مارچ 2009ء میں سٹیڈیم جاتے ہوئے سری لنکن کرکٹ ٹیم پر حملے سے لے کر کرکٹ سیریز سے نیوزی لینڈ کے فرار تک‘ بارہ سال پاکستان، پاکستانی کرکٹ ٹیم اور شائقینِ کرکٹ پر بہت شاق گزرے ہیں۔ وطنِ عزیز کو دہشت گردی کی آگ میں جھونک کر اسے کرکٹ کیلئے غیر محفوظ ملک قرار دے دیا گیا۔ 2009ء کی چیمپئنز ٹرافی کی میزبانی پاکستان سے چھین لی گئی اور 2011ء کے کرکٹ ورلڈ کپ کے طے شدہ میچز پاکستان سے ہتھیا لیے گئے اور وہ بنگلہ دیش، سری لنکا اور بھارت میں کھیلے گئے۔ پاکستانی کرکٹ ٹیم کو گہرے صدمات، شدید ذہنی دبائو، جذباتی کشمکش اور نفسیاتی خلفشار سے دو چار کیا گیا۔ عالمی کرکٹ پاکستان کی سرزمین سے روٹھ گئی اور پاکستانی شائقین اپنے پسندیدہ کھیل کی تمام رعنائیوں سے محروم ہو گئے۔ کوئی بھی بین الاقوامی کرکٹ ٹیم پاکستان آکر میچز کھیلنے کو تیار نہیں تھی۔ اسی دوران بھارت نے آئی پی ایل کا کرکٹ میلہ سجا کر دنیائے کرکٹ کے تمام بڑے کھلاڑیوں کو اپنے وطن بلا کر بھارت کو کرکٹ کا ''پسندیدہ ترین‘‘ میزبان بنانے کیلئے کئی جتن کیے، اربوں روپے کے سٹہ بازی پر مبنی کاروبار کو وسیع بنیادوں پر استوار کیا گیا۔ ایک طرف اپنے مذموم ارادوں کے تحت پاکستان کو دہشت گرد ملک قرار دینے پر پورا زور لگا کر سیاسی مقاصد حاصل کئے تو دوسری طرف کرکٹ کے لیے پاکستان کی ممنوعہ سرزمین قرار دے کر اپنے ملک میں اربوں کی منڈی سجا لی۔ کرکٹ کی بہاریں پاکستان کے سٹیڈیمز سے روٹھ کر کہیں اور جا بسیں تو پاکستانی کھلاڑیوں کے اذہان پر گہرے زخم لگے اور وہ بین الاقوامی کرکٹ میں پاکستانی پرچم کوپھر سے لہرانے پر تل گئے۔ پاکستان کے شاہینوں نے اپنا کھویا ہوا مقام دوبارہ حاصل کرنے کی ٹھان لی۔
پاکستانی کرکٹ کی خوش قسمتی ہے کہ گزشتہ ماہ وزیر اعظم نے 1992ء کی فاتح ٹیم میں دو سنچریوں کے ساتھ پاکستان کی طرف سے جاوید میانداد کے بعد سب سے زیادہ رنز سکور کرنے والے مایہ ناز اوپننگ بیٹسمین اور منجھے ہوئے مبصر رمیز راجہ کو پاکستان کرکٹ بورڈ کی سربراہی سونپ دی۔ یہ فیصلہ پاکستانی کرکٹ کے شاندار ماضی کی درخشندہ روایات کی بحالی اور اس کے روشن مستقبل کو یقینی بنانے کیلئے ایک احسن اقدام کے طور پر سراہا جا رہا ہے۔ رمیز راجہ نے اپنے وسیع تجربے، غیر معمولی ذہانت اور قابلِ رشک انتظامی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے وقت ضائع کئے بغیر آتے ہی چند ایک اہم فیصلے کئے۔ پاکستانی کرکٹ کے ڈھانچے میں بنیادی تبدیلی کیلئے کلب کرکٹ کو مضبوط بنیادوں پر کھڑا کرنے کیلئے ملک بھر کے کرکٹ کلبز کے صدور اور عہدیداران کو لاہور میں مدعو کیا اور انہیں کرکٹ میں ٹیلنٹ کے فروغ میں اپنی ہر ممکن امداد اور سرپرستی کی یقین دہانی کرائی۔ بابر اعظم کی سربراہی میں پرفارمنس اور میرٹ پر مبنی ٹیم سلیکشن کو یقینی بنایا اور انہیں ایک جارحانہ حکمتِ عملی کے ساتھ میدان میں اترنے کی ترغیب دی۔ٹیم کو تھپکی دے کر ان کے حوصلے بلند کیے اور نتائج اللہ کے سپرد کر دینے کی تلقین کی۔ اس کے بعد دبئی میں شروع ہونے والے ٹی ٹونٹی ورلڈ کپ میں روانگی سے قبل ٹیم کی ملاقات وزیر اعظم پاکستان سے کرائی گئی اور ٹیم میں نئے حوصلے، ولولے اور جذبے اجاگر کر کے اسے دبئی روانہ کیا گیا۔ یہی بلند جذبے اور بے پایاں حوصلے میدانِ عمل میں بہترین ہتھیار ثابت ہوتے ہیں۔ صلاحیت‘ ذہانت اور بہترین حکمتِ عملی سے مالامال ٹیم اگر پست ارادوں کے ساتھ میدان میں اترے تو کامیابی میلوں دور چلی جاتی ہے۔
اس دوران بھارت میں پاکستانی کھلاڑیوں پر مذاق، چٹکلے اور تمسخر سے لبریز جملے بازی جاری رہی۔ بھارتی کھلاڑی اور ان کے مبصرین دبئی میں ہونے والے پاک بھارت میچ کو یکطرفہ قرار دے کر اسے بھارت کیلئے ایک پریکٹس سیشن کے مترادف گردانتے رہے اور ''نہایت آسان‘‘ میچ کو بھارتی ٹیم کیلئے ایک 'واک اوور‘ سے زیادہ نہیں سمجھا گیا۔ ویرات کوہلی نے میچ سے قبل سوچا بھی نہیں ہوگا کہ اس کا مقابلہ بابر اعظم جیسے پہاڑ سے ہونے والا ہے۔ راہول شرما نے گھمنڈ میں آکر یہ کہا تھا کہ وہ پاکستانیوں کو یہ سکھانے کیلئے بے تاب ہے کہ بیٹنگ کیسے کی جاتی ہے مگر میچ میں وہ خود بغیر کوئی سکور بنائے پویلین لوٹ گیا۔ پاکستان اور بھارت ہمیشہ سے روایتی حریفوں کے طور پر جنگ نما ماحول میں کرکٹ کھیلتے آئے ہیں اور میچ سے قبل ہی دونوں ملکوں میں بے چینی، ہیجان، اضطراب اور غیر یقینی کے سائے گہرے ہو جاتے ہیں۔ کرکٹ کے دیوانے بڑی بے صبری سے میچ کے آغاز کا انتظار کرتے ہیں اور بڑے اہتمام سے گھروں میں میچ دیکھنے کی منصوبہ بندی کی جاتی ہے۔ پُرتکلف کھانوں پر دوستوں کو مدعو کیا جاتا ہے، بڑے شہروں میں نمایاں مقامات، ہوٹلز اور پارکس میں بڑی سکرین نصب کی جاتی ہیں اور ایک میلے کا سماں باندھا جاتا ہے۔ یہی ماحول اتوار کی شام بھی بنایا گیا۔ جیسے ہی بابر اعظم نے ٹاس جیتا‘ ایسے لگا کہ جیت کا سفر شروع ہو گیا اور جس طرح شاہین آفریدی نے اپنی طوفانی بولنگ سے بھارتی بلے باز وں کو پویلین کی راہ دکھائی‘ وہ بھارتی ٹیم کیلئے کسی گہرے صدمے سے کم نہ تھا۔ اپنی مضبوط بیٹنگ لائن پر ہمیشہ سے نازاں بھارتی کپتان وکٹ پر اکیلا لڑتا رہا اور اس کے ساتھی ریت کی دیوار ثابت ہوئے۔ ورلڈ کپ کے لیے فیورٹ سمجھی جانے والی ٹیم 20اوورز میں 151رنز کا ہدف ہی بنا سکی۔ پاکستانی ٹیم مضبوط حکمتِ عملی اور بلند حوصلے کے ساتھ آگے بڑھی اور کپتان بابر اعظم نے محمد رضوان کے ساتھ ذمہ دارانہ اوپننگ کا آغاز کیا اور پھر دونوں نے مل کر ایک تاریخ رقم کر ڈالی اور17.4اوورز میں دیا گیا ہدف آسانی سے حاصل کر کے بھارتی ٹیم کو ذہنی اور نفسیاتی صدمے سے دوچار کر دیا۔ دونوں بیٹسمینوں نے شاندار بیٹنگ اور کلین ہٹنگ کے نئے انداز متعارف کرائے اور بھارتی ٹیم ایک مرتبہ بھی اپیل کرنے سے محروم رہی اور فیلڈ امپائرز کو کسی مشکل سے دوچار نہیں ہونا پڑا۔ یوں پاکستان نے اپنے رویتی حریف کو دس وکٹوں سے شکستِ فاش دے کر ٹی ٹونٹی ورلڈ کپ میں اپنی دھواں دار شرکت کا اعلان کیا۔
شاہینوں کا اگلا شکار نیوزی لینڈ کی ٹیم بنی جس نے چند ہفتے قبل ہی پاکستان میں سکیورٹی خدشات کا بہانہ بنا کر کرکٹ سیریز سے راہِ فرار اختیار کی تھی۔ منگل کی شام وہ بھی شاہینوں کے مقابلے پر انتہائی پریشان نظر آئی۔ ٹاس ایک مرتبہ پھر بابر اعظم نے جیتا اور پہلے فیلڈنگ کا فیصلہ کر کے نیوزی لینڈ کو محض 134رنز تک محدود کردیا۔ پاکستان کی طرف سے حارث رئوف کی تباہ کن بائولنگ سے کیویز پر قافیۂ بیٹنگ تنگ کیا تو عماد وسیم اور شاہین آفریدی نے بھی نپی تلی گیندوں سے انہیں مسلسل پریشان کئے رکھا۔ بیٹنگ میں محمد رضوان نے ایک خوبصورت اننگز سے میچ کو آگے بڑھایا، بعد ازاں شعیب ملک نے آصف علی کے ساتھ مل کر نیوزی لینڈ کی بائولنگ کو آڑے ہاتھوں لیا اور ان کی خوب درگت بنائی۔ اس طرح 8 گیندیں قبل ہی میچ پاکستان کے نام کر کے ایک مرتبہ پھر سبز ہلالی پرچم کو یو اے ای کی فضائوں میں سربلند کیا۔ دونوں میچ دراصل بھارت اور نیوزی لینڈ کے تکبر، رعونت اور گھمنڈ کو خاک میں ملانے اور انہیں سبق سکھانے کے حوالے سے یاد رکھے جائیں گے کہ جو گڑھا کسی دوسرے کے لئے کھودا جا تا ہے‘ اسی میں خود ہی گرنا پڑتا ہے۔ کرکٹ کو پاکستان سے نکالنے کیلئے عالمی سطح پر سازشیں کی گئیں اور کئی مذموم منصوبے بنائے گئے مگر پاکستان کو کرکٹ سے نہ نکالا جا سکا اور نہ ہی پاکستانی شاہینوں کے حوصلے پست کیے جا سکے۔ پاکستانی کھلاڑی زخمی شیر کی طرح میدان میں لڑے اور دونوں ٹیموں کو شکست دے کر اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ پاکستانی ٹیم نے یہ ثابت کیا کہ جیت کرکٹ کی ہی ہوگی اور سازشی عناصر ہمیشہ ہارتے رہیں گے۔ آنے والے دنوں میں پاکستان کرکٹ کیلئے مزید کئی خوشخبریاں منتظر ہیں، ان شاء اللہ! پی سی بی کے سربراہ رمیز راجہ پاکستان کرکٹ کو کھویا ہوا مقام واپس دلانے کیلئے ایک جامع حکمتِ عملی اور مربوط منصوبہ بندی میں مصروف ہے اور امید ہے کہ وہ اس کام کو پایۂ تکمیل تک پہنچا کر ہی دم لیں گے۔