محبت کیا ہے؟

محبت الہام کی صورت‘ وہ ساتویں حِس ہے کہ جس دل پر اترتی ہے اس میں وسعت پیدا کر دیتی ہے۔ جس پر یہ برکت نازل ہوتی ہے وہ عاجز ہو جاتا ہے اور غنا اس کی صفت بن جاتی ہے۔ عاجز مزاج شخص عقل و شعور ،سمجھ بوجھ اور ادراک رکھنے کے باوجود سیدھا سادا ہوگا۔ مزاج میں تیزی اور تلخی نہیں، دوسروں کو رستہ دینے والا، غصے اور نفرت کا عنصر نہ ہونے کے برابر، اخلاص سے بھرا ہوا، غلطی تسلیم کرنے والا، اپنی خواہش کواللہ کی خوشنودی کے لیے قربان کرنے والا، اپنے فائدے پر دوسروں کے فائدے دیکھنے والا، صاحبِ کرم انسان ہمیشہ احسان کرتا نظر آئے گا۔ حق سے زیادہ دے گا اس کا درجن 13 کا ہوگا‘ 12 کا نہیں۔ محبت جس دل میں داخل ہوتی ہے وہاں حساب کتاب کا کوئی نظام نہیں ہوتا۔ وابستگی اور تعلق کی اہمیت مقدم ہوتی ہے۔ فراخ دل، کھلے ذہن کے ساتھ کمٹمنٹ سے زیادہ دینا اور جذبوں کی صداقت ایسے لوگوں کا خاصہ ہوتی ہے۔ یہ آسانیاں اور محبتیں تقسیم کرتے ملیں گے۔ قناعت اور اعتدال پسندی ان کی فطرت ہو گی۔ انسانیت سے محبت ان کی ذات کا نمایاں پہلو ہوگا۔ سردی گرمی، بھوک پیاس، بیماری یا تنگدستی‘ وہ صبر کا پیکر بن کر راضی برضا رہنے اور سرِتسلیم خم کرنے کا ہنر جانتے ہیں۔ دنیاوی زندگی میں کامیابی کے ساتھ ساتھ آخرت کی فلاح بھی ان کے پیش نظر ہوتے ہیں۔ ظاہری شکل و شباہت میں وہ ہمیشہ شاد اور مطمئن نظر آتے ہیں۔ مگر یہ اتنا آسان نہیں! ہم سب ان تمام صفات اور خصوصیات کے حامل نہیں ہو سکتے۔اگر ہوتے بھی ہیں تو مختلف درجات کے لوگوں میں ،محبت کے بھی درجے اور مرتبے ہوتے ہیں۔ کنجوسی کرنے والوں کیلئے کائنات بھی کنجوس ہو جاتی ہے۔
انسانیت سے محبت اور خدمت کا جذبہ ایک ایسا محرک ہے جو اعلیٰ و ارفع مقاصد میں ڈھل جائے تو انسان اپنی ذات سے بالاتر ہو کر بنی نوع انسان کے دکھوں کا مداوا کرنے کا سبب بن جاتا ہے۔ انسانی تاریخ ایسے مسیحائوں سے بھری پڑی ہے۔ اگر پاکستان کی بات کی جائے تو عبد الستار ایدھی کی ذات ایک عمدہ مثال ہے۔ نمود و نمائش ان کو چھو کر نہ گزرے۔ غربت اور ناداری میں انسانیت کے درد کو محسوس کیا اور سراپا خدمت بن گئے۔ مدر ٹریسا کو لے لیں، اس راہبہ نے بیماروں اور ضرورتمندوں کیلئے ادارہ بنایا۔ نوبیل انعام یافتہ نیک عورت نے مغربی بنگال میں ساری زندگی انسانیت کی خدمت کے لیے وقف کیے رکھی۔ جرمن نژاد ڈاکٹر روتھ فائو نے پوری زندگی جذام کے مریضوں کی خدمت اور علاج میں بسر کر دی۔ کراچی کے علاقے صدر میں ایڈیلیڈ لیپریسی سنٹر میں وہ جذام اور کوڑھ کے غریب مریضوں کی ''ماں‘‘ تھیں۔ تیس سالہ خوبصورت جرمن ڈاکٹر پاکستان آئی اور انسانی خدمات میں کھو گئی۔ وہ کہا کرتی تھیں کہ مریضوں کا جسم سن ہے‘ دل تو سن نہیں۔ ہمارے وزیر اعظم عمران خان نے اپنی والدہ کو کینسر کے مرض میں تکلیف میں دیکھا تو احساس ہوا کہ اس بیماری کا مہنگا علاج عام آدمی کیلئے کس قدر مشکل ہے‘ پھر انہوں نے اپنی زندگی بھر کی کمائی سے شوکت خانم میموریل کینسر ہسپتال بنایا اور اس کو غریب افراد کے علاج کیلئے وقف کر دیا۔ اللہ کی محبت اور خوشنودی حاصل کرنے کیلئے انسانیت کی خدمت سب سے اعلیٰ درجہ ہے۔ اللہ کی محبت اس کے بندوں کے ساتھ محبت میں پوشیدہ ہے۔ ہمارے سکول کے نصاب میں انگریزی نظم ''ابو بن ادھم‘‘ میں یہی درس دیا گیا تھا کہ اللہ سے محبت اور قرب حاصل کرنے کی آرزو ہو تو اس کے بندوں سے محبت کرنا ضروری ہے اور فضیلت بھی اسی میں پنہاں ہے۔ جیمز ہنری لے ہنٹ نے مشہور صوفی بزرگ حضرت ابراہیم بن ادھم کے ایک خواب کو خوبصورت نظم کے پیرائے میں امر کر دیا۔ حقیقی خوشی اس وقت ہوتی ہے جب کسی کی مدد کی جائے۔یورپ میں اولڈ ہومز اور یتیم خانوں میں وقت دینا اور ان کی خدمت کو بہت اہمیت دی جاتی ہے۔
محبت کے اپنے اصول و ضوابط ہیں۔ اس میں کھونے اور پانے میں تفریق نہیں۔ اصل میں کھونا ہی پانا ہے۔ چاہے نام و مرتبہ ہو، دولت ہو، جوانی یا خوبصورتی، وقت کی رفتار سب کچھ اپنے ساتھ بہا کر لے جاتی ہے۔ اگر تاریخِ انسانی پر غور کیا جائے تو کہاں گئے وہ فرعون، نمرود، قیصرِ روم کی دنیاوی جاہ و حشمت‘ نام و نشان تک مٹ گئے۔ باقیات رہ گئیں وہ بھی عبرت کے طور پر۔ ہر شے نے مٹ جانا‘ فنا ہو جانا ہے، باقی رہ جانے والی ذات صرف اللہ تعالیٰ کی ہے۔ جس زندگی نے ختم ہو جانا ہے‘ جس کو ثبات نہیں‘ اس کا غرور کیسا؟ خوشی جو عارضی ہو اس میں سکون کہاں؟ وہ لذت جو زبان کو چند لمحے میسر ہو‘ اس کھانے اور رزق کو حرام ذرائع سے کمانے کی منطق سمجھ سے باہر ہے۔ نا مکمل، دوسروں پر انحصار کرنے والا، بے اختیار، اپنی پلک تک کو جھپکنے سے قاصر شخص کس طرح دولت ، حسن ،حسب و نسب، عہدے اور مرتبے پر فخر اور غرور کر سکتا ہے؟ دولت، مال و متاع، جسم و جان، سب عارضی ہوں تو ان سے محبت، رغبت اور لالچ کس طرح مستقل ہو جاتی ہے؟ صوفیہ کرام اور اولیاء اللہ نے اللہ کی محبت میں کسی کی محبت کو حائل نہیں ہونے دیا۔ حضرت نظام الدین اولیاءؒ نے سات بادشاہوں کا زمانہ دیکھا۔ کسی کو شرف ِملاقات نہ بخشا۔ ابراہیم لودھی نے کہا کہ حاکمِ وقت کو کون روک سکتا ہے‘ میں جائوں گا‘ اجازت کی ضرورت نہیں! فرمایا: درویش کے گھر کے دو دروازے ہیں‘ بادشاہ ایک سے آئے گا تو میں دوسرے سے باہر چلا جائوں گا ۔ نظام الدین اولیاء ہی آج سلطانِ ہند کہلاتے ہیں۔ حضرت بو علی قلندرؒ کو نواب آف ٹونک نے وثیقہ بھیجا اور کافی جاگیر خانقاہ کے لیے وقف کر دی۔ مرد ِقلندر نے اسی کاغذ کے پیچھے لکھ بھیجا: ہماری روزی روٹی اللہ نے لکھ رکھی ہے‘ ہمارا سر بھی اسی کی محبت میں سجدہ ریز ہے۔ جب حقیقی یقین پیدا ہو جاتا ہے تو خوف ختم ہو جاتا ہے۔ لگن سچی ہو تو منزل کی طرف سفر آسان ہو جاتا ہے۔ لالچ اور دنیاوی خواہشات کوئی معنی نہیں رکھتیں۔ محبت قربانی مانگتی ہے۔ آرام و سکون، آسائش اور تن آسانی کے بدلے آگ اور خون کے دریا عبور کرنا پڑتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ کی محبت اور اس کے محبوبﷺ کی اطاعت کے بعد اگر کوئی چیز مقدس و مقدم ہے وہ اپنے مادرِ وطن سے محبت بلکہ عشق ہے۔ جس کو مقامِ عشق سے آشنائی ہو جائے وہ راہِ خدا اور وطن کی مٹی میں اپنے وجود کی پہچان بنا تا ہے۔ اس کو وطن کی مٹی سے عشق اور جنوں اپنے وجود سے بیگانہ کر دیتا ہے۔ وطن پرستی کا تقاضا یہی ہے کہ اس کے آگے سب محبتیں ہیچ ہیں۔ لمحۂ موجود‘ جس میں ہم جی رہے ہیں‘ کیا ہم نے وطن پرستی کے تقاضوں کو سمجھا اور ملحوظِ خاطر رکھا؟ کیا ہم سب وفائیں اور محبتیں اپنے ہم وطنوں کیلئے لٹاتے ہیں؟ کیا ہم قومی سلامتی اور ملی تشخص پر نازاں ہیں؟ کیا ہمیں ذمہ دار شہری کے حقوق و فرائض سے شناسائی ہے؟ کیا ہم اپنے ہم وطنوں کے ساتھ مضبوط جذباتی وابستگی ،محبت اور چاہت سے جڑے ہیں؟ قانون کی عملداری میں حصہ ڈالتے ہیں؟ مشترکہ مفادات کی فکر ہے؟ سلامتی اور دفاعِ وطن کی تقاضوں اور خطرات سے آگاہ ہیں؟ وسائل اور مسائل سے آگاہی ہے؟ یہ سوالات ہم نے خود سے کرنا ہیں۔ہماری مسلح افواج ملک کی جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت کرتی ہیں جبکہ ملک کی نظریاتی اساس کی حفاظت ہم سب کافرض ہے۔ سوشل میڈیا کے جدید دور میں ففتھ جنریشن وار فیئر کا سامنا کرنے کے لیے ہم سب کو گہری نظر رکھنی ہے۔ ذاتی مفاد سے اوپر نکل کر وطن کا سوچنا ہے۔ محبت کا یہی تقاضا ہے اور یہی منزل ہے۔ محبت دریا کی مانند ہے جو اپنی لے اور دھن میں ٹھاٹھیں مارتا بہتا ہے۔ اسے فرق نہیں پڑتا کہ اس کے کنارے چڑیا اپنی پیاس بجھاتی ہے، شیر پانی پیتا ہے یا گھوڑے اور گدھے اس کے پانیوں سے فیض یاب ہوتے ہیں۔ وہ ساگر کی محبت اور ملن کی لگن میں بہتا چلا جاتا ہے اور بالآخر قلزم کے کھارے پانی میں اپنی محبت اور وجود کو شامل کر کے بڑے مقصد کا حصہ دار بن جاتا ہے کیونکہ اس کی بقاء کی ضمانت فنا ہی تو ہے۔ مفتی تقی عثمانی کے یہ خوبصورت اشعار محبت کی سچائی اور اہمیت پر پختہ دلیل ہیں:
محبت کیا ہے، دل کا درد سے معمور ہو جانا
متاعِ جاں کسی کو سونپ کر مجبور ہو جانا
بسا لینا کسی کو دل میں، دل کا کلیجہ ہے
پہاڑوں کو تو آتا ہے جل کے طور ہو جانا

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں