تجدید ِ عہد ِ وفا

بانیٔ پاکستان قائداعظم محمد علی جناح نے عملی سیاست کا آغاز کانگریس کے رکن کی حیثیت سے کیا تھا اور بہت جلد چوٹی کے رہنمائوں میں اپنا مقام ومرتبہ بنا لیا، آپ کانگریس کے ساتھ ساتھ مسلم لیگ میں بھی بہت مقبول تھے، یہی وجہ ہے کہ 1916ء کا میثاقِ لکھنو آپ کی مدبرانہ سیاست اور تحمل وبرداشت کے جذبے کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اس سنگ میل کے حصول پر آپ کو ہندو مسلم اتحاد کا سفیر بھی کہا گیا مگر بہت جلد آپ پر کانگریس کی سیاسی تنگ نظری اور محدود سوچ آشکار ہونے لگی، بالخصوص تحریکِ خلافت، تجاویزِ دہلی اورنہرو رپورٹ میں یہ امر بالکل واضح ہو گیا تھا کہ برہمن کسی صورت بھی برصغیر کے مسلمانوں کے سیاسی مفادات اور معاشی حقوق کے تحفظ کیلئے سنجیدہ نہیں بلکہ اُن پر کاری ضرب لگانے کیلئے کوئی بھی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا۔ یہی وجہ تھی کہ قائداعظم نے کانگریس سے راہیں ہمیشہ ہمیشہ کیلئے جدا کر لیں اور نہرو رپورٹ کے جواب میں چودہ نکات پر مبنی ایک جامع اور مربوط سیاسی پروگرام مرتب کرکے آل انڈیا مسلم لیگ کی قیادت کے سامنے پیش کیا اور اسے منظور کروایا۔ رہی سہی کسر1937ء میں نکال دی گئی جب مسلمانوں کے مذہبی عقائد اور عبادت گا ہوں کو نشانہ بنایا گیا اور مساجد کی بے حرمتی کی گئی۔ اس پر یہ بات ایک مسلمہ حقیقت کے طور پر واضح ہوگئی کہ متحدہ ہندوستان میں ہندو اکثریت کی جانب سے اقلیتی مسلمانوں کے ساتھ بہت غیر مناسب سلوک روا رکھا جائے گا اور انگریزوں سے آزادی کے ساتھ ساتھ ہندوستان کی تقسیم ہی مسلمانوں کے مذہبی عقائد، سیاسی حقوق، معاشی خوشحالی اور ثقافتی ورثے کے تحفظ کی ضمانت بن سکتی ہے لہٰذا برصغیر پاک وہند کے مسلمانوں کیلئے ایک الگ مملکت کا قیام لازم تھا جس کا خواب علامہ اقبال نے خطبہ الٰہ آباد میں دکھایا تھا اور اپنے اس تصور کو بڑی وضاحت سے پیش کیا تھا۔
اس تناظر میں آل انڈیا مسلم لیگ کے ستائیسویں سالانہ اجلاس کا انعقاد منٹو پارک لاہور میں کیا گیا اور تین روز جاری رہنے والے اس تاریخی اجلاس میں جنوبی ایشیا کے مسلمانوں کیلئے ایک الگ اور خود مختار ملک بنانے کیلئے چار سو الفاظ پر مبنی، چار پیرا گراف پر مشتمل ایک قرارداد پیش کی گئی جیسے قراردادِ لاہور کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ یہ قرارداد بنگال کے وزیراعلیٰ شیرِ بنگال اے کے فضل الحق نے پیش کی تھی جس کی تائید چوہدری خلیق الزماں، مولانا ظفر علی خان، سر عبداللہ ہارون، سردار اورنگزیب، نواب اسماعیل، قاضی محمد عیسیٰ اور بیگم محمد علی جوہر نے کی تھی۔ اس تاریخی قرارداد میں یہ کہا گیا تھا کہ ''آل انڈیا مسلم لیگ کے اجلاس کی یہ مسلمہ رائے ہے کہ کوئی بھی آئینی منصوبہ اس ملک میں قابل عمل اور مسلمانوں کیلئے قابل قبول نہیں ہوگا تاوقتیکہ وہ مندرجہ ذیل اصول پر وضع نہ کیا گیا ہو؛ جغرافیائی طور پر متصلہ علاقوں کی حد بندی ایسے خطوں میں کی جائے جن علاقوں میں مسلمانوں کی اکثریت ہے مثلاً ہندوستان کے شمال مغربی اور مشرقی حصے، ان کی تشکیل ایسی '' آزاد ریاستوں‘‘ کی صورت میں کی جائے جس کی مشمولہ وحدتیں خودمختار اور مقتدر ہوں نیز ان وحدتوں اور خطوں میں اقلیتوں کے مذہبی، ثقافتی، معاشی، سیاسی، انتظامی اور دیگر حقوق ومفادات کا مناسب، موثر اور حتمی تحفظ اُن کے مشورے سے آئین میں وضاحت کے ساتھ پیش کیا جائے‘‘۔ قراردادِ لاہور کا پاس ہونا تھا کہ ہندو سیاسی رہنمائوں اور اخبارات نے آسمان سر پر اٹھا لیا اور تمام بڑے اخبارات‘ جن میں بندے ماترم، پرتاب، ملاپ، اور ٹریبیون شامل تھے‘ نے قراردادِ لاہور کو قراردادِ پاکستان کہنا شروع کر دیا حالانکہ پوری قرارداد کے متن میں کہیں بھی لفظ ''پاکستان‘‘ استعمال نہیں کیا گیا تھا، البتہ بیگم محمد علی جوہر نے اپنے خطاب میں اسے قراردادِ پاکستان ضرور کہا تھا۔ قائداعظم محمد علی جناح اور مسلم لیگی قیادت نے اسے ایک چیلنج کے طور پر قبول کیا اور قراردادِ پاکستان کو سیاسی جدوجہد کا مرکزی نقطہ بنا دیا اور پھر محض سات سال کی قلیل مدت میں دنیا کے نقشے پر پاکستان ایک آزاد اور خودمختار ریاست کے طور پر معرض وجود میں آ گیا جو کسی کرشمے سے کم نہیں تھا۔
یاد رہے کہ اسی تاریخی اجلاس سے بانیٔ پاکستان نے تقریباً سو منٹ تک خطاب کیا تھا، آپ نے اپنی تقریر کا آغاز اُردو زبان میں کیا، چونکہ آپ برطانوی سامراج کے ساتھ ساتھ پوری عالمی سیاسی قیادت سے بھی مخاطب تھے اور بین الاقوامی برادری کے سامنے پاکستان کے قیام کے اغراض ومقاصد تفصیل سے رکھنا چاہتے تھے، اس لیے جلد ہی انگریزی زبان میں گفتگو شروع کر دی۔ آپ نے دنیا کو باور کرایا کہ کس طرح ہندوستان میں دو مختلف قومیں، متضاد تہذبیں اور تاریخی اعتبار سے الگ قسم کے لوگ آباد ہیں جن کی معاشرت، معیشت، ثقافت، سیاست اور رہن سہن بالکل منفرد ہے۔ قائداعظم نے فرمایا کہ ہندو معاشرہ ذات پات پر مبنی ہے جبکہ اسلام میں کسی شخص کو دوسرے پر محض رنگ ونسل کی بنیاد پر کوئی برتری نہیں اور نہ ہی لسانی یا گروہی بنیاد پر کسی کو فوقیت حاصل ہے بلکہ مسلمان معاشرہ عدل وانصاف، اخوت اور مساوات کے سنہری ابدی اصولوں پر قائم کیا گیا ہے لہٰذا ہندو اور مسلمان کسی صورت بھی اکٹھے نہیں رہ سکتے اور مسلمانوں کی مذہبی آزادی اور سیاسی خود مختاری کا واحد حل ہندوستان کی تقسیم اور پاکستان کے قیام میں ہی مضمر ہے۔ یہی نظریہ پاکستان دو قومی نظریے کی اساس بنا اور قیام پاکستان کا سب سے مؤثر محرک بھی ثابت ہوا۔ بانیٔ پاکستان کے خطاب کا خصوصی پہلو سامعین کا پورے انہماک اور یکسوئی کے ساتھ یہ خطاب حرف بحرف سننا تھا، سامعین اگرچہ انگریزی زبان سے ناواقف تھے مگر اُن کا ایمان تھا کہ قائداعظم جوکچھ بھی کہہ رہے ہیں‘ وہ بالکل سچ اور ایک اٹل حقیقت ہے۔
حسبِ توقع کانگریس رہنمائوں اور ہندو قائدین کا ردعمل بڑا سخت تھا۔ گاندھی اور نہرو سمیت سب رہنما دو قومی نظریے کے خلاف زہر اگلنا شروع ہو گئے اور مسلمانوں کیلئے الگ مملکت کے قیام کے مطالبے کو یکسر مسترد کر دیا گیا اور اسے ہندوئوں کے خلاف اعلانِ جنگ کے مترادف سمجھا گیا۔ یہ الگ بات ہے کہ قائداعظم اور مسلم لیگی قیادت نے اس ہرزہ سرائی کو خاطر میں لائے بغیر شبانہ روزکاوشوں کا دائرہ بڑھا دیا اور ایک لمحے کیلئے بھی پیچھے مڑ کر نہ دیکھا جب تک کہ پاکستان کے حصول کا خواب شرمندۂ تعبیر نہیں ہو گیا۔ یوں پاکستان ایک آزاد اور خودمختار ملک بن کردنیا کے نقشے پر ابھرا۔ یہی وجہ ہے کہ بھارت نے آج تک پاکستان کے وجود کو دل سے تسلیم نہیں کیا اور شروع دن سے ہی اس کے لیے مشکلات اور مسائل کے پہاڑکھڑے کرتا آیا ہے۔ وسائل کی تقسیم میں بھی بندر بانٹ کی گئی۔ ریڈکلف ایوارڈ میں بھی پاکستان کے کئی علاقے بھارت میں شامل کر دیے گئے اور کشمیر وادیٔ جنت نظیر کو ایک جعلی معاہدے کے تحت بھارت کے حوالے کر دیا گیا حالانکہ اس کی اکثریت آبادی مسلمانوں پر مشتمل تھی جو پاکستان کے ساتھ الحاق چاہتی تھی۔ اس تنازع پر اب تک بھارت تین مرتبہ پاکستان پر جنگ مسلط کر چکا ہے اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کے باوجود کشمیر یوں کے تسلیم شدہ حقِ خودارادیت کو ماننے سے انکاری ہے بلکہ 5 اگست 2019ء سے وہاں بدترین کرفیو اور لاک ڈائون نافذکرکے جبر کے زور پر معصوم نہتے کشمیریوں کے ساتھ آگ اور خون کا کھیل کھیلا جا رہا ہے۔ علاوہ ازیں بھارت میں بسنے والی اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کا وہاں جینا بھی دوبھر کیا جا رہا ہے اور مسلمانوں پر زندگی کا قافیہ تنگ کر دیا گیا ہے۔ یہ تمام حالات آج بھی قائداعظم کی سیاسی بصیرت اور دور اندیشی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ ہمیشہ کی طرح امسال بھی یومِ پاکستان پورے جوش وخروش اور عقیدت واحترام سے منایا گیا۔ پاکستان کو درپیش اندرونی اور بیرونی خطرات کی بدولت وقت کا اہم تقاضا ہے کہ ہم تحریکِ پاکستان کے فقیدالمثال جذبے اور لازوال ولولے کو دوبارہ زندہ کرتے ہوئے پاکستان کو حقیقی معنوں میں قائداعظم کا پاکستا ن بنانے میں اپنا مثبت کردار ادا کریں اور عام پاکستانی کیلئے خوشحالی اور معاشی استحکام یقینی بنانے کیلئے یکساں مواقع میسرکریں تاکہ ایک خودمختار،خوشحال اور خوددار پاکستان کا خواب شرمندۂ تعبیر ہو سکے۔ تجدیدِ عہدِ وفا کی ضرورت جتنی آج ہے اتنی شاید پہلے کبھی نہ تھی۔ آئیں! مل کر اپنی ارضِ پاک سے ایک بار پھر یہ وعدہ کریں:
تم سے اپنا یہ وعدہ ہے میرے وطن
تجھ سے تیرے اندھیرے مٹائیں گے ہم

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں