جیت کی لگن

ایسا نہیں کہ عظیم لوگ پیدائشی طور پر سونے کا چمچ منہ میں لے کر اس دنیا میں آتے ہیں اور پھر کامیابیاں سمیٹتے چلے جاتے ہیں۔ نہیں! ایسا ہرگز نہیں! ایسا بھی نہیں کہ وہ کبھی ناکام نہیں ہوتے، کبھی گرتے نہیں، ڈگمگاتے نہیں، گھبراتے نہیں یا حالات کی سختیوں نے اُن کی زندگی کا رخ نہیں کیا۔ تاریخ شاہد ہے کہ دنیا کی تمام قد آور اور تاریخ ساز شخصیات نے اپنے اپنے حصّے کی ناکامیاں، پریشانیاں، دکھ، تکالیف، درد و آلام اور مصائب سے نبرد آزما ہو کر ہی اپنے لیے منفرد مقام و مرتبہ حاصل کیا۔ وہ لوگ ناکام ہوئے تو انہوں نے پھر اٹھ کر ازسرِ نو زیادہ طاقت اور جوش و ولولے کو بروئے کار لا کر بڑی کامیابی اپنے نام کی۔ اُن کے قدم ڈگمگائے تو وہ دوبارہ سنبھل کر اپنی منزل کی طرف عزمِ صمیم کے ساتھ چل پڑے۔ ان کے باغِ تمنا میں خزاں نے ڈیرے ڈالے تو انہوں نے امیدِ بہار کا دامن نہیں چھوڑا‘ ثابت قدمی کے ساتھ گُل و لالہ کی امید کے چراغ جلاتے رہے اور شبِ تاریک کے اختتام پر اک صبحِ پُر نور کے استقبال کا انتظار کرتے رہے۔ یہی ہے بنیادی فرق اور خاص نکتہ جو اُن ہستیوں کو عام انسانوں سے ممتاز کرتا ہے۔ تھامس کارلائل کے الفاظ میں: تاریخ اِنہی عظیم انسانوں کی سوانح عمری بن کر رہ جاتی ہے بلکہ خود تاریخ اِن بڑے لوگوں کے سنہری کارہائے نمایاں کو اپنے صفحات پر سجا کر نازاں رہتی ہے۔ مشہور برطانوی ڈرامہ نگار، ولیم شیکسپیئر نے عظیم لوگوں کو تین درجوں میں تقسیم کیا ہے۔ اس کے نزدیک کچھ تو پیدائشی طور پر عظیم ہوتے ہیں۔ کچھ عظمت کا تاج اپنی اَن تھک محنت کے بل بوتے پر اپنے سر پر سجاتے ہیں اور کچھ کے سر پر عظمت کا تاج ٹھونس دیا جاتا ہے،یعنی وہ حادثاتی طور پر عظیم لوگوں کی صف میں گھس آتے ہیں حالانکہ وہ اس کے اہل ہرگزنہیں ہوتے۔ ان تینوں میں سے سب سے قابلِ قدر وہ لوگ ہیں جو عملِ پیہم، عزمِ صمیم اور جہدِ مسلسل سے زندگی میں اپنے خوابوں کو حقیقت کا روپ دیتے ہیں اور حالات کی سختیاں اور سنگینیاں برداشت کرتے ہوئے مشکلات کے باوجود ہمت و حوصلہ نہیں ہارتے اور اپنی منزل کے حصول کو یقینی بنانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ یہی وہ عظیم لوگ ہیں جو جیت کی لگن سینے میں بسائے، جوش و ولولہ کا پیکر بن کر شبِ ظلمت میں اپنے حصے کا دیپ جلاتے ہیں اور کامیابی کا استعارہ بن کر دوسروں کے لیے ایک روشن مثال بن جاتے ہیں۔یہ عظیم و کامیاب لوگ تاریخ کے ماتھے کا جھومر ہیں اور ایسی کئی درخشندہ مثالیں موجود ہیں جن سے ہم بھی سبق سیکھ کر اپنی زندگی کے راستوں میں بچھائے گئے کانٹوں کو ہٹا کر اپنے باغِ تمنا میں رنگِ بہارکی سب رعنائیاں اور گلاب رُت کے سارے شباب جی بھر کر دیکھ سکتے ہیں۔ 
سکاٹ لینڈ کا بادشاہ رابرٹ بروس ایک بہادر اور با ہمت حکمران تھا اور اس نے انگریزی افواج کے خلاف کئی جنگیں لڑیں مگر ہر مرتبہ شکستِ فاش اس کا مقدر ٹھہری۔ ایک مرتبہ وہ میدانِ جنگ سے بھاگ کھڑا ہوا اور پہاڑوں میں چھپ گیا۔ ایک غار میں بیٹھا وہ یہ فیصلہ کر چکا تھا کہ اس ہزیمت ناک شکست اور میدان سے بھاگنے کے بعد اب اسے مزید لڑائی نہیں لڑنی اور ہمیشہ کے لیے ہتھیار ڈال دینا ہیں ۔اس فکری کشمکش میں اس نے دیکھا کہ ایک مکڑی اپنا جالا بُننے میں مصروف ہے اور ریشمی دھاگے سے لٹکتے ہوئے اوپر جا لے تک پہنچنے کی کوشش میں مصروف ہے مگر جونہی وہ ایک خاص مقام سے تھوڑا اوپر جاتی ہے تو نیچے گر جاتی ۔ یہ منظر نو مرتبہ اس کے سامنے دہرایا گیا۔ رابرٹ بروس نے نویں مرتبہ جب دیکھا تو اس نے سوچ لیا کہ اب مکڑی تھک ہار کے بیٹھ جائے گی اور مزید کاوش نہیں کرے گی مگر اس کی سوچ کے برعکس مکڑی نے دسویں مرتبہ پھر ہمت کی اور بالآخر اپنے جالے تک پہنچنے میں کامیاب ہو گئی۔ اس سے بادشاہ کو بھی سبق ملا اور اس نے واپس جا کر نئے عزم و ولولے کے ساتھ انگریزی افواج پر فیصلہ کن حملہ کیا اور سکاٹ لینڈ کو ہمیشہ کے لیے آزاد کرا لیا۔ یہ سب مسلسل محنت، عزمِ صمیم اور جیت کی لگن کی بدولت ہی ممکن ہوا۔
اسی طرح تاریخِ انسانی میں بے شمار ایسی شاندار مثالیں موجود ہیں جو ہمارے لیے مشعلِ راہ ہیں۔ شہرہ آفاق سائنسدان تھامس ایڈیسن کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں جس کی منفرد ایجاد بلب نے دنیا کو ہمیشہ کے لیے روشن کر دیا،اس کے علاوہ بھی ایڈیسن نے لگ بھگ ایک ہزار ایجادات اپنے نام کی ہیں۔ سکول کے زمانہ میں ایک روز اس کے پرنسپل نے اسے ایک لفافہ بند خط دیا کہ اپنی والدہ کو دے دینا۔ جب وہ خط اس کی والدہ نے پڑھنا شروع کیا تو ان کی آنکھوں سے آنسو مچل پڑے، ایڈیسن نے والدہ سے پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ خط میں لکھا ہے کہ آپ کا بچہ انتہائی ذہین اور قابل ہے مگر ہمارے اوسط درجے کے اساتذہ اسے نہیں پڑھا سکتے لہٰذا آپ اسے خود گھر پر پڑھائیں۔ ایڈیسن کی والدہ نے خوب محنت سے اسے پڑھایا اور بالآخر وہ ایک عظیم سائنسدان بننے میں کامیاب ہو گیا۔ والدہ کے انتقال کے بعد ایک روز وہ گھر کے کاغذات میں کچھ تلاش کر رہا تھا کہ اسے اپنی الماری میں وہ سکول والا خط نظر آیا، اس نے وہ خط پڑھا تو حیران رہ گیا، اس میں لکھا تھا ''آپ کا بچہ انتہائی کند ذہن اور نالائق ہے جسے ہم مزید نہیں پڑھا سکتے اور ہم نے اسے سکول سے نکال دیا ہے لہٰذا آپ خود اس کی تعلیم کا بندوبست کریں۔‘‘ یہ پڑھ کر ایڈیسن بہت رویا اور یہ تاریخی جملہ بولا ''تھامس ایلوا ایڈیسن بنیادی طور پر ایک کند ذہن بچہ تھا جسے اس کی عظیم ماں نے ایک جینیئس بنا دیا‘‘۔ اسی طرح البرٹ آئن سٹائن بھی اپنی ابتدائی تعلیم میں مشکلات کا شکار رہا اور اس کی تعلیمی قابلیت پر بے شمار سوالات اٹھائے گئے۔ مائیکرو سافٹ کے بانی بل گیٹس اور شہرہ آفاق شخصیت سٹیو جابز اپنے تعلیمی سفر کو مکمل نہ کر سکے۔ ان سب کے اساتذہ کی ان کے بارے میں رائے قابلِ تحسین نہ تھی مگر انہوں نے ہمت نہیں ہاری، مسلسل محنت اور بے پناہ ولولے کے ساتھ تاریخ میں اپنا نام سنہرے حروف میں لکھوایا۔ زندگی کبھی پھولوں کی سیج نہیں رہی اور عظیم لوگوں نے راستوں سے کانٹے ہٹا کر اسے خود کامیابی کی شاہراہ بنایا ہے ورنہ عام لوگ ہمیشہ مشکلات، نا مساعد حالات اور راستے کی رکاوٹوں کا گلہ کرتے رہتے ہیں اور مناسب وقت اور حالات کے انتظار میں اپنی توانائیاں اور وقت‘ دونوں برباد کر دیتے ہیں۔ یہ اپنی ناکامیوں کی ذمہ داری حکومت، نظام کی خرابیوں اور معاشرے کی معاشی اور سماجی نا ہمواریوں کے نام کر دیتے ہیں۔
ہم تاریخ کے اوراق پلٹ کر دیکھتے ہیں تو جارج واشنگٹن سے لے کر تھامس جیفرسن تک، مائیکل اینجلو سے لے کر پکاسو تک‘ ابراہم لنکن سے لے کر براک اوباما تک، جو بائیڈن سے لے کر کملا ہیرس تک، سب عظیم اور کامیاب ترین شخصیات کی کامیابی کے پیچھے عزم و ہمت کی ایک لازوال داستان ملتی ہے اور عملِ مسلسل اور مضبوط ترین قوتِ ارادی کی بے مثال کہانیاں۔ اُن تاریخ ساز ہستیوں نے اپنی ناکامیوں، پریشانیوں، مسا ئل اور حوادثِ زمانہ سے روگردانی کرنے کے بجائے اُن کو اپنی طاقت بنا کر حالات سے لڑنے کا فیصلہ کیا۔ وہ مسلسل گرتے رہے، پھسلتے رہے، ڈگمگاتے رہے مگر پھر اٹھ کھڑے ہوئے اور سینہ تان کر میدان میں نکل پڑے اور پھر جیت کی لگن کو اپنا سب سے مضبوط ہتھیار بنا کر منزل کو حاصل کرنے کے لیے آبلہ پا چلتے رہے۔کھیل کا میدان ہو یا سیاست، کاروبار ہو یا تجارت، طب ہو یا فنونِ لطیفہ، خطابت ہو یا تحقیق‘ زندگی کے ہر شعبہ میں منفرد مقام یا ممتاز حیثیت حاصل کرنے کے لیے خود اعتمادی، محنت پر یقینِ محکم اور جہدِ مسلسل پر ایمان دراصل انسان کی کامیابی کی ضمانت ہیں۔ تاریخ شاہد ہے کہ اگر آپ جیت کی لگن پر یقین کر لیں تو پھر لگن کی جیت یقینی ہے اور آپ کے خواب آپ کی عملی زندگی میں دھنک رنگ بھر دیں گے اور کامیابی آپ کی خدمت پر مامور ہو جائے گی۔ ورنہ چھوٹی سی ناکامی پر واویلا کرنے والوں اور ہلکی سی پریشانی لاحق ہونے پر مایوس ہو جانے والوں کی منزل کوسوں دور چلی جاتی ہے۔ بقول حنفی غلام ہمدانی ؎
حسرت پہ اس مسافر بے کس کی روئیے 
جو تھک گیا ہو بیٹھ کے منزل کے سامنے

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں