سچائی پر نہ صرف یقین رکھنا ضروری ہے بلکہ سچائی پر قائم رہنا اس سے بھی کہیں اہم اور ضروری ہے ۔ بھلے جھوٹ کے اس نقارخانے میں سچائی کی آواز نقار خانے میں طوطی کی آواز کے برابر ہی ہو کیونکہ سچ کی یہ مدھم سی آواز بھی جھوٹ پر بھاری پڑنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ اس لیے سچائی کی راہ اختیار کرنا وقت کا اہم تقاضا ہے۔ جس طرح کرۂ ارض پر پانی کے بغیر زندگی کا وجود نا ممکن ہے اسی طرح سچائی کے بغیر نظامِ عالم کی عمارت کھڑی نہیں ہو سکتی۔ معاشرتی رویوں کا بغور جائزہ لیا جائے تو بے شمار اخلاقی اور تہذیبی اقدار معدوم ہوتی نظر آتی ہیں اور برائیوں اور بد اعمالیوں کے واقعات اپنی انتہائوں کو چھو رہے ہیں۔ جھوٹ، ملاوٹ ، نفاق اور ملمع کاری جابجا ملتی ہے۔ سچائی اور دیانت جیسے اعلیٰ و عمدہ اوصاف کی اہمیت کم ہو گئی ہے۔ زمانے کی رفتار کے ساتھ ساتھ ہمارے اطوار اور اقدار بھی بدلنے لگی ہیں۔ جھوٹ کے اندھیرے میں سچائی کی تلاش بھوسے میں سوئی ڈھونڈنے کے مترادف ہے۔ کہیں نہ کہیں لاشعور میں ہم یہ تسلیم کر چکے ہیں کہ زمانے کا چلن جھوٹ پر مبنی ہے۔ مال کی حرص ہمارے منہ سے رال کی طرح ٹپک رہی ہے۔ کھرے سچے لوگوں کا اب زمانہ ہی نہیں رہا۔ ہم سچائی کو اپنے روز مرہ معاملات کے بجائے دوسروں کے قول و فعل میں تلاش کرتے نظر آتے ہیں۔ تو ایسے میں سچائی کہاں ملے گی؟جھوٹ کے اس معاشرے میں سچائی پر یقین متزلزل ہوتا جا رہا ہے۔ چہروں پر سے دھول‘ دلوں پر سے مہر‘ اپنے باطن سے نفاق اور کینہ دھونے کے لیے سچائی ہی واحد ذریعہ ہے جس کی اہمیت مسلمہ ہے۔ کہتے ہیں کہ دنیا میں اگر کسی کو سنوارنے اور سکھانے کی ضرورت ہے تو وہ ہماری اپنی ذات ہے‘ اس کے علاوہ دوسرا کوئی نہیں۔ سچ بولنے کی عادت بچپن سے ہی ڈالی جاتی ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ والدین، بہن بھائی اور خاندان کے دیگر افراد عملی مثال بنیں۔ بچے بڑوں کے کردار اور رویوں سے سیکھتے ہیں۔ جابجا لیکچر یا ڈانٹ ڈپٹ بچوں کو ڈرا ہوا، خوفزدہ، کمزور اور ضدی تو بنا سکتی ہے مگر صدق جیسا اعلیٰ وصف پیدا نہیں کر سکتی۔ ہم سب سے زیادہ جھوٹ بچوں سے بولتے ہیں۔ کبھی ڈرانے، کبھی ضد اور ہٹ دھرمی کو ختم کرنے کے لیے۔ سمجھانے کے بجائے سوال کرنے اور جستجو پر انہیں جھڑک دیتے ہیں۔ سچ بولنے پر انہیں بڑوں کی خفگی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس ساری صورتحال میں وہ بھی سچائی کے بجائے جھوٹ کا سہارا لینا درست اور جائز سمجھنے لگتے ہیں۔ جو یہ ہنر نہیں سیکھتا وہ بے وقوف اور سادہ کہلاتا ہے۔بدقسمتی سے ہم نے ماڈرن نظر آنے اور دوسروں کو دکھانے کے لیے گھر کے بزرگوں کو بچوں سے دور کر دیا۔ تگڑی فیس کے عوض تین سال کا بچہ سکول بھیج کر اعلیٰ انسانی اقدار اور روایات سے محروم کر دیا جاتا ہے۔ جو رکھ رکھائو اور تہذیبی ورثہ سینہ بہ سینہ نسلوں میں منتقل ہونا تھا وہ کھوکھلے اور مصنوعی پن کی شکل میں لباس، بول چال اور رویوں کی پستی میں ہر جگہ دیکھا جا سکتا ہے۔
سچائی وہ اعلیٰ وصف ہے جس سے انسان کے ایمان کی تکمیل ہوتی ہے اور جس انسان میں یہ خصوصیت پیدا ہو تی ہے وہ نجات پا جاتا ہے۔ سچا شخص ہی باوقار ،معتبر اور ایمان کے اعلیٰ درجے پر فائز ہونے کا حقدار ٹھہرتا ہے۔ دنیا اور آخرت کی بھلائیاں اس کی منتظر ہوتی ہیں۔ اس کے برعکس کذب انسان کو بندوں اور خالقِ کائنات سے دور کر دیتا ہے۔ جھوٹ بولنا انتہائی آسان مگر بزدلی کی علامت ہے۔ سچ کٹھن اور جاں گسل ہوتا ہے مگر ہمت، طاقت اور روحانی تسکین سچائی کے راستے پر ہی میسر آ سکتی ہے۔ دوسروں کے بھروسے، اعتماد اور یقین کو پختہ کرنے میں یہ وصف ہیکلیدی کردار ادا کرتا ہے۔
جھوٹ ہم تب بولتے ہیں جب معاملات میں پھنس جاتے ہیں اورہم کچھ کھونے کے ڈر سے جھوٹ کا سہارا لیتے ہیں۔ مال و زر کے زیاں یا چھن جانے کا خوف، گھریلو ناچاقی، والدین اور اساتذہ کا خوف یا راز فاش ہو جانے کا اندیشہ اور اس جیسے عوامل ہمیں سچ بولنے سے روکتے ہیں۔ نفسیاتی طور پر کمزور دماغ‘ منفی رجحانات اور معاشرتی رویے بھی سچائی اور دیانت داری کے راستے کی دیواریں ہیں۔ اس حوالے سے ایک کہانی ہمارے اجتماعی رویوں کی خوب عکاسی کرتی ہے۔ کہتے ہیں کہ ایک ریاست کے بادشاہ نے ایک دن یہ حکم جاری کیا کہ آج شام شہر کے باہر تالاب میں ہر شخص ایک مٹکا دودھ کا ڈالے گا۔ہر شخص نے حکم کی تعمیل کی۔ صبح سویرے بادشاہ کے خدام اور سپاہی مقرر کردہ جگہ پر پہنچے تو تالاب پانی سے بھرا ہوا تھا۔ تحقیق کرنے پر یہ راز کھلا کہ ہر شخص نے یہ سوچ کر پانی کا مٹکا تالاب میںڈالا کہ دیگر لوگ دودھ ڈال رہے ہوں گے‘ میرے ایک مٹکا پانی کا ڈالنے سے تالاب کو کیا فرق پڑے گا۔ بسا اوقات ہم اسی وجہ سے سچ سے گریزاں رہتے ہیں کہ باقی سب تو جھوٹ بول رہے ہیں‘ میرے اکیلے کے سچ بولنے سے کیا فرق پڑے گا۔ معاشرے کو فرق پڑے نہ پڑے، اپنی ذات کو بے انتہا فرق پڑتا ہے۔ اگر ہر شخص اپنی اصلاح کر لے تو پورا معاشرہ راتوں رات سدھر سکتا ہے۔ سچائی صرف زبانی اقرار اور دل میں یقین ہی نہیں بلکہ اپنے معمولاتِ زندگی اور قول و فعل میں ایسا درست عمل ہے جسے کوئی جھٹلا نہ سکے۔
ہم اس نبی کے امتی ہیں کہ جنہیں اعلانِ نبوت سے قبل بھی اہلِ مکہ صادق اور امین کی نسبت سے جانتے تھے کہ آپﷺ نے کبھی بھی جھوٹ نہیں بولا تھا، کبھی امانت میں خیانت نہیں کی تھی۔ سردارانِ قریش اور عرب جرأت و بہادری اور سچائی کے وصف کو بہت قدر کی نگاہ سے دیکھا کرتے تھے۔ سردار مکہ ابو سفیان کو جب قیصرِ روم کے دربار میں سولہ سوالات کے بابت پوچھا گیا تو خود بتایا کہ میرا دل چاہا کہ میں محمد (ﷺ) کے بارے میں غلط بات کہہ دوں مگر دوسرے لمحے یہ خیال آیا کہ پھر میرے قافلے والے واپس جا کر مجھے سردار کیونکر مانیں گے۔ جھوٹ کفارِ مکہ بھی پسند نہیں کرتے تھے۔ سچائی اور صدق کے عمومی طور پر تین درجے ہوتے ہیں۔ ایک زبان کی سچائی ہے۔ دوسرا دل کی صداقت ہے یعنی جو زبان پر ہو وہی دل اور دماغ میں بھی ہونا لازم ہے۔ تیسرا درجہ عمل کی سچائی ہے کہ بندہ اپنی زندگی میں جو کرے‘ اللہ کی اطاعت اور خوشنودی ہی کی خاطر کرے۔ اس میں دکھاوا اور نمودونمائش ہر گز نہ ہو۔
صحیح اور راست باز انسان وہ ہے جو زبان، دل اور دماغ کی مکمل ہم آہنگی سے اپنے عمل کی صداقت کا اظہار کرتا ہو۔ سچائی معاشرتی زندگی کا وہ زینہ ہے جس میں دنیاوی کامیابی اور اخروی نجات کا راستہ ہے۔ ایک شخص حضور اکرمﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا اور عرض کی یا رسول اللہﷺ! میرے اندر چار بری عادتیں ہیں۔ مجھے مے نوشی کی علت ہے، مجھ میں چوری کی عادت ِبد ہے، میں بدکاری کا ارتکاب کرتا ہوں اور جھوٹ بولتا ہوں۔ میں ان کو یکبار نہیں چھوڑ سکتا‘ آپﷺ فرمائیں کہ میں کون سی ایک عادت چھوڑ دوں؟ آپﷺ نے فرمایا جھوٹ بولنا ترک کر دو۔ کچھ عرصے بعد وہ شخص دوبارہ آپﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی یا رسول اللہﷺ! میری تمام بری عادتیں ایک ساتھ ہی چھوٹ گئیں۔ پہلے میں جھوٹ بول کر اپنے عیب چھپا لیتا تھا مگر اب غلط کام کر کے چھپا نہیں سکتا۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ جھوٹ تمام برائیوں کی جڑ ہے۔ معاشروں کے باہمی تعلقات کی بڑھوتری اور انحصار صاف ستھرے اور سچے کھرے افراد پر ہے۔ سچائی وہ ہنر، وہ خصلت اور وصف ہے جو قوموں کی برادری میں عزت و تکریم کو بڑھاتا ہے۔ دنیا کے تمام مذاہب اور معاشروں کی بنیاد سچائی اور ایمانداری پر ہی رکھی جاتی ہے۔ یہاں تک کہ جو معاشرے خود کو لادین کہلواتے ہیں‘ وہاں بھی دیگر معاشرتی اقدار کے ساتھ سچائی اور راست بازی کو بنیادی اینٹ کا درجہ حاصل ہے۔
انسان کو وہی عطا ہوتا ہے جس کے لیے وہ پوری شدت سے آرزو اور سعی کرتا ہے۔ ایک دفعہ ایک شخص سقراط کے پاس گیا اور پوچھا کہ کامیابی کا راز کیا ہے؟ سقراط نے کہا: یہ جاننے کیلئے میرے ساتھ ندی پر جانا ہوگا۔ دونوں ندی کنارے پہنچ گئے۔ سقراط اس کو لے کر ندی میں اتر گیا۔ گہرے پانی میں جاتے ہی وہ شخص گھبرا گیا۔ سقراط نے اس کو گردن سے پکڑ ا اور گہرے پانی میں غوطے دینے لگا۔ سقراط جسمانی طور پر مضبوط آدمی تھا۔ جب اس نے دیکھا کہ اب اس شخص کی حالت خراب ہو رہی ہے تو اسے کنارے پر ڈال دیا۔ وہ تیزی سے سانس بحال کرنے لگا ، سقراط نے پوچھا کہ جب تم پانی میں غوطے کھا رہے تھے تو کیا چیز تمہاری بنیادی ضرورت تھی؟ وہ بولا: ہوا۔ سقراط نے کہا: اب سمجھو کہ جس چیز کو تم شدت سے چاہو‘ وہ تمہارا مقدربن جاتی ہے۔ اسی بات کی حکمت پر نپولین ہل نے بات کرتے ہوئے کہا ''انسان کا دماغ جس چیز کو سمجھ لے اور اس کو ایمان بنا لے‘ وہ اسے بہ آسانی حاصل کر سکتا ہے‘‘۔ ہم اگر حق اور سچ کی افادیت، ضرورت اور اہمیت کو دل اور دماغ سے تسلیم کر لیں تو کوئی وجہ نہیں کہ ہم فلاح و کامرانی کی منزل نہ پا سکیں۔ امام غزالیؒ فرماتے ہیں کہ اگر ہم سے غلطی ہو جائے تو ابلیس کی طرح دلیر نہیں ہونا چاہیے بلکہ معافی مانگ لینی چاہئے کیونکہ ہم ابنِ آدم ہیں ابنِ ابلیس نہیں۔ جب سچائی راسخ ہوجاتی ہے تو حضرت بلال حبشیؓ کو جلتے کوئلے، گرم ریت اور ہر طرح کا ظلم بھی سچ سے نہیں روک سکتا۔ وہ ہر کوڑے کے جواب میں اللہ احد‘ اللہ احد ہی کی صدا بلند کرتے ہیں۔ حضرت موسیٰ کی پرورش کرنے والی حضرت آسیہ پر جب ظلم و ستم ڈھایا جا رہا تھا تب بھی وہ یہی کہتی تھیں کہ موسیٰ کا رب سچا ہے۔ جس کسی کا سچائی پر ایمان راسخ ہو جائے‘ اس کا اس کے بغیر گزارہ ممکن نہیں رہتا۔ ہم سب کو سچائی پر قائم رہنا ہے کہ یہی صراطِ مستقیم ہے اور یہی ان لوگوں کا راستہ ہے جن پر اللہ کا فضل اور اس کی نعمتوں کا نزول ہوا۔