عیدالاضحی بلاشبہ تاریخِ اسلام کا اک درخشندہ باب ہے جو ہر سال عالمِ اسلام میں پورے عقیدت و احترام اور جوش وجذبے کے ساتھ منائی جاتی ہے اور مناسکِ حج کااک لازمی جزو بھی ہے ۔ یہ دراصل جانوروں کی قربانی سے بڑھ کر سنتِ ابراہیم علیہ السلام کی بجا آوری ہے ۔حضرت ابراہیم علیہ السلام انبیاء کے جدِامجد ہیں اور اسلام کے پہلے داعی بھی وہی ہیں جن کا وجود دراصل پیکرِدینِ حق تھا اور اُن کا ہر عمل حقیقی اسلام کا اعلیٰ نمونہ تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اُن کے جملہ اعمال کو لوحِ قرطاس پر محفوظ فرماکر تاابدان کی پیروی اسلام کے پیروکاروں پر لازم قراردے دی ۔ ہزاروں برس کا سفر طے کرنے کے بعد ہر سال تاریخ خود کو دہراتی ہے اور دینِ اسلام کے داعیٔ اول کی حیاتِ طیبہ اک مرتبہ پھر ہمارے سامنے پوری آب وتاب کے ساتھ آشکارہ ہوکرہمیں ربِ کائنات کی اطاعت کا درس ِعظیم دیتی ہوئی نظر آتی ہے جو دراصل ایثار واستقلال اور صبروضبط کا بے مثال استعار ہ ہے۔
قرآنِ مجید کی سورۃ الصفات نے سنتِ ابراہیم علیہ السلام کی بجاآوری کے پسِ منظرمیں موجوداصل واقعہ کو کھول کر بیان کیا ہے اور حضرت ابراہیم علیہ السلام اوراُن کے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلا م کے درمیان ہونے والے مکالمے کو پوری تفصیل سے درج کیا ہے ۔ قرآنِ کریم کے مطابق رب کائنات نے اپنے پیارے بندے حضرت ابراہیم ؑ کو خواب میں حکم دیاکہ وہ اس کی راہ میں اپنی سب سے پیاری چیز قربان کردیں‘ اس پر حضرت ابراہیم ؑ نے غور وخوض کیا تو وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ اُن کی سب سے عزیز ترین متاع ان کا پیارا بیٹا حضرت اسماعیل ؑ ہیں۔ انہوں نے اپنے بیٹے سے مشورہ کیا تو اطاعت سے سرشار بیٹے نے اپنے باپ کے حکم کے سامنے سرِ تسلیم خم کردیا اور کہا کہ بیشک اللہ تعالیٰ کایہی حکم ہے تو آپ عمل کیجئے مجھے آپ صابرین میں سے پائیں گے۔ اس پر اخلاص ووفا کے پیکر حضرت اسماعیل علیہ السلام نے اپنی معصوم گردن حکمِ الٰہی کی تعمیل اور اپنے پیغمبر باپ کے خواب کی تعبیر کو سچ کر دکھانے کے لیے زمین پر ڈال دی تو دوسری طرف ابراہیم ؑ خلیل اللہ اطاعتِ الٰہی کو یقینی بنانے کے لیے شفقتِ پدری سے بے نیاز ہو کر اپنے پیارے لختِ جگر اور بڑھاپے کے سہارے کو قربان کرنے کیلئے اپنی آنکھوں پر پٹی باندھ کر اس کی نرم ونازک گردن پر چھری چلانے لگتے ہیں تواپنے عظیم پیغمبر اور انبیاء کے جدِ امجدکی وفا شعاری اور اطاعت کا یہ فقیدالمثال منظر دیکھ کر اچانک رحمتِ الٰہی جوش میں آتی ہے اور حکمِ الٰہی سے ایک فرشتہ حضرت اسماعیل ؑکی جگہ ایک جنتی مینڈھاچھری کے نیچے رکھ دیتا ہے ۔ حضرت ابراہیم ؑ نے جب اپنی آنکھوں سے پٹی ہٹائی تو حضرت اسماعیل ؑ الگ کھڑے مسکرارہے تھے اور ان کی جگہ اک دنبہ ذبح پڑا تھا۔ درحقیقت یہ کامل ایمان‘ توکل اور فرمانبرداری کی اعلیٰ ترین مثال تھی اور اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم ؑ کے پیروکاروں پر اسی دن کی مناسبت سے قربانی نافذکردی۔
درحقیقت قربانی کا لفظ اپنے اندر مفاہیم ومعانی کااک جہان سمائے ہوئے ہے اورجذبہ ِ ایثار کی اصطلاح کو صحیح معنوں میں سمجھ کر ہم اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگیوں میں سے حرص وہوس ‘ طمع ولالچ ‘ خود غرضی اور مادہ پرستی کی بدولت برپاہونے والے فتنہ وفسادات کایکسر خاتمہ کرسکتے ہیں۔ مذہبی نقطہ نظر سے دیکھا جائے تودین ِاسلام کی تاریخ عظیم قربانیوں کی ناقابل فراموش داستانوں سے بھری پڑی ہے۔ آج بھی جذبۂ قربانی سے مالامال ہوکرنفسانی خواہشات سے چھٹکار احاصل کیاجاسکتاہے اور ورح کی پاکیزگی اورذہنی سکون کی دولت حاصل کی جاسکتی ہے ۔مگر صدافسوس کہ آج ہم نے اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگیوں سے جذبہ قربانی کوکلی طور پرنکال دیا ہے جس کی وجہ سے ہر طرف لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم ہے ‘خونی رشتے کمزور پڑگئے ہیں‘ نفسانفسی کا عالم ہے‘ صرف مال وزرکے انبارلگانے کی دوڑ لگی ہوئی ہے اورچارسوخودغرضی کا دور دورہ ہے۔اس کے نتیجے میں ملاوٹ‘ ذخیرہ اندوری‘ گراں فروشی ‘ناجائز منافع خوری‘ سود‘ دھوکہ دہی‘ فراڈاور جعلسازی کے سارے ہتھکنڈے آزمائے جارہے ہیں ۔اس سے ہمارے معاشرتی ڈھانچے کی بنیاد یں کمزور پڑرہی ہیں۔ ہم محض سنت ابراہیمی ؑ کی ادائیگی کیلئے جانور ذبح کرکے رسمی کارروائی کرتے نظر آتے ہیں جبکہ اپنی نفسانی خواہشات کی قربانی نہیں دنیاچاہتے اور نہ ہی بغض‘ کینہ‘ حسداور تکبر اوراَنا کے جانور ذبح کرنا چاہتے ہیں ۔ یہی ہماری سب سے بڑی مناقت ہے۔ پاکستان میں بھی عید الاضحی بڑے جوش وخروش اورر وحانی عقیدت کے ساتھ منائی گئی‘ لاکھوں جانورخریدے گئے اور اللہ کی راہ میں سنتِ ابراہیمی کی تائیدمیں قربان کردیے گئے ۔ ایک صاحبِ ثروت نے ترکی سے دوقیمتی اونٹ منگوائے اور انہیں قربانی کے لیے بارگاہِ الٰہی میں پیش کیا ۔اس طرح ملک بھر میں انتہائی قیمتی بیل ‘ دنبے اور بکرے خریدے گئے اور ہمیشہ کی طرح انہیں ذبح کرکے ابراہیم علیہ السلام خلیل اللہ کے اسوۂ کامل کی تجدید میں راہِ حق میں پیش کردیا گیا۔ ایک طرف اللہ والوں کی طرف سے پورے خشوع وخضوع کے ساتھ کی جانے والی قربانی قابلِ رشک ہے جو قیمتی ترین جانور خرید کر اسے غربا‘ مساکین اور معاشرے کے نادار طبقے میں تقسیم کرتے ہیں اوراس میں کسی بھی قسم کی ریاکاری کے مرتکب نہیں ہوتے اور نہ ہی اُن کے عمل میں تصنع یابناوٹ کا عنصر شامل ہوتاہے۔ دوسری طرف ایسے افراد بھی ہیں جو قربانی کے موقع کو اپنی چودھراہٹ اور دنیاداری کاسکہ جمانے کیلئے استعمال کرتے ہیں اور یہ ثابت کرتے رہتے ہیں کہ اس مرتبہ بھی پورے علاقے میں سب سے بڑا اور مہنگا جانور انہی کا ہے۔ وہ لوگوں پر اپنے مال ودولت اور اثر ورسوخ کی دھاک بٹھاتے نہیں تھکتے اوران کے قول وفعل میں سنت ِابراہیمی کی ادائیگی اوراس کے ساتھ جڑی کسی بھی روحانی واردات کا شائبہ تک نظر نہیں آتا۔ تیسری طرف ہمیں وہ لوگ بھی نظر آتے ہیں جوکسی بڑے جانور میں حصہ بھی ڈالتے ہیں اوراک عد دبکرایا دنبہ بھی ذبح کرتے ہیں ۔بڑے جانور کے گوشت کو وہ غربا میں تقسیم کرتے ہیں جبکہ چھوٹا گوشت مکمل طور پر ذاتی استعمال کیلئے محفوظ کرلیتے ہیں جس کے لیے ڈیپ فریزر کو ہفتہ قبل ہی صاف کروا لیاجاتاہے اور بکرے کوکاٹ کراس کے تکے‘ کباب اور گول بوٹیاں بناکر مختلف مصالحے لگا کر فریزرمیں منتقل کر دیا جاتا ہے۔
ہرطرح ہر سال عیدِقربان کی آمد کے ساتھ ہی شہروں میں فلیکس اور بینرز نمایا ں نظر آرہے ہوتے ہیں جن پر یہ عبارت جلی حروف میں درج ہوتی ہے ''ران روسٹ کی سہولت موجود ہے‘‘۔ پہلے میں یہ پڑھ کر کبھی اتنا زیادہ غورنہیں کرتا تھا مگر اس مرتبہ یہ سوچنے پر مجبور ہو گیا کہ آخر یہ اشتہار ات عیدِ قربان کے موقع پر ہی کیوں نظر آتے ہیں ؟تو فوراً دھیان گیا ڈیپ فریزر میں سجائی ہوئی بکروں اور دنبوں کی رانوں کی طرف جن کو پورے اہتمام کے ساتھ کاٹ کر ‘ صاف کر کے مصالحہ لگا کر روسٹ کروانے کیلئے محفوظ کیا جا تا ہے اورپھر پوری فیملی کے ساتھ کھایا جاتا ہے ۔ میں سوچ رہا تھا کہ دنبہ یا بکرا ذبح ہوتے ہی پہلے تو اس کی کلیجی انگاروں پر بھون لی جاتی ہے او رنمازِ عید کی ادائیگی کے فوراً بعد اسے تناول فرما لیا جاتا ہے ۔ پھر چانپوں کی باری آتی ہے اور دوپہر کے کھانے میں گردن کے گوشت سے کڑاہی تیار کی جاتی ہے اور سار ے گھر والے پورے اہتمام سے گوشت خوری کے نئے ریکارڈ بناتے ہیں جس کیلئے خصوصی رائتہ ‘ سلاد اور کولا کی بوتلیں کھانے کی میز کی زینت بنتی ہیں۔ آخر میں رہ گئیں بکرے کی رانیں جنہیں بازار سے روسٹ کروالیا جاتا ہے اور اس طرح پورے بکرے کو شکم پروری کی بھینٹ چڑھا دیا جاتاہے ۔ میں نے بہت دیر سوچا کہ غربامیں بڑے جانور کا حصہ ڈال کر جو گوشت تقسیم کیا جاتا ہے جبکہ پورے کا پورا بکرا یا دنبہ ذبح کر کے خود کھا لیا جائے تو کیا اس سے عید الاضحی کے تقاضے پورے ہو جاتے ہیں ؟ اسی دوران مجھے قرآن مجید میں موجود ارشادِ ربانی یاد آیا کہ اللہ تعالیٰ کو قربانی کے جانوروں کا گوشت پہنچتا ہے نہ خون ‘ اسے تو قربانی کرنے والوں کاتقویٰ پہنچتا ہے۔بے شک ہمارے سارے اعمال کا دار و مدار ہماری نیتوں پر ہی تو ہے ۔