فرشتوں سے بڑھ کر ہے انسان بننا

وہ سندھی لہجے میں اردو بولتے ہوئے اچھا لگا، اس کی آوازمیں بے پناہ مٹھاس اور بلا کی خود اعتمادی تھی۔ وہ الفاظ کے چنائو میں محتاط اور عاجزی کا پیکر بنا میرے ساتھ نہایت ادب سے گفتگو کر رہا تھا۔ میرے ہر سوال کے جواب میں اس کے پاس مناسب الفاظ کے ساتھ ساتھ بہترین معلومات بھی تھیں کیونکہ شاید گزشتہ چند دنوں سے یہی سوالات اس سے سینکڑوں مرتبہ پوچھے جا چکے تھے ۔بلا شبہ وہ جرأت و بہادری کی ایک انوکھی داستاں رقم کر چکا تھا۔اپنے سنہری کارنامے کی وجہ سے کشمور تھانے میں تعینات اسسٹنٹ سب انسپکٹر محمد بخش اب قابلِ فخر قومی ہیرو بن چکا تھا۔اندرونِ سندھ جہاں کاروکاری جیسی انسانیت سوز رسومات اور فرسودہ قدریں آج بھی پوری شدومد سے اپنے خونیں پنجے گاڑے ہوئے ہیں‘وہاں کا رِسرکار کی انجام دہی میں ایک مظلوم ماں‘ جسے کچھ وحشی درندوں نے ہوس کا نشانہ بنا یا تھا اور اس کی چار سالہ ننھی بیٹی کو درندگی سے روند ڈالا تھا‘ کی ہر ممکن مدد یقینی بنانے کے لیے محمد بخش نے فرسودہ رسومات اور سماجی دبائو کو یکسر نظر انداز کرتے ہوئے اپنی بیوی اور بیٹی کو ایک تاریخ ساز کارنامہ سر انجام دینے کے حوالے سے تیار کرنے کے لیے جس ہمت و حوصلہ کا ثبوت دیا وہ یقینا قابلِ تقلید ہے اور قابلِ تحسین بھی۔ایسے بیٹے بہت کم مائیں جنتی ہیں،ایسے فرض شناس بہت کم ملتے ہیں جو اپنی ڈیوٹی کو ایک مذہبی فریضہ سمجھ کر انجام دیتے ہوئے اپنا تن‘ من‘ دھن نچھاور کر دیں اور دائیں کندھے پر سجے ''محافظ ‘‘کا عملی ثبوت بن جائیں۔
اگرچہ اس دل خراش واقعہ کی تمام تفصیلات پہلے ہی ایس ایس پی کشمورسے گفتگو کے دوران جان چکا تھاپھر بھی میں یہ سب اس عظیم کارنامے کو انجام دینے والے مرکزی کردار اے ایس آئی محمد بخش کی زبانی سننے کے لیے بے تاب تھا۔واقعہ کی تفصیل بتاتے ہوئے اُس نے بتایا کہ 30اکتوبر کی دوپہرایک عورت تھانہ کشمور کے محرر کے پاس پیش ہوئی اور اپنے ساتھ ہونے والے اندوہناک ظلم و بربریت کے بارے میں تفصیلات بتانا شروع کیں تو وہ بوکھلاہٹ کا شکار ہو گیااور اس نے اس سائلہ کو میرے پاس بھجوا دیا۔ مجھے اس نے دل لرزا دینے والی داستانِ غم سنائی کہ کس طرح 25اکتوبر کو کراچی سے رفیق نامی شخص نوکری کا جھانسہ دے کر اسے کشمور لے آیاجہاں وہ اسے اور اس کی چار سالہ بیٹی کو جنسی درندگی کا نشانہ بناتا رہا۔وہ اس کی بچی کو یرغمال بنا کر تبسم کو کراچی سے مزید ایک اور لڑکی لانے کا کہہ رہا تھا جس پر وہ تھانے پہنچ گئی ۔ وہ اس شہر میں اجنبی تھی اور اُسے ملزمان کے بارے کچھ معلوم نہ تھا ، صرف اُس کے پاس کاغذ کے ایک ٹکڑے پر لکھے دو موبائل فون نمبر تھے جو اس نے محمد بخش کے حوالے کئے جو اس کی مدد کرنے کے لیے مختلف پہلوئوں پر غور کرنے لگا۔
اُس نے سائلہ کو تھانے کے قریب واقع مسجد بھیج دیا تا کہ وہ وہاں آرام کر سکے اور وہ ان نمبرز پر کال کر کے ملزمان تک پہنچنے کی جستجو میں لگ گیا ۔ اپنی مسلسل بے چینی کے سبب دو گھنٹے بعد مظلوم عورت دوبارہ تھانے آ گئی اور محمد بخش اسے اپنے گھر لے گیا اور اپنی بیٹی اور بیوی کو اس کا خیال رکھنے کا کہہ کر دوبارہ سرکاری امور میں مصروف ہو گیا۔اس دوران اسے گھر سے ٹیلیفون پر بتایا گیا کہ تبسم بہت رو رہی ہے اور اپنی بیٹی کی فوری بازیابی کے لیے دہائیاں دے رہی ہے کہ جانے اُن درندوں نے اس کا کیا حال کیا ہوگا۔بات بات پہ وہ تڑپ جاتی اور شدتِ غم سے اس نے کھانا پینا بھی چھوڑ دیا۔محمد بخش کی بیوی اور بیٹی بھی اب اُس مظلوم عورت کی ہر ممکن مدد کے لیے محمد بخش پر دبائو بڑھا رہی تھیں۔اسی دوران اُس نے ان دو نمبروں پر کال کا سلسلہ جاری رکھا۔ چند روز بعد ایک نمبر پر اس کی بات ایک ملزم خیراللہ کے چھوٹے بھائی سے ہوئی۔محمد بخش نے اسے بتایا کہ وہ وزیر اعظم کے احساس پروگرام کا منیجر ہے اور یہ کہ اس کے پچاس ہزار آئے ہیں جنہیں وہ آ کر وصول کرلے۔ساتھ ہی اُسی نمبر پر تبسم نے بھی بات کی تو ملزم رفیق سے رابطہ ہو گیا جس پر اُس نے کہا کہ اگر اپنی بیٹی چاہیے تو اس کے بدلے اسے ایک اور لڑکی لا کردے۔ محمد بخش کے کہنے پر تبسم نے دو تین دن میں عورت لانے کا وعدہ کر لیا۔
اس کہانی کو منطقی انجام تک پہنچانے میں لیڈی پولیس کی ضرورت اور اہمیت پر غور کیا گیا مگر ضلع بھر کی پولیس میں ایک بھی لیڈی کانسٹیبل نہ ہونے سے یہ معاملہ مزید پیچیدہ ہو گیا ۔اب محمد بخش کے پاس ان ظالم درندوں کو انکی جنسی ہوس کے جال میں پھنسانے اور ان سے ننھی بیٹی کو آزاد کرانے کے لیے کوئی اور راستہ نہیں تھا ،اس لیے اس نے اپنی بیٹی اور بیوی کو اعتماد میں لیا اور ان دونوں کو ملزمان کے ساتھ ٹیلیفون پر روابط بڑھانے اور ان کو اپنے جال میں پھنسانے کاٹاسک دے دیا جسے اُن عظیم ماں بیٹی نے مل کر خوب نبھایا۔بالآخر اپنی ہوس کی شدت کے ہاتھوں مجبور رفیق 9نومبر کو اس عورت اور اس کی ساتھی عورت‘ جس کا کردار خود محمد بخش کی بہادر بیٹی انجام دے رہی تھی‘ سے سٹی پارک کشمور میں ملنے پر آمادہ ہو گیا۔ اس سٹنگ آپریشن کی سربراہی کشمور تھانہ کے ایس ایچ او حبیب اللہ مہر جبکہ نگرانی کشمور ضلع پولیس کے ایس ایس پی امجد احمد شیخ بڑی باریک بینی سے کر رہے تھے، طے شدہ حکمتِ عملی کے تحت پولیس پارٹی نے سٹی پارک کو مکمل طور پر گھیرے میں لے لیا ۔ سادہ کپڑوں میں پولیس کے جوان اور محمد بخش کا اکلوتا جواں سال بیٹا بھی پارک کے اندر چہل قدمی کرنے لگا۔ملزم رفیق نے ان خواتین کو ٹیلیفون کر کے پارک سے باہر آنے کا کہا جس پر اسے کہا گیا کہ وہ کراچی سے آئی ہیں اور علاقے سے واقف نہیں لہٰذا وہ خود انہیں اپنے ساتھ لے جائے۔بالآخر وہ ظالم بھیڑیا نما انسان پارک کے اندر داخل ہوا۔ محمد بخش کی بیٹی نقاب پہنے ہوئے تھی جسے ہٹانے کیلئے اس نے جونہی ہاتھ آگے بڑھایا تو اس بہادر لڑکی نے اس کا گریبان پکڑ لیا ۔اسی اثنا میں محمد بخش اور اس کے ساتھیوں نے اسے گھیرے میں لیا اور گرفتار کر کے سیدھا تھانے لے آئے۔یوں یہ مشن کامیابی سے ہمکنار ہوا مگر اب اگلا ہدف وحشی درندوں سے ننھی بچی کی بازیابی اور رہائی تھی۔ تھانے پہنچ کر رفیق سے بچی کے متعلق پوچھا گیا تو اس نے بتایا کہ وہ اس کے گھر میں موجود ہے۔محمد بخش فوراًپولیس پارٹی کے ہمراہ رفیق کے گھر گیا تو ایک کمرے میں چند خون آلود کپڑے نظر آئے جن کو قریب سے دیکھنے پر پتا چلا کہ ننھی بچی زندگی اور موت کی کشمکش میں بے سدھ پڑی ہے۔اسے فوراً ہسپتال پہنچایا گیا اور پھر وہاں سے نیشنل انسٹیٹیوٹ آف چائلڈ کیئر کراچی پہنچا دیا گیا جہاں اس کا علاج سرکاری نگرانی میں جاری ہے۔پولیس نے ملزم رفیق کی نشاندہی پر اُس کے ساتھی خیر اللہ کی گرفتاری کے لیے چھاپہ مارا تو اِس آپریشن کے دوران مبینہ طور پر ملزم رفیق اپنے ہی ساتھیوں کی فائرنگ کانشانہ بن گیا؛ تاہم اُس کا ساتھی ملزم خیر اللہ قانون کی گرفت میں آچکا ہے۔
اس دلخراش واقعے نے سوشل میڈیاپر جہاں کہرام برپا کیا وہاں کشمور تھانے میں تعینات اے ایس آئی محمد بخش کی بے مثل فرض شناسی، فقیدالمثال جرأت و بہادری کا بھی خوب چرچا رہا۔ فرض شناسی اور اعلیٰ ظرفی کی نئی داستان رقم کرنے والا محمد بخش قومی ہیرو بن گیاجس کا یقیناوہ مستحق بھی ہے۔ ایسے بیٹے مائیں بہت کم جنم دیتی ہیں جو کسی مظلوم کی تڑپ کو صحیح معنوں میں محسوس کریں اور کسی کی معصوم کلی کو وحشی بھیڑیوں سے رہا کرانے کے لیے اپنی لختِ جگر کی عصمت کو دائو پر لگا دیں۔ کسی کا درد اپنا لینا‘ کسی مظلوم کی داد رسی میں اپنی جان‘ عزت اورغیرت قربان کر دینا ،دہکتی آگ میں اپنے پیاروں سمیت بے خوف و فکر کود پڑنا دراصل انسانیت کی معراج ہے۔ سندھ پولیس کا محمد بخش آج پورے پاکستان کا قابلِ فخر بیٹا اور قومی ہیرو بن چکا ہے۔وہ یقینا فرض شناسی کا استعارہ اور انسانی کردار کی عظمت کا پیکر ہے۔مولانا الطاف حسین حالی کے اس شعر کی عملی تشریح کشمور پولیس کے اے ایس آئی محمد بخش کے سنہری کارنامے میں ہمیشہ کے لیے امر ہو چکی ہے ؎
فرشتوں سے بڑھ کر ہے انسان بننا 
مگر اس میں لگتی ہے محنت زیادہ

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں