اخلاق باختہ حرکات اور درندگی کے ہوشربا واقعات نے دل دہلا دینے والے حادثات اور اعصاب شکن سانحات کا روپ دھار لیا ہے۔ ہر روز ملک کے کسی نہ کسی کونے سے ہماری اخلاقیات، سماجی روایات اور مذہبی اقدار کا جنازہ اٹھتا ہے، کچھ لمحات پر مبنی آہ و پکار اور شور شرابہ خود بخود خاموش ہو جاتا ہے کیونکہ ہم بحیثیت بے حس معاشرے کے ‘شاید ان لرزہ خیز جرائم کے عادی ہو تے جا رہے ہیں۔ چند سرکاری افسران کے تبادلے اور معطلیاں، کچھ مذمتی بیانات اور بس۔ پھر نیا دن، نیا حادثہ، نئی واردات اور نئے انداز میں پیش آنے والا نیاسانحہ۔ ایک طرف دولت، طاقت، اختیارات نے ہماری اخلاقی قدروں کو بری طرح پامال کر رکھا ہے تو دوسری طرف ہوس پرستی نے چار سو ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔ خوف اور اضطراب ہمارے اعصاب کو مفلوج کر دینے کے درپے ہیں۔ قصور کی ننھی زینب کے واقعے کے بعد سے‘ ہوس پرستی اور درندگی کی اندوہناک داستانوں میں ہر روز ایک نئے باب کا اضافہ ہوتا جا رہا ہے، معصوم اور ننھی کلیاں وحشی درندوں کا نشانہ بن رہی ہیں۔ کہیں سکول سے واپسی پر ان پر دندناتے شیطان حملہ آور ہو جاتے ہیں تو کہیں شاپنگ کی غرض سے جاتے ہوئے دن دہاڑے‘ بھرے بازار میں اُن کا جسم نوچ لیا جاتا ہے۔ کہیں اک غریب بھکارن اپنے معصوم بچے کے سامنے اپنی عزت اور جان گنوا بیٹھتی ہے تو کہیں پڑھی لکھی نور مقدم ایک امیر زادے کی بربریت کی بھینٹ چڑھ جاتی ہے۔ اخلاقی پستی اور بے حسی کی سب سے شرمناک مثال 14اگست کو گریٹر اقبال پارک میں اس وقت قائم کی گئی جب ایک ٹک ٹاکر لڑکی کو چار سو سے زائد اوباشوں نے اپنی ہوس کی تسکین کا سامان سمجھ لیا۔ یہ وہی جگہ ہے جہاں اکیاسی سال قبل آل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس میں مسلمانانِ ہند نے اپنے لئے ایک ایسے وطن کا مطالبہ کیا تھا جہاں وہ اپنی زندگیاں دینِ اسلام کی روشنی میں گزار سکیں اور قرآن و سنت کی روح کے مطابق آزاد فضا میں جی سکیں۔ اسی مملکتِ خداداد کے یومِ آزادی کے موقع پر ان درندوں نے ہمارے قومی تشخص اور اخلاقی اقدار کے ساتھ کھلواڑ کیا اور ہمارے اسلاف کی طرف سے دی جانے والی بے پناہ قربانیوں کا مذاق اڑایا۔ آخر ایسا کیا ہوا، کہاں غلطی ہوئی اور کہاں خرابی پیدا ہوئی کہ ہم اخلاقی پستی کی اتھاہ گہرائیوں میں جا گرے ہیں۔ اس کا جائزہ لیا جانا چاہیے تاکہ ہم اپنے انفرادی کردار اوراپنی اجتماعی ذمہ داری کا تعین کر سکیں اور آئندہ ان دل لرزا دینے والے واقعات کا کلی طورپر خاتمہ نہ سہی مگر ان میں خاطر خواہ کمی تو لا سکیں۔
زیادہ دور نہ جائیں، تین دہائیاں قبل کے اپنے سکول کے زمانے پر نظر دوڑائیں، اپنی بچپن کی زندگی کا احاطہ کریں تو ہم سب ان محرکات اور عوامل کی کھوج میں کامیاب ہو جائیں گے جن کی وجہ سے آج ہم یہاں پہنچے ہیں۔ کسے یاد نہیں کہ صبح سویرے فجر کی اذان کے ساتھ ہی ہمیں اٹھایا جاتا تھا اور وضو کر کے منہ اندھیرے ہی مسجد میں با جماعت نماز کی ادائیگی کیلئے روانہ کر دیا جاتا۔ ہمارے امام مسجد نماز کے فوراً بعد گائوں کے تمام بچوں کو ناظرہ قرآن پڑھاتے تھے،انہیں دعائیں یاد کراتے اور عربی کی گردانیں بھی ازبر کرا دیتے تاکہ قرآن کے معانی اور مفاہیم کی تفہیم آسان ہو سکے۔ اچھا سبق سنانے پر انعام کے طور پر ٹافی بھی دی جاتی جو کسی میڈل سے کم نہ تھی۔ پھر گھر جا کر سکول کی تیاری ہوتی اور میلوں کا فاصلہ پیدل طے کر کے حصولِ تعلیم کا سفر اختیار کیا جاتا۔ سکول کے اساتذہ شفیق، محنتی اور بے لوث تھے۔ وہ انتہائی لگن سے پڑھاتے، حوصلہ بڑھاتے، مقابلے کی فضا میں آگے بڑھنے پر اکساتے اور اپنی جیب سے نقدی انعامات سے نوازتے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ بیت بازی کا مقابلہ جیتنے پر نہ صرف میرے مشفق استاد جناب عارف شاہ صاحب نے مجھے پچاس روپے انعام میں دیے بلکہ دیگر اساتذہ اور ہیڈ ماسٹر صاحب سے ملنے والے انعامات کی رقم ڈیڑھ سو روپے سے تجاوز کر گئی اور میں سکول کا امیر ترین طالب علم بن گیا تھا۔ علم و ادب اور شعر و سخن سے شغف انہی اساتذہ کی نظرِ التفات کا ثمر ہے جسے میں آج بھی اپنے لیے سرمایۂ حیات سمجھتا ہوں۔ ہمارے اساتذہ امتحانات کے قریب آتے ہی ہمارا ''زیرو پیریڈ‘‘ شروع کرا دیتے اور سکول کے اوقات سے ایک گھنٹہ قبل‘ سخت سردی میں وہ سائیکل چلا کر ہمارے مستقبل کی خاطر سکول آتے اور ہمیں انگریزی، ریاضی اور سائنس کے مشکل مضامین کی تیاری کراتے۔ بورڈ کے امتحانات سے چند ماہ قبل سکول میں واقع چند کمروں کو ہاسٹل کا نام د ے دیا جاتا اور وہ ہمارے ساتھ یہیں پر رہائش پذیر ہو جاتے تا کہ ہم امتیازی کامیابی حاصل کر سکیں۔ ٹیوشن کا لالچ نہ کوئی ذاتی طمع، بس اپنے پیشے سے لگن اور علم دوستی اُن کی قابلِ فخر میراث تھی۔ بطور شاگرد ہم بھی اُن کی تعظیم، فرمانبرداری اور خدمت میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھتے۔ یہ دوطرفہ سچائی اور اخلاص پر مبنی جذبات تھے جو سکول کی عمارت پر لکھی جانے والی عبارت کا عملی شاہکارتھے۔ باادب با نصیب‘ بے ادب بے نصیب!
پھر کیا ہوا؟ اچانک ہمارے زندگی گزارنے کے انداز و اطوار بدل گئے۔ دیہات میں پہلے ٹریکٹر آیا، پھر تھریشر اور دیگر مشینی آلات ‘ جس سے دیہی سماجی ڈھانچے کی بنیادیں ہل گئیں۔ باہمی اشتراک اور میل جول کم ہوا اور لوگوں کے اپنی اپنی زندگی میں مگن ہو جانے کا دور شروع ہو گیا۔ ادھر شہروں میں پہلے کمپیوٹر آیا، پھر انٹر نیٹ اور موبائل فون آ گئے تو شہری زندگی میں بے پناہ تیزی آگئی۔ اس دوران ہمارا نظامِ تعلیم تین طبقات میں بٹ گیا۔ دینی تعلیم مسجد سے نکل کر مدارس میں منتقل ہو گئی اور دنیاوی تعلیم سرکاری سکولوں کی عمارات کو سنسان کرتی ہوئی پرائیویٹ تعلیمی اداروں کے آنگن میں سجا دی گئی۔ ٹیوشن، پرائیویٹ اکیڈمی اور شام کی کلاسز نئے نظام میں ایسے رائج کی گئیں کہ والدین اور بچوں کو تعلیم کی خرید و فروخت کی عادت ڈال دی گئی۔ بچوں کو گریڈز کی لایعنی جنگ میں جھونک دیا گیا۔ اساتذہ علم بیچنے لگے تو روپے پیسے کی دوڑ میں عزت جاتی رہی کیونکہ شاگرد ایک ایک حرف کی قیمت نقدی میں ادا کرنے لگا تو پھر احترام کس کا اور کیونکر؟یہی اخلاقی گراوٹ ہمیں کرپشن، ملاوٹ، لوٹ کھسوٹ، منافع خوری اور مادہ پرستی کی شکل میں چارسونظرآنے لگی۔ ہماری زندگی کے ہر شعبے میں اخلاقی بحران سرایت کرگیا اورآج ہم سیاست، معیشت، معاشرت، ملازمت، تجارت اورکاروبارمیں محض مال وزرکے حصول میں سرگرداں نظر آتے ہیں۔
میں آج کے حالات اور اخلاقیات سے عاری نوجوان دیکھتا ہوں اورپھر کمپیوٹر، انٹرنیٹ، موبائل، ٹیوٹر، آیا اورمیڈز کی پروردہ وہ نسل میری آنکھوں کے سامنے نظر آجاتی ہے جنہیں شاید والدین پیار نہیں ملا، کہ وہ دولت سے خریدی گئی تعلیم جو کہ تربیت اور تہذیب سے مکمل طور پر عاری تھی‘ کو خرید کر اپنی ذمہ داریوں سے غافل ہو گئے۔ آج جب وہ فصل پک کر تیار ہوچکی ہے تو اس کا نتیجہ ہمارے سامنے ہے۔ بدقسمتی سے شرم و حیا، ادب و احترام، کردار، شخصیت سازی اور اخلاقیات جیسے الفاظ ڈکشنری سے محو ہو گئے ہیں۔ اس اجتماعی گراوٹ اوراخلاقی انحطاط میں ہم سب برابر کے ذمہ دارہیں۔ یہ بات روزِروشن کی طرح عیاں ہے کہ انسان کی زندگی سے تہذیب نکل جائے تو پھر حیوانیت اور درندگی ہی رہ جاتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ آج ہمارے اردگرد وحشی درندے دندناتے پھرتے ہیں جنہیں گزشتہ تین دہائیوں میں ہم نے بڑی محنت سے پال پوس کر بڑا کیا ہے۔ بقول شاعر:
ہر اک لٹنے پہ تیار، لوٹ کر نازاں
عجیب ماحول اس شہرِ پُرہوس میں ہے
اڑے تو بنے جانے کس عقاب کی خوراک
غریب فاختہ سہمی ہوئی بیٹھی قفس میں ہے