افراد ہوں یا اقوام‘ ادارے ہوں یا تنظیمیں، معاشرے ہوں یا ممالک، کامیابی کے راستے میں پائے جانے والے کانٹوں سے الجھے بغیر اور سفر کے مصائب و آلام کا دلیری اور حکمتِ عملی سے مقابلہ کیے بغیر منزل تک نہیں پہنچا جا سکتا، نہ ہی بڑے مقاصد کا حصول یقینی بنایا جا سکتا ہے۔ قوموں کی زندگی میں آئے کٹھن مراحل کا مقابلہ کرنے اور مشکلات سے لڑنے کے طور طریقے سے ہی اس قوم کے اجتماعی کردار کا اندازہ لگایا جاتا ہے۔ نومبر 2019ء میں چین کے صوبے ووہان سے شروع ہونے والی کورونا وبا نے 2020ء کی پہلی سہ ماہی تک پوری دنیا کو اپنے خونیں پنجوں میں بری طرح جکڑ لیا تھا۔ انسانی زندگی مفلوج ہو کر رہ گئی تھی، صنعتی ترقی کا پہیہ جام ہونے لگا تھا، عالمی معیشت پر نحوست چھانے لگی تھی، بیروزگاری کے سائے چہار سو منڈلانے لگے تھے۔ خوف، گھبراہٹ، جذباتیت، ہیجان اور نفسیاتی دبائو کے ان لمحات میں پاکستان حکومت، مسلح افواج اور دیگر ریاستی اداروں نے بروقت اور درست فیصلے کر کے پاکستان کے عوام کو اس خطرناک غیر مرئی دشمن سے محفوظ بنانے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔ جنگی بنیادوں پر اقدامات کیے گئے اور خود وزیراعظم پاکستان نے ایک ٹھوس، مربوط اور قابلِ عمل حکمت عملی وضع کی جس کا بنیادی نکتہ پاکستان کے غریب اور پسے ہوئے طبقے کے روزگار کے تحفظ کو یقینی بنانا تھا۔
امریکا، یورپ، برطانیہ، آسٹریلیا اور کینیڈا جیسے ترقی یافتہ ممالک نے کورونا سے نمٹنے کیلئے اپنے ممالک میں مکمل لاک ڈائون کی پالیسی اپنائی مگر پاکستان نے اس کے برعکس جزوی بندش یا سمارٹ لاک ڈائون کو ترجیح دی۔ وزیراعظم نے دوٹوک الفاظ میں اپنے موقف کی کئی بار وضاحت کی کہ پاکستان کورونا کے خلاف جنگ میں اپنے غریب طبقے کو فاقہ کشی اور بیروزگاری کے عذاب میں مبتلا نہیں کر سکتا لہٰذا حکومت نے لوگوں کی زندگیوں کے ساتھ ساتھ اُن کے ذرائع معاش اور روزگارکو محفوظ بنانے کے لیے کئی عملی اقدام کیے۔ مائیکرواور سمارٹ لاک ڈائون کے ذریعے معیشت کے پہیے کو جام ہونے سے بچایا گیا اور صنعتی پیداوار پر منفی اثرات ڈالنے کے بجائے چھوٹی صنعتوں کو کم شرح سود پر آسان قرضوں سمیت دیگر سہولتوں کا اعلان کیا گیا۔ کاروباری طبقے کے اربوں روپے کے ریفنڈز کا اجرا یقینی بنایا گیا اور اس سلسلے میں ایف بی آر نے ایک شفاف نظام کے تحت ٹیکس گزاران کے بینک اکائونٹس میں ریفنڈز کی رقوم منتقل کیں۔ اسی طرح صنعتکاروں کووزیراعظم ریلیف پیکیج کے تحت کئی سالوں سے پھنسے ریفنڈز کا اجرا کر کے صنعتی ترقی اور پیداواری صلاحیت کو تیزی سے بڑھانے کی پالیسی پر عمل کیا گیا۔ اس کے ساتھ ساتھ مزدوروں اوردیہاڑی دار طبقے کے ایک کروڑ بیس لاکھ افراد کو احساس کفالت پروگرام کے ذریعے بارہ ہزار فی کس کے حساب سے امدادی رقم دی گئی جو اپنی نوعیت کا پہلا منصوبہ تھا۔ یوں گزشتہ پندرہ ماہ سے حکومت اور تمام ریاستی ادارے مل کر کورونا جیسی خطرناک وبا سے جنگی بنیادوں پر نبرد آزما ہو رہے ہیں اور بڑی حد تک اس کے پھیلائو کو روکنے اور نقصانات کو کم ترین سطح پر رکھنے میں کامیاب رہے ہیں۔ عالمی ادارۂ صحت سمیت پوری دنیا نے پاکستان کی کورونا کے خلاف حکمتِ عملی اور اس کے ثمرات کی دل کھول کر تعریف کی۔
ملکی معیشت کو مضبوط بنیادوں پر کھڑا کر نے کے لیے ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ تعمیراتی شعبے میں ایک بہت بڑا پیکیج متعارف کرایا گیا جس کا مقصد اس شعبے سے منسلک چالیس ذیلی صنعتوں میں کاروباری حجم کو بڑھانا اور ملک میں روزگار کے مواقع پیدا کرنا تھا۔ اس مقصد کے لیے گورنر سٹیٹ بینک کو خصوصی ہدایات دی گئیں کہ شرح سود کم کر کے آسان قرضوں کا اجرا یقینی بنایا جائے تاکہ عام آدمی بھی اپنا گھر بنانے کا خواب شرمندۂ تعبیر کر سکے۔ اس طرح زرعی شعبہ میں کسانوں کو ان کی فصل کی پوری قیمت اور بروقت ادائیگی کروانے پر زور دیا گیا تا کہ اُسے اپنی محنت کا پھل مل سکے اور پاکستان میں فوڈ سکیورٹی کو یقینی بنایا جا سکے۔ اگر کبھی آپ کسی کسان سے مل کر اس سے گنے کی فصل میں حاصل ہونے والی آمدن کا پوچھیں تو اس کی خوشی دیدنی ہوگی۔ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بارگنے سے اوسطاً تین لاکھ فی ایکٹر پیداوار ہوئی ہے اور اس سے زیادہ خوش آئند پہلو یہ ہے کہ اس مرتبہ شوگر مل مالکان کی بھتہ خوری، غنڈہ گردی، کٹوتی اور ناپ تول میں ڈنڈی مارنے جیسے کسی ہتھکنڈے کی سختی سے مزاحمت کی گئی اور ضلعی حکومت کے ذریعے کسانوں کو ان کی فصل کی پوری قیمت اور بروقت ادائیگی کروائی گئی۔ دنیا کے مقابلے میں اپنائی جانے والی مختلف حکمت عملی کے نتائج بھی مختلف متوقع تھے۔ ترقی یافتہ ممالک سمیت دنیا بھر میں مکمل لاک ڈائون ہوا، صنعتی پہہ جام ہوا اور معاشی بدحالی عام ہوئی مگر اس کے برعکس پاکستان میں لارج سکیل مینوفیکچرنگ شعبے میں بے پناہ پیداواری اضافہ دیکھنے کو ملا حتیٰ کہ ٹیکسٹائل سیکٹرمیں ڈبل شفٹ کام کرنے کے باوجود مزید آرڈر لینے کی گنجائش نہ رہی جس سے پاکستان کی برآمدات میں خاطرخواہ اضافہ دیکھنے میں آیا۔ یہ بات برملا کہی جا سکتی ہے کہ کوروناکے خلاف جنگ میں پاکستان نے کسی بوکھلاہٹ یا دبائو کا شکار ہوئے بغیر بڑی پائیدار، دوررس اور مربوط حکمتِ عملی سے نہ صرف کورونا کی مہلک وبا کا دلیری سے مقابلہ کیا اور پاکستانی عوام کو اس سے بڑی حد تک محفوظ رکھا، یہی وجہ ہے کہ پاکستانی معیشت کے تمام اشاریے مثبت پیش رفت دکھا رہے ہیں۔
رواں مالی سال کی شرح نمو 3.94 تک پہنچ چکی ہے اور یہ یقینا عالمی معاشی بحران اورکورونا کے منفی اثرات کے دور میں ایک قابلِ قدر کامیابی ہے۔ قومی معیشت کا مجموعی حجم 41.55 ٹریلین روپے سے بڑھ کر 47.09 ٹریلین ہو چکا ہے جو گزشتہ سال سے 14.8 فیصد زیادہ ہے۔ اسی طرح پاکستان میں فی کس سالانہ آمدنی 215060 روپے سے بڑھ کر 246414 روپے تک پہنچ چکی ہے۔ پاکستان کے زرعی شعبے میں گندم، چاول اور مکئی کی فصلوں میں ریکارڈ پیداوار دیکھنے کو ملی ہے۔ گنے کی فصل کی پوری قیمت اور بروقت وصولی نے کسان کو نیا عزم اور ولولہ دیا ہے اور وہ خود کو پہلے سے زیادہ خوشحال تصور کرتا ہے۔ صنعتی شعبے میں ٹیکسٹائل، خوراک، تمباکو، کیمیکل، آٹو موبل اور کھاد کے شعبوں میں پیداوار میں گراں قدر اضافہ ہوا ہے۔ تعمیراتی شعبے میں 8.34 فیصد جبکہ فنانس اور انشورنس سیکٹر میں 7.84 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔ ملک میں معاشی اشاریے بہتر ہونے کا ایک ثبوت سیمنٹ کی ریکارڈ پیداوار اورکھپت ہے جس میں44 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ اسی طرح ملک تجارتی خسارہ کم کرنے اور کرنٹ اکائونٹ کو سرپلس کرنے میں کامیا ب رہا ہے۔ ملکی برآمدات رواں مالی سال کے پہلے دس ماہ میں20.87 بلین ڈالر تک پہنچ چکی ہیں جو گزشتہ سال کے اس دورانیے سے 13 فیصد زیادہ ہیں۔ بیرونِ ملک پاکستانی 25 فیصد ریکارڈ اضافے کے ساتھ اس سال کے پہلے دس ماہ میں 2 بلین ڈالر سے زائد رقم پاکستان بھجوا چکے ہیں۔ سٹیٹ بینک کے منفرد روشن ڈیجیٹل اکائونٹ میں بیرونِ ملک پاکستانی ایک بلین ڈالر سے زائد رقم بھجوا چکے ہیں جویقینا پاکستانی معیشت پر اُن کے عتماد کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ سب سے زیادہ خوش آئند پہلو اور معاشی اشاریوں میں بہتری کا بین ثبوت ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایف بی آر کا رواں مالی سال کے پہلے گیارہ ماہ میں چار ٹریلین روپے سے زائد ٹیکس اکٹھا کرنا ہے جو یقینا ایک طرف ایف بی آر کی استعدادِ کار اور پیشہ ورانہ صلاحیتوں کی عکاسی کرتا ہے تو دوسری طرف ملک میں جاری معاشی سرگرمیوں کے حجم کا آئینہ دار ہے۔
وزیرِ خزانہ پہلے ہی شرح نمو کو اگلے مالی سال میں 6 فیصد تک لے جانے کا اعادہ کر چکے ہیں اور ساتھ ہی انہوں نے اس سلسلے میں اپنی حکمتِ عملی کے بنیادی نکات کی نشاندہی بھی کی ہے جس کے تحت چھوٹی صنعتوں اور کسانوں کو بلاسود اور آسان قرضوں کی فراہمی، قیمتوں میں کمی اور استحکام، بڑے ترقیاتی منصوبوں کا آغاز اورنچلے طبقے کو معاشی طور پر مضبوط بنانا اور غربت کی لکیر سے اوپر لانا شامل ہے۔ امید ہے کہ آنے والے دن پاکستان اور پاکستانی عوام کیلئے خوشحالی کی نوید بن کر آئیں گے اور مہنگائی، بیروزگاری اور غربت کی چکی میں پسنے والے لاکھوں خاندانوں کیلئے جینا محال اور زندگی وبال نہ ہو گی۔