مادہ پرستی اور افراتفری کے دور میں انسان کو دو چیزوں کی اشد ضرورت ہے۔ پہلی چیز سکون ہے اور دوسری خوشی۔ سوال یہ ہے کہ پُرسکون ہونے میں ہی اگر حقیقی خوشی چھپی ہے تو سکون کی تلاش میں گوتم بدھ جنگلوں میں بھٹکے اور جبلتوں سے لڑے۔ آخر کار وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ دنیا دکھوں کا گھر ہے اور دکھوں کی وجہ ہماری خواہشات ہیں۔ انسان ہمیشہ سے خوب تر کی تلاش میں رہا ہے۔ خواہشوں کو اگر بے لگام اور غیر معمولی طور پر بڑھا لیا جائے تو پھر بے سکونی اور عدم توازن معاشروں کا مزاج بن جاتا ہے۔آگے بڑھنے کی خواہش فطری تقاضا ہے اور حکم حقِ تعالیٰ بھی بنی نوع انسان کو اشرف المخلوقات ہونے کے سبب علم و ہنر سیکھنے، ارض و سماوات کی تسخیر، غور و فکر اور تحقیق و جستجو کو قرآنِ مجید میں بار بار دہرایا گیا۔ ستاروں پر کمند ڈالنے کی ترغیب علامہ اقبال نے بھی دی۔ خودی، عمل پیہم اور جہدِ مسلسل کے نظریات پر عمل پیرا ہونے کو کامیابی کا زینہ قرار دیا۔ ترقی یافتہ اقوام اور ان کے سماجی رویوں کو بغور دیکھا جائے تو جو بات سمجھ میں آتی ہے وہ سچائی اور قانون کی عملداری ہے۔ حب الوطنی کا تقاضا بھی یہی ہے اور انسان کی عزت ِ نفس، حرمت، نسلوں کی بقا اور سلامتی کی ضرورت بھی۔ معاشی ترقی ہو یا معاشرتی و سماجی روابط،ان کو باہم مربوط اور منظم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ معاشرے کی بنیاد سچائی اور حقیقت پر مبنی ہو۔ اس کے برعکس جھوٹ تمام اخلاقی اور تہذیبی اقدار کے بگاڑ کا سبب بنتا ہے۔ یہ فرد اور معاشرے کے تعلق کو کمزور کرتا‘ خود اعتمادی اور شخصی وقار کو ٹھیس پہنچاتا ہے۔تجارت ہو یا اشیائے ضرورت کی تیاری و فراہمی‘ اگر جھوٹ، ملاوٹ اور لالچ سے پاک ہو جائیں تو ترقی و کامیابی کے دروازے کھل جائیں گے‘ برآمدات بڑھیں گی اور ادائیگیوں میں توازن آجائے گا۔
بدقسمتی سے گزشتہ تین دہائیوں میں اچھائی اور برائی کے تمام معیارات بدل گئے ہیں۔ سوچ کے زاویوں میں نمایاں فرق دیکھنے کو ملا ہے۔ اخلاقی قدروں میں گراوٹ نے مجموعی قومی سوچ اور اخلاقی و معاشرتی انحطاط کو جنم دیا ہے۔ معاشرے میں باعزت وہ ٹھہرا جو دولت مند اور طاقتور تھا۔ بڑی بڑی مہنگی گاڑیاں، محل نما گھر، نوکر چاکر اور سکیورٹی کا ذاتی عملہ، عزت کا معیار بن گئے ہیں۔ اس سے معاشرے میں خوف، عدم تحفظ، شخصی آزادی کی صلبی اور عدم تحفظ کے احساس نے جنم لیا ہے۔ احساسِ کمتری نے اس طرح اذہان کو مفلوج کیا کہ جائز اور ناجائز ذرائع آمدن کا فرق مٹ گیا۔ ظاہری نمود نمائش کا ایک ایسا کلچر خودرو جھاڑیوں کی طرح دیکھنے کو ملا کہ رشتے ناتے تبدیل ہو گئے۔ سٹیٹس کے چکر میں معاشرہ گروہوں، فرقوں، مسلکوں، عہدوں اور رتبوں کی غیر فطری تقسیم میں بٹ کر اپنی اصل ہیئت گنوا بیٹھا۔ ناجائز دولت اور نو دولتیوں نے تہذیب و تمدن کے بخیے ادھیڑ دیے۔ رشتوں میں شرافت، خاندانی نام اور وقار کی جگہ دولت، لالچ اور حرص نے لے لی۔ شادیا ں کاروباری معاہدے لگنے لگ گئیں۔ غیر اہم رسم و رواج کو ایسی پذیرائی ملی کہ شادی گھر کھمبیوں کی طرح اُگ آئے۔ مہمانوں کی تواضع کے لیے عجیب و غریب پکوان متعارف ہو ئے۔برانڈڈ کپڑے، جیولری، پرس جوتے۔ گویا سرسے پائوں تک دکھاوے اور مصنوعی پن نے قدرتی حسن اور معصومیت کی قدر کو تو کم کیاہی‘ دوسری طرف بیوٹیشن کی مانگ میں اضافہ ہوا۔ آج کل میک اپ کے نام پر لاکھوں روپیہ لٹایا جاتا ہے۔ رزق کمانا ہم سب کا حق ہے مگر بدقسمتی سے ہم دولت کو سکون کا ذریعہ اور خواہشوں کی تکمیل کو ہی خوشی کا سبب مان بیٹھے ہیں۔ ہم نے یہ تصور کر لیا ہے کہ دولت سے خوشی خریدی جا سکتی ہے۔ یہ زندگی کی سہولتوں کے حصول اور سکون کا ذریعہ ہے لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔ دولت کمانے کی دھن میں ہم حقیقی خو شیوں سے دور ہو رہے ہیں۔ خواہشات کے غلام بن کر سچ اور جھوٹ، ملاوٹ اور خالص کی پہچان کھو رہے ہیں۔ دولت کے انبار لگا کر بھی اطمینانِ قلب سے ناآشنا ہیں۔ ایک انجانا خوف اور عجب غیر یقینی صورتحال سے سب دو چار ہیں۔ ڈر کمزور کرتا ہے اور پھر ہم اندرونی کمزوری کو چھپانے کیلئے جھوٹ سے کام چلاتے ہیں۔ یہی چیز کاروبار میں بھی رائج ہے اور کہا جاتا ہے کہ کاروبار میں تو یہ سب چلتا ہے۔ ملکی قوانین اور ذمہ داریوں کی ادائیگی میں دھوکا دہی اور لاپروائی پر فخر کیا جاتا ہے۔ اس کے مقابلے میں ترقی یافتہ قوموں نے کاروبار میں سچائی کی روش اختیار کی اور معیار متعارف کرایا۔ یہی وجہ ہے کہ بین الاقوامی تجارت میں اعتماد اور معیار بنیادی اصول بن چکے ہیں۔ احسان دانش اپنی کتاب ''دردِ زندگی‘‘ میں لکھتے ہیں کہ دلّی میں ایک بدنام زمانہ جیب کترا تھا‘ ایک دن شام کو اس نے اپنے استاد کو دو روپے دن بھر کی کمائی جمع کرائی۔ استاد حیران ہوا اورسبب دریافت کیا تو جیب کترے نے کہا: میں نے ایک گورے کی جیب سے بھاری رقم مار لی تھی مگر بعد میں خیال آیا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا سامنا کیسے کروں گا کہ ان کے امتی کو لوٹا ہے‘ لہٰذا میں نے مال اسے واپس کر دیا۔ ایک بار ابنِ فراش کے دو بیٹوں نے حجاج بن یوسف کے خلاف جنگ میں حصہ لیا اور پھر گھر سے بھاگ گئے۔ کچھ وقت کے بعد وہ گھر لوٹے تو حجاج کو خبر مل گئی۔ اس نے ابنِ فراش کو بلایا اور بیٹوں کے بارے میں پوچھا۔ ابنِ فراش نے جواب دیا: وہ گھر پر ہی ہیں۔ حجاج نے کہا کہ تمہارے سچ کی وجہ سے میں نے تمہارے بیٹے تمہیں انعام میں بخشے۔ جھوٹ کسی بھی معاشرے میں قبول نہیں کیا جاسکتا۔ شیخ عبدالقادر جیلانیؒ کی کہانی ہم سب نے بچپن میں درسی کتب میں پڑھ رکھی ہے مگر ہم اپنے علم کو عملی زندگی میں لاگو کرنے سے قاصر نظر آتے ہیں۔ بچے اپنے ماحول، معاشرے اور والدین کے طور طریقے اپناتے ہیں۔تربیت کے انداز و اطوار غلط ہیں۔ ٹوٹی ٹانگ کے ساتھ لنگڑا کر ہی چلیں گے‘ سیدھا چلنا ممکن نہیں۔ اس روش کو چھوڑنے کیلئے آنے والی نسلوں کو محنت کی ضرورت ہو گی۔
ہمارے ہاں کسی جوڑے کی شادی کی خوب تیاری کی جاتی ہے۔ ہال، پارلر کی بکنگ، دعوت نامے، بینڈ باجا وغیرہ مگر کبھی ان کو ذمہ داریوں کی بجا آوری کی تربیت نہیں دی جاتی کہ وہ آنے والی نسل کی تربیت کیسے کریں۔ ہم سب مصنوعی زندگی گزار رہے ہیں اور محض نوٹ چھاپنے والی مشین بن گئے ہیں۔ اخلاق سے عاری اور اقدار سے نابلد، یہ انفرادی نہیں اجتماعی مسئلہ ہے۔ اے سی میں سونا ہمیں پُرسکون لگتا ہے۔ دفتر، شاپنگ مال اور سرکاری عمارتوں میں سیڑیوں کے بجائے لفٹ کی عادت ہے۔ پیدل چلنا شان کے خلاف سمجھا جاتا ہے۔جتنی بڑی گاڑی اتنی زیادہ اہمیت کی توقع کی جاتی ہے۔ ظاہری بودوباش، نمائش اور آسائش نے ہمارے معاشرے اور اخلاقی نظام کو تباہ کر دیا ہے۔ فیشن، مہنگے لائف سٹائل اور بناوٹ سے آلودہ سوچ نے ایک طرف لوٹ کھسوٹ، ملاوٹ، دھوکا دہی اور کرپشن کا بازار گرم کر رکھا ہے تو دوسری طرف ان اخلاق باختہ سرگرمیوں سے خود کو محفوظ رکھنے والوں کو اس کی بہت بڑی قیمت ادا کرنا پڑ رہی ہے۔ وہ خود اور ان کے بچے طرح طرح کے نفسیاتی اور جذباتی عارضوں کا شکار ہو چکے ہیں۔ جھوٹ اتنا زیادہ سرایت کر چکا ہے کہ سچ بولنے والوں کو عجیب نظروں سے دیکھا جاتا ہے۔ انہیں سفید کوا ثابت کرنے کیلئے کوئی کسر باقی نہیں رکھی جاتی۔ ایمانداری اور دیانتداری سے نوکری کرنے والوں کو نیم پاگل قرار دیا جاتا ہے،ان کے ماتحت اور افسرانِ بالا اپنی اپنی جگہ ان کے راستے میں کانٹے بچھاتے ہیں اور ان کی زندگی اجیرن کر دیتے ہیں۔
میرے روحانی پیشوا‘ محسن و مربی پروفیسر رحمت علی المعروف باباجی اور ان کے چہیتے شاگرد جیدی میاں کے مابین اس موضوع پر ہونے والی فکری بحث اکثر نوک جھوک میں بدل جاتی ہے۔ جیدی میاں ہمیشہ جدت پسندی اور دورِ رواں کی تعریف کا راگ الاپتے ہیں مگر بابا جی اسے آڑے ہاتھوں لیتے ہیں۔ وہ اکثر اپنے دلائل کو منطقی انداز میں آگے بڑھاتے ہیں۔ فکری پختگی سے آراستہ گفتگو میں وہ ٹھوس شواہد بیان کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جھوٹ کے پائوں نہیں ہوتے، چونکہ ہمارے مروجہ معاشرتی اور معاشی نظام کی بنیاد جھوٹ، ملاوٹ اور ذاتی مفاد پر رکھی گئی ہے لہٰذا ایسا معاشرہ مستحکم انداز میں آگے نہیں بڑھ سکتا بلکہ اس کی بقا ہمیشہ خطرات میں گھری رہے گی۔ ریت کی دیوار پر کوئی مضبوط عمارت بنائی جا سکتی ہے؟