتعبیر کر کے لاہور قصور روڈ پر اخوت یونیورسٹی کا قیام عمل میں لا کر انسانی خدمت کی ایک لازوال مثال بھی قائم کی ہے۔ سیلانی دسترخوان کے روحِ رواں مولانا صاحب محض خوشنودیٔ الٰہی کے حصول کو یقینی بنانے کے لیے ملک بھر میں ایک لاکھ سے زائد نادار اور بے کس مستحقین کے لیے روزانہ کی بنیاد پر مفت کھانے کا بندوبست کر کے چشم برا ہ رہتے ہیں۔ یہ تصویر کا ایک روشن پہلو ہے۔
تصویر کا مگر دوسرا رُخ بڑا بھیانک ہے۔ گزشتہ چند سالوں سے پاکستان میں انسان سوزی، درندگی، کمینگی، اخلاقی پستی اور وحشت و دہشت کی کئی خوفناک شکلیں دیکھنے کو مل رہی ہیں۔ صرف ضلع قصور میں سینکڑوں معصوم کمسن بچوں کو جنسی درندگی کا نشانہ بنایا گیا، معصوم زینب سمیت کئی بچیوں کو عمران علی نامی ایک بھیڑیے نے اپنی ہوس کی بھینٹ چڑھا دیا اور اسی طرح کی کئی دل دہلا دینے والی شرمناک خبریں الیکٹرونک، پرنٹ اور سوشل میڈیا پر آئے روز کہرام بپا کرتی نظر آتی ہیں۔ ننھی زینب کے سفاک قاتل عمران علی کو گرفتار کر کے تختہ دار پر لٹکا دیا گیا مگر جنسی درندگی کا ناسور پہلے سے زیادہ خوفناک بنتا جا رہا ہے۔ عمران علی کو پھانسی دے کر مجرم کا خاتمہ تو کر دیا گیا لیکن جرم زندہ رہا اور درندگی کو ختم نہ کیا جا سکا۔ یہ درندگی اور بھی وحشت سے سر اٹھانے لگی اور اُس وقت تو دھرتی لرز اٹھی جب 9ستمبر کی ایک تاریک رات دو وحشی درندوں نے بچوں کے سامنے ان کی ماں کا ریپ کیا۔ ہر ذی عقل چیخ اٹھا۔ ایک کہرام مچ گیا، ہر فرد کی رگیں غصے سے تن گئیں، یہ ایسا دلخراش واقعہ تھا کہ ٹیلی وژن کی کئی خواتین اینکرز دورانِ پروگرام رو پڑیں۔ حکومتی مشینری حرکت میں آئی اور بہتر گھنٹوں میں پولیس مجرمان تک پہنچ گئی۔ DNA سے ثابت ہوگیا کہ یہی وہ مکروہ افراد ہیں جو اس درندگی کے مرتکب ہوئے۔ اس تمام صورتحال کا وزیراعظم نے سختی سے نوٹس لیتے ہوئے ایک تجویز پیش کی کہ ایسے گھنائونے جرائم میں ملوث تمام انسان نما درندوں کو بذریعہ سرجری جنسی طور پر ناکارہ کر دیا جائے۔ بلاشبہ ان کی طرف سے اس معاملے کو اس قدر سنجیدہ لینا قابلِ تحسین ہے لیکن کیا یہ آخری حل ہے؟ عین ممکن ہے اگر وزیراعظم کی یہ تجویز قانون کی شکل اختیار کر لے اور اس پر عمل درآمد یقینی بنایا جائے تو یہ وحشت ناک سلسلہ تھم جائے لیکن ہم جنسی جرائم کے پسِ منظر میں نفسیاتی پہلو اور بنیادی وجوہات نظر انداز نہیں کر سکتے۔ درخت کو اوپر سے کاٹ دیا جائے لیکن اگر اس کی جڑیں سلامت ہوں تو کسی وقت بھی ہرا بھرا ہو سکتا ہے۔ اس کے برعکس اگر اس کی جڑوں میں زہر ڈال دیا جائے تو وہ درخت ہمیشہ کے لئے بے جان ہو جاتا ہے۔ اس درندگی کی جڑیں بہت مضبوط ہیں۔
جنسی درندگی اور وحشیانہ جرائم کے کئی اسباب ہیں جن میں دولت کی غیر مساوی تقسیم، بیروزگاری، طبقاتی منافرت، احساسِ محرومی، بدامنی، لا قانونیت، اقربا پروری، سیاسی سرپرستی، لوٹ کھسوٹ اور مادہ پرستی سرفہرست ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ والدین کا بچوں کی تعلیم و تربیت کے معاملات سے عملی طور پر لاتعلق رہنا اور تعلیمی اداروں کی صرف ڈگری کے اجرا اور فیس کی وصولی تک محدود سوچ بھی آج کی نوجوان نسل میں پائے جانے والے اخلاقی انحطاط کی کسی حد تک ذمہ دار ہے۔ اسی طرح انٹرنیٹ، کمپیوٹر، موبائل فون، سوشل میڈیا، متشدد فلم بینی اور کارٹونز دراصل ہمارے نوجوانوں میں جنسی ہیجان اور جذباتی اشتعال کا سبب بن رہے ہیں۔ چائلڈ پورنو گرافی اور ڈارک ویب کا مکروہ دھندہ عالمی سطح پر بڑے مافیاز کی سرپرستی میں گزشتہ کئی دہائیوں سے اپنے پنجے گاڑ چکا ہے اور اس کے آثار پاکستان میں بھی ملتے ہیں۔ ہمیں بطور ایک متحد قوم اور مربوط معاشرے کے‘ اس درندگی کے مکمل خاتمے کے لیے ایک ہمہ گیر تحریک چلانے کے ساتھ ساتھ قانون سازی کی بھی ضرورت ہے تاکہ ان سفاک درندوں کو عبرتناک سزائیں دے کر اس ناسور کو ہمیشہ کے لیے جڑ سے اکھاڑ پھینکا جائے اور نوجوان نسل کی مثالی تربیت کر کے اِسے اپنے روشن مستقبل کا ضامن بنا سکیں۔
وقت آن پہنچا ہے کہ ہم بطور قوم اپنے گریبان میں جھانکیں اور ہر فرد اپنا محاسبہ خود کرے۔ کیا بطور والد ہم محض دولت کے حصول کو ترجیح بنا کر اپنی اولاد کی حرکات و سکنات سے بے نیاز ہو کر انہیں مادر پدر آزاد کر دیں؟ کیا ہماری مائیں اپنے بچوں کی مثالی تربیت میں اپنا کردار بخوبی انجام دے رہی ہیں؟ کیا ہمارے اساتذہ اپنے فرائضِ منصبی کے ساتھ انصاف کرتے ہوئے ایک عظیم قوم کی تعمیر و تشکیل میں اپنا حصہ ڈال رہے ہیں؟ یہی سوال اہلِ قلم، میڈیا پرسنز اور علماء کرام اپنی ذات سے پوچھیں کہ کیا وہ واقعی اپنے قول و فعل میں نوجوان نسل کی مثالی تعلیم و تربیت کو اپنی اولین ترجیح سمجھتے ہیں؟ بطور قوم یہ ہماری اجتماعی ذمہ داری ہے کہ ہم اپنی فکر و نظر میں آدابِ بندگی اور اخلاقی اقدار کے اعلیٰ ترین معیار کو عملی طور پر شامل کریں تا کہ آئندہ ہماری ماں، بہن یا بیٹی رات کو اکیلے سفر کرتے ہوئے کسی قسم کا خطرہ محسوس نہ کرے۔