عید

مسلمانانِ عالم سال میں دو عیدیں مناتے ہیں، عید الفطر اور عید الاضحی۔ مگر عید الفطرکی تیاری اور خوشی الگ ہی طور پر نظرآتی ہے۔ پندرہ رمضان کے بعد بازاروں میں چہل پہل اور رونق کا آغاز ہو جاتا ہے۔ امیر غریب‘ ہر طبقے سے تعلق رکھنے والے شہریوں کی خوشی دیدنی ہوتی ہے۔ درزیوں کی دکانیں ہوں یا فٹ پاتھ پر لگائے گئے عارضی بازار، خریداروں کی توجہ کا مرکز بنتے ہیں۔ برانڈ زپر بھی خواتین اپنی پسند کے ملبوسات خریدتی دیکھی جا سکتی ہیں۔ گویا عید کی تیاریوں میں لڑکیاں سب پر سبقت لینے کے شوق میں میچنگ اور کنٹراسٹ کی الجھن میں کزنز، سہیلیوں اور بہنوں کے ساتھ مشاورت اور وٹس ایپ پر شیئرنگ کرتی ہیں۔ زمانہ جدید نے کمیونیکیشن بہت آسان کر دیا ہے۔ دنیا کے کسی بھی حصے میں مارکیٹ میں دستیاب اشیا کی خریداری گھر میں اور دیس بدیس میں رہنے والوں کی پسند،کلر، سٹائل، سائز اور میٹریل کی مکمل تفصیل کے ساتھ باہمی تبادلہ خیال سے ممکن ہو چکی ہے۔ گویا خریداری ایک ٹیکنیکل پروسیس اور تعلیم و تربیت کا حصہ بن چکی ہے۔ زندگی کی مصروفیات اور رزق کے مسائل میں الجھے لوگ، گھروں، شہروں اور آبائی علاقوں کی محبت کو کبھی نہیں بھولتے۔ خوشی ہو یا غم، عیدیں ہوں یا تہوار، اپنوں کے ساتھ ہی منانے کو ترجیح دیتے ہیں۔ آبائو اجداد کی ارواح کے ثواب اور روایات کو نبھانے کے لیے بند گھروں کو کھولا جاتا ہے۔ جو لوگ ہم سے جدا ہو گئے، ان کی کمی شدت سے محسوس کی جاتی ہے۔ قبرستانوں میں قبروں کی دیکھ بھال، صفائی، فاتحہ خوانی ایسی روایات ہیں جو آج بھی محبت اور اخلاص سے نبھائی جاتی ہیں۔ عید کے دن بچوں کے ساتھ قبروں پر دعا کے لیے جانے کا مقصد آنے والی نسلوں کو اپنی اصل، مٹی کے ساتھ محبت،رشتوں کی اہمیت اور تربیت کے لیے ضروری ہے۔
دراصل عید الفطر مسلمانوں کے لیے ماہِ صیام کے اختتام پر اللہ تعالیٰ کا انعام ہے۔ عبادات اور اعمال کی جزا اور بندوں کے لیے خوشی اور اطمینان کا ذریعہ ہے۔ دنیا بھر کے مسلمان اس دن کو خوشی اور اہتمام سے مناتے ہیں۔ رمضان المبارک کے آخری ایام میں شہر بھر کے بازار اور تجارتی مراکز میں خریداروں کا رش نظر آتا ہے۔ دیارِ غیر میں بسنے والے پردیسیوں کے لیے عید اپنوں میں گزارنے کی آرزو شدت اختیار کر جاتی ہے جس کے لیے وہ سال بھر اپنی چھٹیاں اور پیسہ بچا کر رکھتے ہیں۔ پورا سال اپنوں کی محبت اور چاہت میں تحفے اکٹھے کرتے ہیں تاکہ وہ اپنے دیس میں بسنے والوں میں محبت بانٹ سکیں۔ جدائی میں گزرے ماہ و سال کا درد اپنوں کے گلے لگ کر بھلا سکیں۔ اسی طرح اندورنِ ملک دوسرے شہروں میں بسنے والے مسافر ہزاروں میل کی مسافت اور سفر کی صعوبت برداشت کرتے ہیں تا کہ عید آبائی علاقوں میں اپنوں کے ساتھ منا سکیں۔ پچھلے کچھ عرصے سے چاند رات کو بہت زیادہ اہمیت حاصل ہو گئی ہے۔ جیسے ہی چاند کا اعلان ہوتا ہے‘ اعتکاف مکمل کرنے والوں کے لیے ہار، پھول، مٹھائیاں لے کر رشتہ داروں کے گھروں کا رخ کرنا رواج بن چکا ہے۔ چاند رات میں نوجوان بچے دوستوں، سہیلیوں، کزنز کے ہمراہ بازاروں اور مالز کا رخ کرتے ہیں۔ چوڑیاں، مہندی، جیولری اور میچنگ سینڈل وغیرہ کی خریداری ہمیشہ چیلنج رہتی ہے اور چاند رات تک ان کی تلاش جاری رہتی ہے۔ تحائف اور پھولوں کی خریداری عید کی خوشیاں دوبالا کر دیتی ہئں۔ گھروں میں عید کے کھانوں میں شیر خرما، سویاں اور میٹھی ڈشز کی تیاری چاند رات میں ہی کر لی جاتی ہے مگر اب وقت بدلنے سے روایات بھی بدلتی جا رہی ہیں۔ پہلے صرف خواتین بیوٹی پارلر کا رخ کرتی ہیں۔ اب مردوں کے بھی پارلرز کھل گئے ہیں۔ لڑکے ہیئر سٹائل کے ساتھ سکن کیئر کے لیے بھی پارلرز کی مدد لینے لگے ہیں۔ پوش علاقوں میں عید نمود و نمائش اور سٹیٹس کا نام ہے اور دکھاوا ہی باقی رہ گیا ہے۔ چاند رات میں مہندی لگوانے کے لیے نت نئے ڈیزائنز کا بھی ہونا ضروری ہے۔ مہندی اور عورت کی آپس میں مشابہت کو شعرا اور افسانہ نگاروں نے رومانوی انداز میں بیان کیا ہے کہ رنگ ِ زندگی لگنے لگے۔ حنا اگنے سے ہتھیلیوں پر رنگ بکھیرنے تک جن جن مشکل مراحل اور تکالیف سے گزرتی ہے اسی طرح عورت بھی اپنے خاندان، شوہر، بچوں کی زندگیوں میں رنگ، مہک، خوشبوں اور سجاوٹ بھر دیتی ہے۔ وہ حسن، نفاست اور تخلیق کا استعارہ ہے۔ عید ادھیڑ عمر افراد کو بھی ماضی کی سنہری یادوں میں لے جاتی ہے۔وہ اپنی خو شیوں کو اپنے قد کے برابر ہوتے بچوں میں تلاش کرنے لگتے ہیں۔
چاند رات کی خوشی اس وقت دوبالا ہو جاتی ہے جب دل میں رہنے والوں کا ساتھ نصیب ہوتا ہے۔ مل کر گھر میں سجاوٹ کرتے ہیں، گلدانوں میں تازہ پھول، کلائیوں میں موتیے اور چمپا کے مہکتے گجرے، گھروں اور دل کی زمین میں خوشی اور خواب بو دیتے ہیں جن کی مہک گھر کے ہر گوشے میں پھیل کر دلوں کو سکون اور روح کو قرار بخشتی ہے۔ بچہ پارٹی عیدی اکٹھی ہونے کی خوشی میں اسے بے دریخ خرچ کرنے کو تیار نظر آتی ہے۔ گویا چاند رات اور عید کا دن خوشیاں اور مسکراہٹیں بکھیرنے کا سبب بنتا ہے۔ عیدین عزیز و اقارت، دوستوں اور پڑوسیوں کو قریب کرنے کا وسیلہ بنتی ہے۔ تحائف کا تبادلہ ہوتا ہے۔ سیر و تفریح کے پروگرام بنتے ہیں۔ دعوتیں اور تقریبات کا اہتمام ہوتا ہے۔ میل جول بڑھتا ہے تو دلوں میں حسد اور رقابت کے جذبات نہیں ابھرتے۔ ہم پر فرض ہے کہ ہم کم حیثیت اور سوشل سٹیٹس رکھنے والے رشتہ داروں اور ہمسایوں کی دلجوئی کریں۔ انہیں دعوتوں میں شامل کریں اور ان کے گھروں میں تحائف، پھل اور مٹھائیاں ضرور بھجوایا کریں۔ مسکینوں پر بھی فرض ہے کہ وہ دوسروں کے مال اور حیثیت پر نظر نہ رکھیں، اپنی قسمت پر قانع رہیں اور سوال سے اجتناب کریں۔ قناعت اور صبر کا صلہ ضرور عطا ہوتا ہے۔
ہم یہ مت بھولیں کہ جب ہم پر امن،بے فکر چاند رات اور عید کی خوشیاں اپنے گھر اور خاندان کے ساتھ منانے میں مشغول ہوتے ہیں تو ان ہی لمحات میں پاک آرمی کے جوان سرحدوں کی حفاظت اور تحفظ کے لیے اپنے گھر، والدین اور بچوں سے دور دشمن کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اپنے فرائضِ منصبی ادا کر رہے ہوتے ہیں۔ سیاچن گلیشیر بلتورو سے کشمیر کے برفزاروں تک رگوں میں لہو جما دینے والی ٹھنڈ ان کے عزم ِ صمیم میں لرزش نہیں لا سکتی۔ بہادری، جرات، ایثار اور قربانیوں کی وہ لازوال داستانیں رقم کر رہے ہوتے ہیں جن کو ہم سننے کا حوصلہ بھی نہیں رکھتے یا شاید الفاظ ان کی خدمات کو بیان کرنے سے قاصر ہیں۔ چٹیل سنگلاخ چٹانوں، دریائوں کے بے رحم لہروں اورصحرائوں کی حدت ان کے حوصلے میں کمی نہیں لا سکتی۔ جنگ ہو، امن ہو یا شہریوں کی جان و مال کی حفاظت وہ کبھی اپنے فرائض ِ منصبی سے غفلت کرتے نہیں دیکھے جائیں گے۔ ہوائوں پر حکومت کرتے یہ شیر دل فضائوں میں اپنی بالادستی رکھنے والے پر عزم افسران اور جو ان ملک و قوم کا سرمایہ اور مان ہیں ۔تراویح کی نماز ہو یا عید ین کے اجتماعات، سیاسی،مذہبی جلسے جلوس میں پولیس، ایف سی اور رینجرز اپنی جان کو خطرے میں ڈال کر حفاظت اور خوشیوں کے حصول میں مددگار بنتے ہیں۔ ہر اہم دن پر ان کی چھٹیاں کینسل ہوتی ہیں۔ سال بھر دن رات اپنے فرائضِ منصبی ادا کرتے ان کے دلوں میں بھی تڑپ تو ہوتی ہوگی کہ چاند رات کے موقع پر اپنی بیوی اور بچوں کی شاپنگ کی فرمائش پوری کریں مگر ان کے بچے اور خاندان محروم رہ کر قربانیاں دیتے ہیں جس کا احساس شاید ہم نہیں کرتے۔ہم کبھی بھی جنگ زدہ علاقوں اور بے گھر ہو جانے والے لوگوں کی زندگیوں اور مہاجروں کی کچی بستیوں کے مکینوں کی تکالیف اور محرومیوں کا اندازہ نہیں لگا سکتے ہیں جنہیں زندگی کی بنیادی سہولتیں میسر نہیں۔ شہدا کے لواحقین اور بچوں کی اکیلے چاند رات اور عیدیں کیسے گزرتی ہیں، شاید اس کا حق ہم ادانہیں کر سکتے۔
ہمیں عید کی خوشیوں میں ایک نکتے پر توجہ مرکوز رکھ کر خود احتسابی کرنا ہے اور اللہ نے جو نعمتیں عطا کی ہیں‘ ان کا شکر ادا کرنا ہے۔ ان لوگوں کا سوچنا ہے جو برسوں اپنے گھروں کو لوٹ کر نہیں آ سکتے۔ مالی مسائل آڑے آتے ہیں یا کوئی اور مجبوریاں اپنوں سے دوری کا سبب بنتی ہیں۔ عید ہمیں یہ سوچنے کا موقع دیتی ہے کہ ہم نے کیا کھویا‘ کیا پایا؟ کیا ہم کسی کے ہونٹوں پر مسکراہٹ بکھیرنے کا وسیلہ بنے یا کوئی آنسو ہماری وجہ سے حلق میں اٹک گیا اور کسی کے دل میں اماوس کی راتوں کا دکھ، ہجر کا زہر رگوں میں تو نہیں اتر گیا؟ جدائی اور تنہائی میں آنکھوں کے کنارے نمناک تو نہیں ہوئے؟ جانے انجانے میں ہم سے کسی کا دل تو نہیں ٹوٹا؟ اگلے سال کی عید تک حساب کتاب اور زندگی کے صفحات پر وقت کی تحریر کو پڑھنا، سمجھنا اور سیکھ کر سلجھانا ہماری بنیادی ذمہ داری ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں