یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ برطانوی سامراج نے برِصغیر پاک وہند میں پہلے ایسٹ انڈیا کمپنی کے روپ میں قدم رکھا اور پھر آہستہ آہستہ تجارت کے ذریعے سیاست کے ایوانوں میں اپنے پنجے گاڑنا شروع کردیے اور بالآخر1857ء کی جنگ ِآزادی کے بعد برطانیہ کی ملکہ کوئین وکٹوریہ نے لارڈوارن ہیسٹنگزکو اپنا پہلا گورنر جنرل نامزد کرکے برصغیر میں اپنی شہنشاہیت اور استعمارکو باقاعدہ رائج کردیا۔ یوں یہ خطۂ ارضی، اس کے تمام وسائل اور مقامی باشندے گورنر جنرل یا وائسرائے کے کنٹرول میں دے دیے گئے۔ اس سامراجی نظام کے فروغ، دوام اور تحفظ کویقینی بنانے کیلئے اس کے واحد نمائندے گورنر جنرل کی شان وشوکت، جاہ و جلال، رعب ودبدبہ، غیظ وغضب اور طاقت کی نمائش کرنا لازمی ٹھہرا تاکہ وہ مطلق العنان طاقتور تاجِ برطانیہ کی حکومت یہاں قائم کرسکے اورکسی کو اس کے سامنے انکار، اختلاف یابغاوت کا موقع نہ مل پائے۔ اگر ایسا امکان بھی پیدا ہو تو اس کا سرکچل دیاجائے۔ اس سارے عمل میں مقامی پولیس، انتظامیہ اور دیگر اداروں کو خطیررقوم، تنخوا ہیں، مراعات، عالیشان بنگلے، پرشکوہ رہائش گاہیں، اعزازات، سرکاری پر وٹوکول اور جاہ وحشم سے نوازا گیا تاکہ نہ صرف سرکاری افسران کارعب ودبدبہ عوام میں مقبول ہوجائے بلکہ تاجِ برطانیہ کے ساتھ غیر مشروط وفاداری اور تابعداری کو بھی ممکن بنایا جاسکے۔ یو ں سرکاری افسران میں تکبر، رعونت اور مقامی لوگوں سے نفرت کے جذبات ایک فطری عمل بن گیا، اس طر ح مقامی باشندے اپنے برطانوی آقائوں کے سامنے محض کیڑے مکوڑے بنادیے گئے۔ 1947ء میں برطانوی سامراج کا سورج برصغیر میں غروب ہوااور بھارت اور پاکستان کے روپ میں دو آزاد ممالک دنیاکے نقشے پر ابھرے۔ بدقسمتی سے پاکستان کو آئینی، قانونی اور انتظامی ڈھانچہ برطانیہ سے ورثے میںملا اور ایک آزاد ملک بننے کے باوجود یہا ں پر طاقت اور اختیارات کی اندرونی کشمکش شروع ہو گئی۔ پھریہ جنگ سیاست کے ایوانوں تک جاپہنچی۔ ابتدائی سالوں میں کئی حکومتیں بنیں اور ختم ہوئیں، وزر ائے اعظم آتے اور جاتے رہے اور سیاسی عدم استحکام مسلسل پاکستان کا پیچھا کرتا رہا۔ اس چوہترسالہ قومی تاریخ میں سول سروسز کو پاکستان کے آئین کے مطابق عوام دوست اور ذمہ دار بنانے کیلئے متعدد بار اصلاحات کے عمل سے گزاراگیا مگر بدقسمتی سے بیوروکریسی کی اکثریت خود کو بدلنے کیلئے تیار نظر نہیں آئی ۔ یہاں پر ایک اہم اور دلچسپ حقیقت کا ذکرا نتہائی اہمیت کا حامل ہے اور وہ ہے تاجِ برطانیہ اور اس کے حکمرانوںکا اپنے ملک کے عوام کے ساتھ تعلق اور طرزِ حکمرانی جو آقا اور غلام کے بجائے عوام دوست تھا اور عوام کے سامنے مکمل طورپرجواب دہ بھی۔ وہاں پر حاکم اور عایا والا معاملہ نہ تھا بلکہ سرکاری افسران اور عہدیداران اپنی عوام کی خدمت کو اپنی اولین ترجیح سمجھتے تھے اور انہیں سہولتیں اور بنیادی ضروریات کی فراہمی کو یقینی بنانے کیلئے بے لوث خدمات سرانجام دینے کو اپنے لیے سندِافتخار سمجھتے تھے مگر بدقسمتی سے غلام ریاستوں کے عوام کے ساتھ تاج ِبرطانیہ کا طرز ِحکمرانی عدل وانصاف اور مساوات سمیت تمام انسانی حقوق کی نفی سے عبارت رہا۔ اس سے بڑا سانحہ یہ ہوا کہ پاکستانی حکمران آزادی کے بعد بھی اپنے عوام کو حقیقی انصاف، مساوات اور انسانی حقوق کی فراہمی یقینی نہ بنا سکے بلکہ گورے صاحب بہادر کی جگہ ''برائون صاحبان‘‘ اپنے ہی لوگوں کو غلام بنا نے اور اُن کا استحصال کرنے میں جُت گئے اوریوں حکومت اور عوام کے درمیان عدم اعتما د ی کی خلیج بڑھنے لگی اور عوام کا حکومتی مشینری سے اعتماد اٹھنے لگا جس کا نتیجہ آج ہمارے سامنے ہے۔
مگر ایسا بھی نہیں کہ پاکستان کے انتظامی اور سماجی اداروں میں سبھی کرپٹ، بدعنوان یا بددیانت تھے۔ جہاں سول بیوروکریسی میں کرپشن پروان چڑھی، بدعنوانی عام ہوئی اور عدم انصاف کی مثالیں فروغ پائیں‘ وہیں پر اس نظام میں موجود کرپٹ عناصر کے خلاف نفرت بھی دیکھنے میں آئی اور اس کے ردِعمل میں انتظامیہ، عدلیہ اور پولیس کے ایسے درخشندہ ستارے بھی پاکستانی اُفق پر پوری آب وتاب سے چمکے جنہوں نے پیشہ ورانہ دیانت داری، منصبی ذمہ داری اور انسان دوستی کی فقیدالمثال داستانیں رقم کیں اور پاکستان کو اقوامِ عالم میں اک باعزت مقام دلانے میں اپنا خون پسینہ ایک کرکے ارضِ وطن کانا م روشن کیا اور اس مٹی کی وفامیں وہ قرض بھی چکا دیے جو شایدواجب ہی نہ تھے۔ ان وفاشعار، دیانتداراور ذمہ دار بیوروکریٹس نے اپنی ذات سے بہت آگے جاکر پاکستانی عوام کی خدمات کواپنے لئے سندِ اعزازسمجھا ۔ انہی سجیلے جوانوں اور قابلِ فخر بیٹوں میں سے ایک عظیم سپوت ناصر خان دُرانی تھے جنہیں اب مرحوم لکھتے ہو ئے قلم کا نپ اُٹھاہے۔
وہ تقریباً پینتیس سال سے زائد عرصہ تک پولیس سروس آف پاکستان کے ماتھے کا جھومر رہے۔ انہوں نے سی ایس ایس کا امتحان پاس کرکے 1982ء میں بطور اے ایس پی اپنے کیریئر کا آغاز کیا اور روزِاول سے ہی میرٹ، حق گوئی، راست بازی، دیانت داری اور عوام دوستی کا پیکربن کر دوسروں کیلئے قابلِ رشک اور قابلِ تقلید نمونہ بن گئے۔ جھنگ او ر سیالکوٹ سمیت پنجاب کے آٹھ مشکل اضلاع میں پولیس کی کمانڈ سنبھالی اور مجرموں کی سر کوبی اور جرائم کا قلع قمع کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔وہ ہمیشہ مظلوم، غریب اور بے بس عوام کی جان، مال اور عزت کے تحفظ کو مذہبی فریضے جتنی اہمیت دیتے تھے اور بڑے سے بڑے سیاسی دبائو کو بالائے طاق رکھ کر عدل و انصاف کے تمام تقاضے پورے کرتے تھے۔ 1998ء میں پنجاب کے تھانہ کلچر کو تبدیل کرنے اور اسے عوام دوست بنانے کیلئے جب 300پڑھے لکھے انسپکٹرز کو پنجاب پبلک سروس کمیشن کے ذریعے بھرتی کا عمل مکمل ہوااور اُن کی جدید خطوط پر پولیس کالج سہالہ میں تربیت کا مرحلہ آیا تو اس کورس کے نگران کے طور پر جناب ناصر خان درانی کے نام پرہی اتفاق کیا گیا جنہوں نے پوری تندہی اور پیشہ ورانہ مہارت سے ان افسران کی مثالی تعلیم وتربیت کی۔ بطور ایس ایس پی اسلام آباداور ایڈیشنل آئی جی سپیشل برانچ پنجاب بھی انہوں نے گراں قدر خدمات سرانجام دیں۔ 2013ء میں جب خیبر پختو نخوا میں پی ٹی آئی کی حکومت وجود میں آئی تو صوبے میں دہشت گردی کے خاتمے اور صوبائی پولیس کوصحیح معنوں میں عوام دوست بنانے کیلئے ایک مرتبہ پھرجناب ناصر درانی ہی کا انتخاب کیا گیا جنہوں نے تین سال سے زائد عرصہ میں خیبر پختوانخوا کی پولیس میں اَن گنت اصلاحات کیں، اس کے اندر موجود کالی بھیڑوں کو سخت سزائیں دے کر عبرت کا نشان بنایا اور یوں صوبائی پولیس ایک رول ماڈل بن کر ابھری جس کی پیشہ ورانہ خدمات اور عوام دوستی کی مثالیں عام ہوئیں۔ دُرانی صاحب نے اپنے سارے کیریئر میں غریب، بے بس اور مظلوم افراد سے بے پناہ محبت کی اور اُن کیلئے ہر ظالم، سفاک اور طاقتور کا مقابلہ کیا۔
گزشتہ دنوں وہ مہلک وبا کورونا کی تیسری لہر کا شکار ہو کر دار ِفانی سے رخصت ہوئے تو سوشل میڈیا پراُن کی بطورآئی جی الوداعی تقریر کا ایک حصہ وائرل ہوا جس میں وہ اپنے افسران اور ملازمین کو نصیحت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ انہیں ہمیشہ مظلوم اور بے کس کا ساتھ دینا چاہیے اور وی آئی پی کے خوف اور دبائو سے مر عوب نہیں ہونا چاہیے کیو نکہ وی آئی پی تو محض اُن کا تبادلہ کرے گا یا کروا دے گا جبکہ اصل وی وی آ ئی پی وہ مظلوم اور بظاہرپھٹے پُرانے کپڑے پہنے ہوئے سائل کے روپ میں سامنے آتا ہے جس کے پاس اللہ تعالیٰ کا کارڈ ہوتا ہے اور اس کا رابطہ ''گرین لائن‘‘ سے براہِ ِراست ربِ کائنات سے جڑا ہوتا ہے اورا گراس نے ہماری شکایت ربِ دوجہاں سے کر دی تو ہمارے پلے کچھ بھی نہیں رہنا۔ پاکستان میں سرکاری پروٹوکول کے مطابق چند اعلیٰ ترین عہدیداران ہی وی وی آئی پی ہیں مگردُرانی صاحب نے بڑی عمدگی سے اصل وی وی آئی پی سے متعارف کرایا۔ مجھے فخر ہے کہ میں بھی اس عظیم شخصیت کے زیرِتربیت رہا اوراب اُن کے بتائے ہوئے سنہری اصولوں کی عملداری کاسفرجاری ہے۔ اللہ تعالیٰ ناصر خان دُرانی (مرحوم)کو اپنے جوارِرحمت میں خاص مقام عطافرمائے اور ان کے خاندان اور چاہنے والوں کو صبرِجمیل کی نعمت سے سرفرازکرے، آمین!