قرض چارپھولوں کا

مغربی معاشرہ خاندانی نظام کی دولت سے کب کا محروم ہو چکا اس لئے وہاں والدین اور اولاد کا ایک واجبی سا تعلق اور رسمی سا اہتمام موجود ہے۔بلوغت کے ساتھ ہی بچے والدین سے مکمل آزاد ہو جاتے ہیں اور بڑھاپے میں وہ اپنے والدین کو اولڈہومز کے سپرد کردیتے ہیں جہاں وہ اپنی باقی ماندہ زندگی گزاردیتے ہیں۔عام طورپر بچے اپنے والدین کو سال میں اک آدھ بار ملنے جاتے ہیں‘اُن کیلئے چھوٹے موٹے تحائف بھی لے جاتے ہیں اورکچھ وقت ان کے ساتھ گزار کر واپس آجاتے ہیں۔ وہ ایک مرتبہ مدرزڈے اور فادرزڈے مناتے ہیں‘اس کے برعکس ہمارے معاشرے میں خاندانی نظام آج بھی ہماری طاقت ہے جہاں کم ازکم تین نسلیں اکٹھی رہتی ہیں‘لہٰذا ہم اپنے غم اور خوشیاں بانٹ لیتے ہیں‘ یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں ہر دن‘ہر لمحہ‘ہر گھڑی ماں باپ کی خدمت‘اطاعت اور تابعداری میں گزرتی ہے تو ہمارے لئے ہراک دن مدرزڈے بھی ہوتا ہے اور فادرز ڈے بھی۔اس کے باوجود باقی دنیا کی طرح ہمارے ہاں بھی مئی میں مدرزڈے تو جون میں فادرزڈے منایا جاتا ہے ۔
ہر سال کی طرح گزشتہ دنوں فادرز ڈے آیا تو ایک روز قبل ہی میرے تینوں بچوں نے ایک دوسرے کے ساتھ کھُسر پھُسر شروع کر دی اور اُن کی سرگوشیاں بتدریج بڑھنے لگیں۔ وہ اپنے انداز میں چھوٹے چھوٹے کارڈ ڈیزائن کرتے ہیں اور اُن پر مجھ سے محبت کے بڑے بڑے دعوے اور وعدے رقم کرتے ہیں‘ میری تصویر بنانے کی کوشش کرتے ہیں اور اپنے اپنے دستخط کرکے رات بارہ بجے مجھے پیش کرتے ہیں۔ بات صرف یہاں پہ ختم نہیں ہوتی بلکہ وہ اپنے جیب خرچ میں سے کچھ رقم اکٹھی کرتے ہیں اور میرے لئے تحائف کے علاوہ ایک عدد کیک بھی لاتے ہیں۔ کیک کاٹا جاتا ہے تو میں صرف کاٹتا ہوں‘ کھاتے وہی ہیں اور شوق سے کھاتے ہیں۔ تینوں بچوں میں بڑی بیٹی اپنے کارڈ پر بڑی سنجیدہ عبارت لکھتی ہے اور پینٹگ میں اپنی مہارت کا بھرپور مظاہرہ کرتی ہے۔ وہ سرگوشیاں اس لیے کرتے ہیں کہ مجھے کانوں کان خبر نہ ہو اور وہ سارا اہتمام کر کے مجھے سرپرائز دیں۔ میں بھی انہیں یہی محسوس کرواتا ہوں کہ جیسے میں واقعی اُن کے جملہ انتظامات سے بالکل بے خبر ہوں تاکہ وہ اپنے سرپرائز کو مکمل طور پر انجوائے کر سکیں۔مگر اس بار فادرز ڈے پر میں نے انہیں سرپرائز دیا۔ رات کیک کاٹنے اور تحائف کی وصولی کے بعد میں نے انہیں بتایاکہ اگلی صبح ہم سب گائوں روانہ ہوں گے اور وہاں ان کے دادا کی قبر پر حاضری دیں گے‘ پھول چڑھائیں گے‘ دعا کریں گے اور کچھ وقت قبرستان میںابا جان کے ساتھ گزاریں گے۔ سب حیران بھی ہوئے اور پریشان بھی مگر میرے فیصلے سے مکمل اتفاق کرتے ہوئے اپنے کمروں میں جاکر سو گئے۔ میں اپنے کمرے میں سونے کیلئے آیاتوپینتیس سالہ یتیمی کا گھائو جیسے اک بار پھر دل میں باپ کی محرومی کے الائو بھڑکانے لگا۔ ستمبر1986ء کی وہ خوفناک رات اور اُس کے دردناک لمحات جس میں ہمارا باپ ہمیشہ کیلئے دارِ فانی سے چلا گیا اور محض چندلمحات میں ہماری جنت نظیر دنیا اجڑ کر رہ گئی اور باغِ تمنا کا پُر بہار موسم یکسر خزاں میں بدل گیا۔ اپنے عہد کے معتبر ناموں میں سے ایک بڑا نام اور اُردو‘ فارسی پڑھانے میں پنجاب کے پروفیسرز میں یکتا مقام رکھنے والے والدِ گرامی صرف اکاون برس کی عمر میں اپنے سارے خواب ہمارے حوالے کر کے ربِ کریم کے حکم کے سامنے جبینِ نیاز جھکائے عالمِ ارواح جاپہنچے۔ ہماری لاڈ پیار سے بھری زندگی لمحات میں غم اور بے بسی کی تصویر بن گئی۔ میں نے اپنے آنسو پونچھے‘ وضو کیا‘ نوافل ادا کئے اور اپنے والد کی پسندیدہ سورہ مزمّل کی تلاوت کی اور اُن کی مغفرت کی دعا کر کے سو گیا۔
اگلی صبح ہم سب تیار ہو کر تقریباً نو بجے گائوں کیلئے روانہ ہو گئے۔ گھر سے نکلتے ہی ڈھیر سارے پھول خرید ے اور براستہ موٹروے پینسرہ انٹرچینج جا اُترے۔ اس کے بعد جھنگ فیصل آباد روڈ پر لگ بھگ پندرہ کلومیٹرکی مسافت کے بعد بھوانہ کی طرف مڑگئے اور وہاں سے ٹھیک بیس کلومیٹر کے بعد ہمارے آبائی گائوں سے پانچ سو گز پہلے قبرستان آتا ہے جو ہم سب کی آخری آرام گاہ ہے اور وہیں ہمارے والدِ گرامی کی قبر ہے۔ راستے میں تینوں بچوں نے کافی سوالات پوچھے اور اُن میں چند اہم سوالوں کے جواب بھی مانگے۔ بیٹی نے دریافت کیا'' آپ کی کامیابی میں دادا جان کا کیا کردار ہے کیونکہ وہ بہت پہلے اللہ تعالیٰ کے پاس چلے گئے تھے؟‘‘میں نے اُسے وضاحت سے سمجھایا کہ کس طرح وہ ہمارے لئے ایک رول ماڈل تھے‘ کس طرح انہوں نے سینکڑوں شاگردوں کی مالی معاونت کے ذریعے اعلیٰ تعلیم دلوائی ‘ کس طرح وہ ہمارے لئے بڑے بڑے خواب دیکھا کرتے اور ہمارے ساتھ اُن کا اظہار بھی فخر سے کیا کرتے تھے ۔بڑے خواب ہی دراصل بڑی کامیابی کا راستہ ہموار کرتے ہیں اور ہمیں جہدِ مسلسل اور عملِ پیہم کا پیکر بناتے ہیں۔میں نے اسے ابّا جان کے تین بڑے خواب بتائے جنہیں ہم سب بھائیوں نے پورے خلوص اور سچائی سے پورا کیا اور آج وہ سارے خواب ہم جی رہے ہیں تو ہمیں اپنے والد محترم کی بلند پایہ سوچ پر فخر ہے۔ اُن کا پہلا خواب ہمارا گورنمنٹ کالج لاہور میں داخلہ تھا تو ہم سات میں سے چھ بھائی راوین بنے اور لگ بھگ بیس سال مسلسل ہم گورنمنٹ کالج لاہور جیسی عظیم درسگاہ کے درودیوار سے جڑے رہے۔ اُن کا دوسرا بڑا خواب ہمارا پاکستان کی اعلیٰ ترین سول سروس میں شمولیت تھا جسے ہم نے اللہ تعالیٰ کے خاص فضل و کرم سے اور اپنی والدہ کی بے پناہ دعائوں کے سبب پورا کیا۔والدِ محترم کا سب سے بڑا خواب اپنے پسماندہ علاقہ بھوانہ کے ہونہار بچوں کے متعلق تھا اور وہ اکثرکہا کرتے تھے کہ وہ وقت سے پہلے ریٹائرمنٹ لے کر وہاں ایک شاندار تعلیمی ادارہ بنائیں گے اور اس مٹی کا قرض چکائیں گے۔ بچوں کو بین الاقوامی معیار کی تعلیم و تربیت دے کر انہیں ایک باوقار زندگی گزارنے کیلئے مواقع فراہم کریں گے۔ اُن کے نزدیک مقامی بچوں میں بے پناہ صلاحیتیں موجود تھیں‘ صرف مواقع نہیں تھے۔ اُن کے اس خواب کو بھی ہم نے مکمل کیا اور سات سال قبل والدین کے نام سے منسوب ادارہ قائم کیا گیا۔ اس طرح ہماری کامیابی میں اللہ تعالیٰ کی خاص رحمت اور اپنی والدہ کی دعائوں کے بعد سب سے کلیدی کردار ہمارے مرحوم والد کے اُن بڑے خوابوں کا ہے جن کو عملی حقیقت بناتے بناتے ہم یہاں تک آن پہنچے ہیں۔ تینوں بچے میری باتیں غور سے سنتے رہے اوریوں ہماراسفر بھی مکمل ہو گیا۔ اب ہم اپنے گائوں کے قبرستان کے سامنے آن پہنچے‘ گاڑی سے اُترے اور پھول کی پتیاں لیے ابّا جان کی آخری آرام گاہ پر حاضر ہوگئے۔
ہمیں دیکھتے ہی قبرستان کے مجاور بالٹیوں میں پانی بھر لائے۔ میں نے قبر کے پائوں کی طرف بیٹھ کر بوسہ لیا‘ پانی سے قبر کی ٹائلز پر جمی مٹی کو صاف کیا اور مکمل صفائی کے بعد اپنے تینوں بچوں کے ساتھ گلاب کی پتیاں ڈال کر ساری قبر کو پھولوں سے لاد دیا۔ میں نے قرآنِ پاک سے تلاوت کی تو بچوں نے اپنے اپنے انداز میں دعائیں مانگیں۔ میں دعا مانگنے لگا تو میری آنکھیں بھیگ گئی اور میں نے دیکھا تو تینوں بچے اپنے اپنے آنسو روکنے میں مصروف تھے۔ چھوٹے بیٹے نے اپنا سب سے اہم سوال محفوظ رکھا ہوا تھا‘کہنے لگا'' مجھے پتہ ہے آپ پہلے بھی پھول لے کر دادا جان کے پاس آتے ہیں لیکن آج ہمیں کیوں ساتھ لے آئے؟‘‘ میں نے ابّا جان کے پہلو میں موجود خالی جگہ کی طرف اشارہ کیا اور کہا کہ جب میں مر جائوں گا تو اس جگہ میری قبر ہوگی ‘ پھر آپ تینوں بہن بھائی اپنے دادا کی قبر کے ساتھ میری قبر بھی پھول ڈالنے آیا کرنا کیونکہ اولاد پر والدین کا آخری قرض دعائے مغفرت کے علاوہ چار پھول ہی تو ہوتے ہیں۔ وہ پریشان ہوا اور فوراً میرے ساتھ لپٹ کر کہنے لگا کہ ہم نے آپ کو مرنے ہی نہیں دینا۔ میں نے اُس کے ماتھے پر بوسہ دیا اور کہا ''تم ابھی بہت چھوٹے ہو‘ زندگی اورموت کی آنکھ مچولی بھلا تمہاری سمجھ میں کہاں آئے گی ‘آئو تمہاری دادی اماں گائوں میں کھانے پر ہمارا انتظار کر رہی ہیں‘‘! شہرِخموشاں کے مکینوں کو الوداعی سلام کیا تو ساغر صدیقی کا یہ شعر یاد آگیا؎
یادرکھنا ہماری تربت کو / قرض ہے تم پہ چار پھولوں کا

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں