اعلیٰ اور عمدہ خیالات زندگی کی مقصدیت کو بڑھا کر جلا بخشتے ہیں۔ مقصدِ حیات کا حصول پستیِ خیالات میں پیدا نہیں ہو سکتا۔ اگر افکار میں پاکیزگی و ارتکاز نہ ہو تو منتشر سوچ کا حامل شخص منزل کو پانے کی کوشش ہی میں تھک کر چور ہو جائے گا۔ وہ لالچ اور خود فریبی کے صحرا میں بھٹکتا پھرے گا اور ہمیشہ خوفزدہ رہے گا۔ ہم سب ایک ایسے زمانے اور وقت میں جی رہے ہیں جہاں مادیت پرستی اک ناسور کی طرح ہمارے وجود میں سرایت کر چکی ہے۔ ہم محض ذاتی مفاد کی تلاش میں سرگرداں اتنا دور نکل آئے ہیں کہ اپنی پہچان اور شناخت کھو چکے ہیں۔ ظاہر اور باطن کے فرق نے ہمیں عجیب و غریب شوق عطا کیے ہیں۔بلاشبہ جدیدیت اپنے ساتھ بے شمار نعمتیں اور آسانیاں لاتی ہے مگر معاشروں کی بنیاد بھی ہلا دیتی ہے۔ اس سے کوئی بحث نہیں، ضروری یہ ہے کہ ترقی اور جدت بے لگام اور بے سَمت نہ ہو۔ آج جہان شناسی میں انسان خود فراموش ہو چکا ہے۔ ہم بے قدر ہو کر جہالت، لالچ اور خود غرضی کی انتہا پر اپنے راستے میں کانٹوں کی فصل بو کر عظمت اور شہرت کے راستوں پر سرپٹ بھاگ رہے ہیں۔ ظاہر کی چمک دمک،دھوکے اور خود فریبی میں اس طرح کھو چکے ہیں کہ یہ احساس بھی نہیں رہا کہ وقت مٹھی سے ریت کی طرح پھسل رہا ہے اور ہم اس کے اثرات سے محفوظ نہیں۔ ہمارا شباب کسی حباب کی طرح ہے۔ وقت کی گرد نے چہرے کی جھریوں میں اپنا اثر دکھایا اور آنکھوں کی چمک کے آگے وقت نے جالے بن دیے۔ چہرے کی چمک،سرخی اور رعنائی میں بھی وہ بات نہیں رہی، بدن میں چستی اور توانائی بھی ویسی نہیں مگر خود فریبی ہے کہ مختلف رنگ و روپ میں ہمہ وقت ہماری زندگی میں شامل ہے۔ وقت کے ساتھ لڑنے کیلئے بیوٹیشن اور کاسمیٹک سرجن دکانیں سجا کر وقت کے پہیے کو الٹا گھمانے کا فریب دے کر دونوں ہاتھوں سے دولت سمیٹ رہے ہیں۔ فطرت سے لڑائی ہمیں مختلف قسم کے کینسر اور جان لیوا بیماریوں سے دو چار کر رہی ہے مگر حضرتِ ِانسان کوکون سمجھائے؟ وہ اَن گنت مسائل میں الجھا ہے۔ شوبز کے ستاروں کو دیکھیں، اپنے عروج کے وقت ان کا حسن و دلکشی،فنی مہارت اور پذیرائی شہرت کے اوجِ ثریا پر پہنچ جاتی ہے مگر ہماری نظروں کے سامنے کتنے ہی ستارے بے بسی اور زوال کی داستان بن گئے۔ کھلاڑی ہوں یا سیاسی،مذہبی و سماجی شخصیات یا دنیاوی جاہ و حشمت والے شہنشاہ‘ سب کو وقت کی رفتار کھا جاتی ہے، سب کے وجود مٹی ہو جاتے ہیں جبکہ زندہ صرف اعلیٰ وارفع خدمات اور کام رہتے ہیں۔ افلاطون نہیں مرا تھا‘ وہ آج بھی زندہ ہے اپنے افکار کے سبب۔ محض فرعون غرقِ دریا نہیں ہوا، اس کی فرعونیت اور رعونت بھی غرق ہوئی۔ دراصل یہ نشانیاں ہیں عقل والوں کے لیے۔
انسان ایک اور فریب میں مبتلا ہے کہ وہ اپنی ذہانت اور فطانت کے سبب مال و دولت کماکر اپنے لیے آسانیاں حاصل کر رہا ہے۔ یہ مال و متاع اس کی خوشی اور سکون کا سبب ہے‘ مگر ایسا کب ہے؟ وہ جس سکون کا متلاشی ہے وہ کہاں ہے؟ بلڈ پریشر، شوگر، موٹاپا اور مختلف ذہنی و نفسیاتی بیماریوں اور الجھنوں میں الجھا ہوا‘ اپنی کمائی گئی دولت سے حقیقی خوشی کشید کرنے سے قاصر! بس خود فریبی ہے اور اپنی ذات کا دھوکا۔ اسی مال کی حرص عزیز واقارب، دوستوں اور خاندان سے دوری کا سبب بنتی ہے۔ کتنے ہی حقدار اپنے جائز حقوق سے محروم کر دیے جاتے ہیں۔ محض دولت صحت، سلامتی، خوشی، سکون اور زندگی کو قریب لانے میں مدد نہیں دیتی۔ اصل میں دنیا کھونے کا مقام ہے۔ چاہے دولت ہو، صحت ہو یا جوانی۔
ہم ایک اور فریب کے بھی اسیر ہیں۔ ہمیشہ اس خوش فہمی میں مبتلا رہتے ہیں کہ ہمارے رشتہ دار اور عزیز و اقارب، بہن بھائی اور اولادیں ہمارے اثاثے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ والدین اپنی جوانی، خوبصورت وقت اور توجہ اپنے بچوں پر لٹا دیتے ہیں۔ ان کی پرورش،تعلیم و تربیت اور سہولتوں کیلئے تمام وسائل بخوشی صرف کر دیتے ہیں۔ جب بچے اپنے پائوں پر کھڑے ہو جائیں تو پہلا اعتراض وہ ماں باپ پر اٹھاتے ہیں کہ آپ کو کیا علم وقت کے تقاضوں کا۔ جو رشتے محبت، اخلاص اور شفقت کے نمونے ہوتے ہیں‘ وہی رقابت، مسابقت،حسد اور کینہ میں بدل جاتے ہیں۔ حویلیاں تقسیم اور دیواریں بلند ہونا شروع ہو جاتی ہیں۔ زمینوں میں تقسیم کی حد بندی خون کے رشتوں میں حد ِفاصل کی طرح ابھرتی ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ سب مایا ہے‘ سب عارضی ہے‘ وقتی ہے۔ یہ دل رکھنے کی باتیں‘ دھوکا اور فریب ہے۔ انسان اس دنیا میں اکیلا آتا ہے اور اکیلے ہی جینا سیکھتا ہے۔ہر شخص اپنے حصے کا بوجھ خود اٹھاتا ہے۔
عہدِ شباب میں سرکش جذبے،چاہنے اور چاہے جانے کی امنگ جواں ہوتی ہے۔ دنیا‘ اس کی خوبصورتی اور دلکشی بھاتی ہے، فطرت اکساتی ہے، سرکشی اور باغی جذبے طوفانوں سے ٹکرانا جانتے ہیں۔ چند خوش نصیب اپنے جوش کو ہوش سے مات دے کر علم و فن کے متلاشی یونیورسٹیوں اور تربیت گاہوں میں علم و معرفت کے گوہرِ نایاب ڈھونڈ لیتے ہیں تو انہیں یہ دنیا اپنے خیالات و افکار کے زیرِ نگیں نظر آتی ہے۔ ایک زمانہ انہیں یہ سمجھنے میں لگتا ہے کہ یہ عہدے، مرتبے،جاہ و جلال اور تمکنت وقتی، عارضی اور متعین وقت کے مرہونِ منت ہے اور جب ہمارے پاس کر سی اور اختیارات نہیں ہوں گے تو احساس ہو گا کہ اس چند روزہ مقام کی خاطر ہم نے کتنا کشٹ کاٹا، کتنی قربانیاں دیں، جوانی اور اپنا قیمتی وقت صرف کیا۔ مقام بدل جانے سے ساتھی اور ماتحت کام کرنے والوں کے اصل روپ بھی سامنے آجاتے ہیں۔ اسی بڑے عہدے کے ریٹائرڈ افسر کو اپنی پنشن کے حصول میں کتنے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں۔ بات دفاتر تک ہی نہیں،گھر میں بیوی بچوں کے مزاج بھی تبدیل ہو تے دکھائی دیتے ہیں۔ سہولتوں کے عادی اہلِ خانہ کو اس شخص کا وجود کھٹکنے لگتا ہے۔ وہ بیوقوف اور خبطی نظر آنے لگتا ہے تو احساس ہوتا ہے کہ وقت کتنا ظالم اور جابر ہے۔ انسان کو خالی ہاتھ کر دیتا ہے۔ نہ وہ مسکراہٹ، نہ دلکشی، نہ رعب و دبدبہ، نہ تمکنت اور نہ لہجے کی کھنک۔ زندگی ہمیں دشت و صحرا، فلک بوس چوٹیوں، بپھرے دریائوں اور وسیع و عریض میدانوں کی وسعتوں سے گزارتی ہے۔ گرم سرد موسم اور رویوں سے شناسائی اور آگاہی کرانے کے بعد یہ ساگر کی گہرائی میں لا پھینکتی ہے تاکہ ہمیں احساس ہو اُن تاریک غاروں میں سانس لیتی زندگیوں کا جنہیں کبھی سطحِ آب پر آکر سورج سے توانائی لینا نصیب نہیں ہو پاتا۔ زندگی سے عارضی شاید ہی کوئی چیز روئے زمین پر ہو۔ ہمارا ہر سانس موت کی امانت ہے اور ہر گزرتا لمحہ ہمیں موت کے مزید قریب کر دیتا ہے مگر کتنی عجیب بات ہے کہ ہم اس سے بھی نظر یں چرانے میں مصروف ہیں۔ ہم اس فریب میں مبتلامرنا نہیں چاہتے کہ دنیا کی رنگینیوں اور خوبصورتیوں میں کھو کر اسی کو دائمی سمجھ لیتے ہیں۔
حکایت مشہور ہے کہ کسی بستی کے باہر ایک فقیر کا ڈیرہ تھا۔ جو بھی وہاں آتا، مہمان نوازی اس فقیر کا خاصہ تھی۔ یہاں تک کہ اگر سب مال مہمانوں کی تواضع پر خرچ ہو جائے تو ادھار لے کر وہ اپنی روایت کو برقرار رکھتا۔ جب آخری وقت آن پہنچا تو قرض وصول کرنے والے ڈیرے پر آ کر تقاضا کرنے لگے۔ فقیر کو مگر یہ پریشانی لاحق تھی کہ ان کی تواضع کیسے کی جائے۔ اتنی دیر میں ایک بچہ پتیسا بیچتے گلی میں آنکلا‘ فقیر نے سارا پتیسا مہمانوں کی تواضع کیلئے خرید لیا۔ بچے نے پیسوں کا تقاضا کیا تو فرمایا کہ بیٹھ جائو‘ جب ان کو رقم ملے گی تو تمہیں بھی مل جائے گی۔ وہ انتظار کرتے تھک گیا تو زاروقطار رونے لگا۔ اتنا رویا کہ ہچکی بندھ گئی۔ اسی اثنا میں ایک شخص اشرفیوں کی تھیلی نذرانے کے طور پر فقیر کو دینے آن پہنچا جس سے سب افراد کا قرض ادا ہو گیا۔ وہاں موجود لوگوں نے پوچھا کہ ہمارا قرض ہی ادا کرنا جب مشکل تھا تو آپ نے اس بچے سے ادھار کیوں کیا؟ وہ بولے کہ اس سے پہلے ایسا رونے والا نہیں آیا تھا جو باقیوں کیلئے بھی وسیلہ بنتا۔ یہ دنیا بھی فقیر کا ڈیرہ ہے‘ بات ہے قناعت اور اللہ پر کامل یقین کی‘ باقی سب عبث ہے۔ واصف علی واصف اپنی کتاب قطرہ قطرہ قلزم میں فرماتے ہیں ''ہم اس دنیا سے کچھ لے کر بھاگ جانا چاہتے ہیں لیکن اس دنیا سے کچھ بھی اٹھا کر نہیں لے جا سکتے۔ بس یہاں سے اٹھا کر وہاں رکھ سکتے ہیں۔ ہم سب قلی ہیں، سامان اٹھاتے پھرتے ہیں۔ کب تک؟ قلی کے نصیب میں صرف وزن ہوتا ہے۔ وزن اور صرف وزن۔ اس دنیا میں کچھ بھی کسی کی ملکیت نہیں‘‘۔