وفاقی دارالحکومت اسلام آباد سے میری والہانہ محبت کی کئی وجوہات ہیں۔ سب سے نمایاں اور اولیّن تو حب الوطنی کے جذبات ہیں جو مجھے اپنے ملک کے سب سے خوبصورت شہر اور مرکز ِ اقتدار سے پیار کے لیے مجبور کرتے ہیں۔ دوسری طرف اس سحر انگیز شہر کا قدرتی حسن سے مالا مال لینڈ سکیپ ہے جو مارگلہ پہاڑوں کے دامن میں واقع ہونے اور مختلف انواع و اقسام کے سرسبز و شاداب پودوں اور پھولوں سے مزین ہونے کے سبب اس کو چار چاند لگاتا ہے۔ اس شہر میں واقع بلند و بالا اور پُرشکوہ عمارات اس کی خوبصورتی میں اضافہ کرتی ہیں تو طاقتور سیاسی ایوانوں کی موجودگی اسے دوسرے شہروں سے ممتاز بنا دیتی ہے۔ یہ شہر دنیا بھر کے سفارتخانوں کی موجودگی کی وجہ سے بھی کلیدی حیثیت کا حامل ہے۔ اپنے مخصوص موسم اور سیر و سیاحت کے مقامات کی بدولت پاکستان بھر سے لوگوں کی توجہ کا مرکز بھی ہے جو پورا سال اس دلآویز شہر کا رخ کرتے رہتے ہیں۔ ان سارے عوامل میں مگر سب سے زیادہ مضبوط اور منفرد وجہ میرا وہ رومان ہے جس میں بہت سے یادیں اُس وقت کی جڑی ہیں جو میں نے اس دیدہ زیب شہر میں مختلف ادوار میں گزارا ہے۔
میری خوشگوار یادوں کے جھرمٹ میں سب سے پہلے وہ دور ہے جب میں 1990ء کی دہائی کے اوائل میں گورنمنٹ کالج لاہور سے بی اے کے امتحان سے فراغت کے فوراً بعد انگریزی زبان و ادب کے ساتھ اپنے گہرے شغف کی بدولت یہاں آیا تھا اور حصولِ تعلیم کی خاطر نیشنل انسٹیٹیوٹ آف ماڈرن لینگویجز میں داخلہ لیا تھا۔ چونکہ اس وقت بی اے کے امتحان اور اس کے بعد ایم اے کے داخلے میں لگ بھگ ڈیڑھ برس کا توقف ہو جاتا تھا‘ لہٰذا میں نے اس وقت کو ضائع کرنے کے بجائے سپوکن انگلش کے ڈپلومہ پروگرام میںداخلہ لے لیا اور پھر ساتھ ہی ایک سال پر محیط انگریزی زبان و ادب کے ایڈوانس ڈپلومہ میں داخلہ لے کر اپنی تعلیم کا سلسلہ برقرار رکھا۔ اس طرح میں تقریباً ڈیڑھ سال یہاں قیام پذیر رہا اور عین عہدِ شباب کے وہ خوبصورت صبح و شام اور ان سے جڑی یادیں آج بھی میرے لئے خزاں رُت میں نویدِ بہار کا سبب بنتی ہیں۔ اسلام آباد اس وقت اسم بامسمیٰ تھا اور صحیح معنوں میں امن و آشتی کا گہوارہ تھا۔ آبادی محدود تھی‘ فضا سازگار‘ موسم خوشگوار‘ لوگ قابلِ اعتبار، دوست باعثِ افتخار اور شہر بے ہنگم ٹریفک سے مکمل ناآشنا۔ ٹریفک سگنل پر پولیس کی عدم موجودگی میں بھی رکنے کا رواج تھا اور لال بتی ہی ٹریفک سارجنٹ کا نعم البدل تھی۔ اوور سپیڈنگ اور ون ویلنگ یکسر ناپید تھی اور قانون کا احترام آج سے کئی گنا زیادہ تھا۔ جرائم بہت کم‘ کبھی کبھار چوری چکاری یا معمولی لڑائی جھگڑے کے واقعات رپورٹ ہوتے تھے مگر قتل و غارت کا بازار جو آج گرم ہے‘ اس کا کوئی تصور بھی نہ تھا۔ سرِ شام اسلام آباد کی سڑکیں سنسان ہو جاتی تھیں اور پورا شہر سائیں سائیں کرتا تھا، اسی مناسبت سے کچھ لوگ اسے ''شہرِ خموشاں‘‘ بھی کہتے تھے۔ دوسری مرتبہ میں 1990ء کی دہائی کے آخر میں بطور پولیس انسپکٹر پولیس کالج سہالہ میںتقریباً ایک سال زیرِ تربیت رہا تو اس وقت بھی رات نو بجے سپرمارکیٹ بند ہو جاتی تھی اور ہمیں مزید گھومنے پھرنے اور آوارہ گردی کیلئے کوئی ٹھکانہ نہ ملتا تو ہم چکلالہ ایئر پورٹ جا کر بیٹھ جاتے اور آنے والوں کے استقبال پر شادمانی اور جانے والوں کی وجہ سے چھائی اداسی کا بغور جائزہ لیتے۔ اس وقت یہ شہر زیرِ تعمیر نظر آیا، جگہ جگہ نئی عمارات اور شاپنگ مراکز بنتے نظر آئے اور ٹریفک بھی پہلے سے زیادہ رواں دواں دیکھی۔ تیسری مرتبہ میری پوسٹنگ سات برس قبل ایف بی آر ہیڈ کوارٹرز ہوئی تو میں نے اُن چند ماہ کے قیام کے دوران اس شہر کو تیزی سے بدلتے دیکھا۔ طول و عرض میں پھیلتا یہ شہر آبادی کے لحاظ سے بھی آگے بڑھتا نظر آیا۔ ماحول گرد آلود ہوا تو گویا انسانی رشتے بھی اس آلودگی کی زد میں آ گئے اور اس کے ساتھ جرائم میں گراں قدر اضافہ ہوا۔ جب شہر پھیلتے ہیں‘ آبادی میں اضافہ یقینی امر ہو جاتا ہے۔ اس سے ایک طرف شہریوں کو میسر سہولتوں پر دبائو بڑھتا ہے تو دوسری طرف لوگوں کے ازدحام سے بہت سی سماجی برائیاں اور جرائم پنپتے ہیں اور یہی کچھ اسلام آباد کے ساتھ ہوا۔
بدقسمتی سے آج وہ اسلام آباد نہیں رہا اور نہ ہی میرا اس سے جڑا وہ رومان‘ جس نے اب تلخ حقائق کی چادر اوڑھ لی ہے اور مجھے میری حسین یادوں سے دور کرنا شروع کر دیا ہے جو اس خوبصورت شہر کے پاس میری امانت تھیں۔ اپنے حسنِ ترتیب کی بدولت مشہور اس شہر میں گزشتہ دو دہائیوںمیں بے پناہ کمرشل سنٹرز بنے اور کئی نئے رہائشی علاقے آباد ہوئے جن کی بدولت یہاں اجنبی انسانوں کا ایک سیلاب آ گیا۔ سیاسی طاقت کے ایوان تو پہلے سے ہی موجود تھے، ریئل اسٹیٹ کے دھندے اور ناجائز ذرائع آمدن نے بھی جب یہاں کا رخ کر لیا تو طاقت، دولت اور اختیارات کے خوفناک امتزاج نے لوگوں کا مزاج بدل ڈالا۔ بالخصوص موجودہ نسل میں اخلاقی تربیت کے فقدان نے ہماری اشرافیہ اور دولت مند طبقے کے بگڑے ہوئے بچوں کی اخلاق باختہ حرکات کے سبب اس شہر کے باسیوں کی زندگی اجیرن بنا ڈالی ہے۔ طاقتور سیاسی زعما اور بااختیار شرفا اور ان کی اولادوں کے ناز و ادا نے شہر میں بدامنی، لا قانونیت اور خوف و ہراس کا ایک نیا کلچر متعارف کرایا ہے۔ آئے روز ہمیں کسی نئے حادثے اور المناک سانحے کی خبر ملتی ہے تو دل لرز جاتا ہے۔ اسلام آبادکے عام شہری کئی راتیں جذباتی خلفشار کے سبب سو نہیں پاتے۔ پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے ادارے طاقتوروں کے سامنے اکثر بے بس دکھائی دیتے ہیں۔
گزشتہ چند مہینوں میں کئی دلخراش واقعات رونما ہوئے۔ ایبٹ آباد سے آئے چار بھائیوں کو ایک لاڈلے نے کچل ڈالا تو چند دنوں میں ہی ''مصلحت‘‘ اور ''مصالحت‘‘ نے مل کر معاملہ دبا ڈالا۔ پھر ایک نہتے نوجوان کو قانون کے محافظوں نے گولیوں سے بھون ڈالا تو چند روز خبروں کی زینت بننے کے بعد وہ کیس بھی تاریخ کا حوالہ بن کر رہ گیا۔ اس کے بعد عثمان مرزا کیس نے چار سو خوف برپا کیا تو ساتھ ہی نور مقدم ایک بگڑے رئیس زادے کی درندگی کی بھینٹ چڑھ گئی۔ اب وفاقی دارالحکومت میں موت کے سائے دراز ہونا شروع ہو گئے ہیں اور ہر طرف خوف نے اپنے ڈیرے ڈال لیے ہیں۔ عام شہری عدم تحفظ کا شکار ہیں۔ پاکستان بھرمیں قتل ہونے والی نور مقدم کی چیخوں کی بازگشت سنائی دے رہی ہے۔
ایسے میں خوش آئند امر یہ ہے کہ اس شہر بے اماں میں اسلام آباد پولیس نے نہایت دلیری اور پیشہ ورانہ مہارت سے نہ صرف مبینہ قاتل کو گرفتار کیا ہے بلکہ اس کے والدین اور دو ملازمین کو بھی پابند سلاسل کر دیا ہے جن کی بروقت مداخلت اور پولیس کو اطلاع دینے کے سبب نور مقدم کی جان بچائی جا سکتی تھی۔ پولیس کسی بھی قسم کے دبائو کا اثر لیے بغیر حسبِ ضابطہ کارروائی کو تیزی سے منطقی انجام کی طرف آگے بڑھا رہی ہے۔ یہ کیس دراصل پولیس کیلئے ایک ٹیسٹ کیس کی حیثیت رکھتا ہے جس میں سرخرو ہونا اس کیلئے بہت اہمیت کا حامل ہے کیونکہ مجرمان کو کیفر کردار تک پہنچا کر وہ وفاقی دارالحکومت کے باسیوں میں پائے جانے والی خوف و ہراس کی ہیجانی کیفیت کا خاتمہ کر سکتے ہیں اور شہریوں کے جان و مال اور عزت و آبرو کے حقیقی محافظ بن کر اپنا کھویا ہوا اعتماد بحال کر سکتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ کیس ہمارے نظامِ انصاف کیلئے بھی ایک کڑا امتحان ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ کون اس آزمائش میں سرخرو ہوتا ہے اور کون طاقتور کے سامنے بے بس ہو کر بے آبرو! یہ فیصلہ وقت کرے گا اور فیصلے کی گھڑی زیادہ دور نہیں!
بقولِ شاعر توحالات کچھ اس طرح کے ہیں:
قانون سے ہماری وفا دو طرح کی ہے
انصاف دو طرح کا، سزا دو طرح کی ہے
ایسا کریں کہ آپ کہیں اور جا بسیں
اس شہر میں تو آب و ہوا دو طرح کی ہے