پہلی سالگرہ

تخلیق اک حساس اور پیچیدہ عمل ہے جو تخلیق کار کے خونِ جگر سے نمو پاتا ہے اور عالمِ بالا سے اتر کر لوحِ قرطاس پر محفوظ ہو جاتا ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ جذبوں کی سچائی اور مشاہدات کی باریک بینی فن پاروں کو ابدی زندگی عطا کرتی ہے۔ ہر فنکار کیلئے اس کا ایک ایک فن پارہ شاہکارکا درجہ رکھتا ہے اور یوں اس کیلئے اس کے اپنے تخلیق کیے گئے فن پاروں میں امتیاز کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ شاعر کیلئے اس کا ہر شعر لازوال حیثیت رکھتا ہے تو مصّور اپنی ہر تصویر سے عشق کرتا ہے۔ اسی طرح ادیب اور قلمکار کو اپنے اِک اِک حرف سے پیار ہوتا ہے اور اس کیلئے اس کی ہر تحریر اپنے یگانہ اسلوب اور منفرد اندازِ بیاں سے اچھوتی تخلیق قرار پاتی ہے۔ مشہور برطانوی افسانہ نگار چارلس ڈکنز سے کسی نے پوچھا کہ اسے اپنا کون سا ناول سب سے زیادہ پسند ہے؟ اس نے برجستہ جواب دیا کہ اس کیلئے اس کے تمام ناولز ایک جیسے ہیں کیونکہ باپ کو اپنے تمام بیٹے یکساں پیارے ہوتے ہیں، اس کے ناولز اس کی اولاد کی طرح ہیں لہٰذا وہ ان سے ایک جیسی محبت کرتا ہے۔
'' دلِ ما روشن‘‘ میری اکلوتی اولاد ہے جسے گزشتہ برس بارہ جون کو روزنامہ دنیا کے ادارتی صفحات پر جگہ ملی اور ایک نوزائیدہ بچے کی طرح‘ پہلے اس نے بیٹھنا اور اٹھنا سیکھا‘ پھر آہستہ آہستہ چلنا شروع کر دیا اور اب مسلسل آگے بڑھتا دکھائی دیتا ہے۔ یہ پورا سال حالتِ سفر میں رہا، کبھی رکا نہ ہی پیچھے مڑ کے دیکھا بلکہ اپنی منزل کی کھوج میں آگے بڑھتا، سفر کاٹتا نظر آیا۔ آپ سب اس کے ہمرکاب بھی ہیں اور اس کی جہدِ مسلسل کے گواہ بھی۔ کل بارہ جون ہے اور اس کی پہلی سالگرہ‘ میں آپ سب کو شامل کر رہا ہوں اور ملتمس ہوں کہ آپ اس کی درازیٔ عمر کے ساتھ ساتھ اس کی صحت و سلامتی کیلئے بھی دعا گو رہیں۔
گزشتہ برس کورونا کے غیر مرئی جرثومے نے اچانک چہار سو پوری دنیا کو خوف اور موت کے خونیں حصار میں جکڑا تو پوری انسانیت پر سکتہ سا طاری ہو گیا۔ انسانی خوشیوں کے ماہتاب کو گرہن لگ گیا، کاروبارِ حیات بُری طرح متاثر ہوا، معاشی زندگی تباہی کی جانب گامزن ہونا شروع ہوئی، انسان‘ انسان سے بدکنے لگا، سماجی فاصلہ لازم ٹھہرا اور معاشرتی ڈھانچہ اپنی ساکھ کھونے لگا۔ ہر طرف ذہنی دبائو، نفسیاتی کشمکش، جذباتی ہیجان، خاندانی انتشار اور رشتوں میں بگاڑ نمایاں ہونے لگا۔ آنکھوں میں روشنی کے بجائے اندھیرا چھانے لگا اور مایوسی کی تیز ہوائوں نے دل میں جلنے والے امید و آرزو کے چراغ بجھانا شروع کر دیے۔ دنیا بھر میں لاک ڈائون نافذ ہوا تو گویا ساری دنیا اک جیل کا روپ اختیار کر گئی جس میں غربت، بیروزگاری اور مہنگائی عام ہوئی اور انسان کا جینا دوبھر ہوگیا۔ خاندانی جھگڑے معمول بن گئے اور بات گھریلو تشدد تک آ پہنچی‘ حتیٰ کہ طلاق کی شرح میں میں بھی ہوشربا اضافہ دیکھنے کو ملا۔ بے یقینی اور اضطرب کی کیفیت میں سوشل میڈیا پر طرح طرح کی افواہیں اور بدگمانیاں پھیلائی گئیں اور کبھی کبھی تو دنیا کے خاتمے کے آثار اور اسباب پر دلیلیں بھی دی جانے لگیں۔ میں نے ان حالات کا بغور جائزہ لیا اور شبِ ظلمت کا شکوہ کرنے کے بجائے اپنے حصے کا دیپ جلانے کا فیصلہ کیا۔ اگرچہ مجھے مکمل ادراک تھا کہ میرا کردار بھڑکتی ہوئی آتشِ نمرود کے دہکتے شعلوں پر اپنی چونچ میں پانی کی چند بوندیں بھر کر لانے والی چڑیا سے زیادہ نہ تھا‘ مگر پھر بھی میں نے کورونا کے خلاف جنگ آرائی کا فیصلہ کیا اور اپنے قلم کو کمان بنا کر الفاظ کے تیر دشمن کے ٹھکانوں پر برسانا اور چاروں طرف پھیلتی مایوسی اور بے یقینی میں امید، اثبات اور یقینِ محکم کے چراغ جلانے شروع کر دیے۔ اسی لیے کالم کا مستقل عنوان ''دلِ ما روشن‘‘ رکھا گیا اور سال بھر اس نے اپنے نام کی لاج رکھنے کی حتی المقدور کاوش کی۔
تقریباً بارہ ماہ میں پچاس مختلف موضوعات کو زیرِ بحث لا کر اپنی معلومات، مشاہدات، یادداشت، فکری استدلال اور علمی حوالوں کی روشنی میں ہفتہ وار کالم میں مثبت سوچ اور امید کے پیغام کو عام کرنے کا اعادہ کیا گیا۔ پاکستانی کامیاب نوجوانوں کی سبق آموز کہانیاں بھی بیان کی گئیں اور دنیا کے بڑے انسانوں کی سوانح عمری سے سبق حاصل کرنے کی جستجو بھی کی گئی تاکہ اُن کے نقشِ پا کو نشانِ منزل بنا کر بڑے خوابوں کو عملی حقیقت میں ڈھالنے کے اسباب تلاش کیے جائیں۔ پاکستانی معاشرت اور معیشت کے کج رویوں پر بات کی گئی اور سیاسی موضوعات سے دانستہ کنارہ کشی اختیار کر کے قومی مسائل اور اُن کے حل کی بابت سیر حاصل بحث کی گئی۔ کئی مرتبہ حتمی نتیجہ اخذ کرنے کے بجائے اسے قارئین پر چھوڑ دیا گیا۔ کشمیر کے معصوم نہتے مسلمانوں پر مودی سرکار کے ظلم و ستم کو اجاگر کیا تو غزہ کے معصوم فاتحین کو بھی خراجِ تحسین پیش کیا گیا اور مسجدِ اقصیٰ کے مسئلہ پر عالمی برادری کی منافقانہ روش اور مسلمانوں کی عمومی بے حسی کا نوحہ بھی پڑھا گیا۔ اسی کالم میں روحانی تسکین اور ذہنی سکون کے حصول کے مختلف ذرائع کی بات بھی ہوئی دنیاوی کامیابی کی تلاش میں بے قرار انسان کی مایوسی کی وجوہات بھی زیرِ بحث آئیں۔ پاکستانی نوجوانوں کو یقینِ محکم، عملِ پیہم اور جہدِ مسلسل پر مبنی شاعرِ مشرق حضرت ڈاکٹر علامہ محمد اقبالؒ کے فلسفۂ خودی سے بھی روشناس کرایا گیا اور قائداعظمؒ کی سیاسی بصیرت اور قانونی مہارت کے سبب تحریکِ پاکستان میں پے درپے کامیابیوں اور پاکستان کے خواب کو عملی حقیقت بنانے میں اُن کی عظمتِ کردار اور لازوال محنت کو بھی کالم کی زینت بنایا گیا۔ مگر ان تمام موضوعات کے تنوع اور جامعیت کے باوجود مرکزی نقطہ باغِ تمنا میں امید کے پھول کھلانے اور آمدِ بہار کی نوید سنانے پر مرکوز رکھا گیا۔
بہت سے قارئین، رفقاء کاراور ذاتی دوستوں کیلئے ''دلِ ما روشن‘‘ کا ظہور باعث تعجب بھی تھا اور باعثِ تشکر بھی۔ کئی سالوں سے میرے کئی ایک ذاتی دوست مجھے کالم لکھنے کی ترغیب دیتے آ رہے تھے اور اُن کا خیال تھا کہ مجھے علمی و فکری پختگی کا نچوڑ اور تاریخی حوالوں اور روز مرہ مشاہدات پر مبنی وسیع معلومات کا ذخیرہ کالم نگاری کے ذریعے آگے بیان کرنا چاہیے کہ یہی کالم نگاری کی بنیادی ضروریات ہیں۔ لہٰذا میرے کالم پر انہیں بے حد خوشی ہوئی۔ میرے بہت سے پرانے کلاس فیلوز کے لئے اس امر میں کوئی حیران کن پہلو نہیں تھا۔ البتہ سوشل میڈیا سے وابستہ چند احباب‘ جو مجھے ذاتی طور پر اتنا قریب سے نہیں جانتے تھے‘ کو ضرور تعجب ہوا اور کچھ کو پریشانی بھی مگر... سب سے یہی کہنا چاہوں گا کہ راتوں رات کالم نگار کوئی نہیں بن جاتا اس کیلئے عمر بھر کی فکری ریاضت، تعلیمی کارکردگی، تخلیقی استعداد اور عطائے ربانی کے بنیادی عناصر مل کر راہیں ہموار کرتے ہیں‘ میرے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔علمی و ادبی سوسائٹیز، ادبی مجلسوں کی ادارت، بیت بازی، ڈبیٹنگ کلب اور تقریری مقابلہ جات میں شرکت اور مختلف اردو اور انگریزی اخبارات میں وقتاً فوقتاً چھپنے والے مضامین ‘ میرے اس سفر کا حصہ تھے۔ اب وقت کی پابندی اور ڈسپلن کو اپنی ذات پر لاگو کر کے ذاتی مشاہدات، معلومات اور مطالعے کی بنیاد بنا کر حالاتِ حاضرہ سے سبق آموز نتائج اخذ کر کے قارئینِ کرام تک پوری دیانت داری کے ساتھ اپنے خیالات کو پہچانے کا ذریعہ ''دلِ ما روشن‘‘ ہے جو یقینا امید نو بہار کی نوید سنانے میں پیش پیش ہے۔ اس سلسلے میں جہاں میرے محسن و عربی پروفیسر رحمت علی المعروف بابا جی کا کردار کلیدی حیثیت کا حامل رہا ہے وہاں اُن کے شاگردِ خاص جیدی میاں کی موجودگی بھی ہم سب کیلئے باعثِ راحت و اطمینان رہی ہے۔
قارئینِ کرام! ''دلِ ما روشن‘‘ کی پہلی سالگرہ کو شایانِ شان منانے میں جہاں آپ کی شرکت لازم ہے وہاں آپ کی نیک تمنائیں، پُر خلوص دعائیں اور سچے جذبوں سے لبریز تعریفی الفاظ میرے لیے باعثِ صد افتخار بھی ہیں۔ آپ کی تنقید بھی میرے لئے اصلاح کا پیغام لاتی ہے اور میں اپنے الفاظ کے چنائو اور خیالات کے رچائو کو مزید آسان اور عام فہم بنانے میں زیادہ محنت کرتا ہوں۔ یقینا میں آپ سب کی محبتوں اور دعائوں کا مقروض ہوں اور یہ قرض میں شاید ہی کبھی ادا کر سکوں۔ بے یقینی اور نااُمیدی کی آندھیوں میں جلتے ہوئے اس چراغ سے محبت کرنے کا شکریہ! بقولِ شاعر ؎
جلا رہا ہوں خود اپنے لہو سے دل کے چراغ
نہ جانے کتنی محبت ہے روشنی سے مجھے

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں