نہ مالِ غنیمت، نہ کشور کشائی…(2)

نبی کریمﷺ کے دورِ سعید اور بعد ازاں چاروں خلفائے راشدین کے عہد تک‘ قانون کی حکمرانی اسلامی ریاست کا سنہرا اصول رہا۔ کوئی بڑا ہو یا چھوٹا‘ قانون کی عملداری سب کے لیے مساوی تھی۔ انصاف کے معاملے میں امتیازی سلوک روا نہ رکھا جاتا تھا۔ یمنی چادریں مالِ غنیمت میں آئیں تو سب میں مساوی تقسیم کی گئیں۔ حضرت عمر فاروقؓ خلیفۂ وقت تھے مگر انہیں اپنے کُرتے کی لمبائی کے بارے میں جوابدہ ہونا پڑا۔ اس کے برعکس یزیدی عہد قانون کی حکمرانی اور مساوی حقوق کی فراہمی کے حوالے سے ایک بدترین مثال تھا۔ بادشاہ، شہزادے اور امرا تو قانون کی عملداری سے مبرا تھے ہی، شاہی محل کے سر پھرے غلام اور باندیاں تک قانون سے بالاتر تھے۔ اسلامی قوانین کے چیتھڑے اڑا دیے گئے۔ لوگوں کی گردنیں محفوظ تھیں نہ عزت و آبرو۔ مال کی حفاظت کی ضمانت بھی مفقود تھی۔ انصاف کے دو معیار تھے، کمزور کے لیے الگ اور طاقتور کے لیے الگ۔ اگر کوئی خدا ترس قاضی طاقتور کے خلاف فیصلہ سناتا تو اس کو قید و بند کی صعوبتیں جھیلنا پڑتیں۔ اکثر و بیشتر افراد نے اس وقت یہی بہتر جانا کہ ظلم و زیادتی میں حکومت و اہلِ منصب کا آلہ کار بن کر باقی ماندہ زندگی گزار دی جائے۔ جن میں خدا خوفی کا عنصر غالب تھا‘ وہ قصرِ حکومت سے کوسوں دور جا بسے تھے۔ اسلام کے سیاسی اور ریاستی نظام کے اصل تشخص کو خلط ملط کر دیا گیا۔ امت کی یکجہتی، اتحاد اور تنظیم پارہ پارہ ہو کر رہ گئی۔ جب سیدنا امام حسینؓ کے سامنے یہ سب کچھ ہو رہا تھا تو وہ خاموش کیونکر رہ سکتے تھے؟ لہٰذا ان کا اولین مقصد امت کی اصلاح تھا۔ رسول اللہﷺ کی فراموش کردہ سنت کو زندہ اور دین کو خالص رکھنا اور بچانا ان کا مقصود تھا۔ خانوادۂ رسولﷺ سے زیادہ کون اس کا مستحق ہو سکتا تھا؟ اب اس دورِ حکومت میں دینِ اسلام کی بقا اور سلامتی کی اور کوئی امید باقی نہیں رہ گئی تھی ماسوائے اس کے کہ آپؓ اٹھ کھڑے ہوں۔ آپؓ نے بصرہ کے بزرگوں کو خط لکھا جس میں معاشرے میں در آنے والی بدعتوں کی طرف اشارہ کیا اور حکومت کے خلاف کھڑے ہونے، سنت رسول کو زندہ کرنے اور بدعات سے جنگ کرنے کی بابت تحریر فرمایا ''میں آپ لوگوں کو اللہ کی کتاب اور رسول اللہﷺ کی سنت کی طرف دعوت دیتا ہوں۔ سنتِ پیغمبر کو ختم کر دیا گیا ہے۔ بدعات کو زندہ کر دیا گیا ہے۔ اگر آپ لوگ میری بات کو سنو گے اور میرے حکم کی پیروی کرو گے تو میں آپ کو راہِ راست کی طرف ہدایت کروں گا‘‘۔ (تاریخ طبری)
اہلِ کوفہ کے خطوط کے جواب میں جب آپؓ نے حضرت مسلم بن عقیلؓ کو کوفہ روانہ کیا تو انہیں دیے گئے ایک خط میں تحریر کیا: امام (حاکم) صرف وہ ہے جو کتاب اللہ پر عمل پیرا ہو، عدالت قائم کرے، دین حق پر یقین رکھتا ہو اور اپنے آپ کو خدا کے لیے وقف کرے۔ (الکامل فی التاریخ، تاریخ طبری) اسی طرح جب کربلا کے راستے میں مشہور شاعر فرزدق سے ملاقات ہوئی تو آپؓ نے فرمایا ''وہ گروہ جس نے شیطان کی پیروی کو قبول کر لیا‘ خدائے رحمن کی اطاعت کو ترک کر دیا‘ وہ لوگ زمین میں کھلم کھلا فساد کرتے ہیں۔ حدودِ الٰہی کو نابود کر رہے ہیں، شراب پیتے ہیں، فقیروں اور بے چاروں کے مال کو ذاتی ملکیت قرار دے دیا گیا ہے۔ میں دین کی سربلندی کے لیے اپنے آپ کو سب سے زیادہ مستحق سمجھتا ہوں تاکہ اللہ کا دین کامیاب ہو جائے‘‘۔ اسی طرح ایک روایت میں آتا ہے کہ آپؓ نے فرمایا: اہلِ حکومت نے خداے رحمن کی اطاعت ترک کردی ہے فساد پھیلا رکھا ہے، قوانین الٰہی کو معطل کر رکھا ہے بیت المال کو اپنے لیے مخصوص کرلیا ہے۔ خدا کے حلال کردہ کو حرام اور حرام کردہ کو حلال سمجھا لیا ہے۔ ایسے میں دین کی نصرت اور شریعت کی بالادستی کے لیے قیام کرنے کا میں زیادہ سزاوار ہوں۔ (تاریخ طبری) لشکر ِحر سے خطاب کرتے ہوئے آپؓ نے فرمایا ''کیا تم نہیں دیکھ رہے کہ حق پر عمل نہیں ہو رہا۔ باطل سے پرہیز نہیں ہو رہا ہے۔ ایسے حالات میں مومن پر لازم ہے کہ وہ اپنے پروردگار کے دیدار (شہادت) کی طرف راغب ہو جائے‘‘۔ آپؓ نے یقینا اپنے عظیم مقصد کو حاصل کر لیا اوردین کو قیامت تک زندہ کر دیا ۔
معرکۂ حق و باطل کربلا میں محرم کے مقدس مہینے میں اما مِ عالی مقام اور شیر خدا حضرت علیؓ کے جری فرزندان، اہلِ بیت اطہار اور اصحاب کو جامِ شہادت نصیب ہوا مگرسیدنا حسینؓ کو اس کے علاوہ بھی ایک بہت بڑی نصرت عطا ہوئی۔ آپؓ نے خوابیدہ مسلمانوں کے افکار کو جگاکر رکھ دیا اور ظالم حکومت کو لرزا دیا۔ حضرت امام حسینؓ نے اپنے پاک خون کو اللہ کی راہ میں نثار کر دیا تا کہ مسلمانوں کو جہالت اورگمراہی سے نجات مل جائے۔ یہ سوال کہ اس جنگ میں کون کامیاب ہوا‘اب سب پر عیاں ہے۔ دنیا آج بھی سیدنا حسینؓ کے افکار اور ان کی راہِ عمل پر گامزن ہونے کی خواہاں ہے مگر ابنِ زیاد اور یزید کا کوئی نام لیوا بھی نہیں۔ تمام مسلمان آج فکری طور پر خود کو سیدنا حسینؓ کا جانشین کہلوانے پر فخر محسوس کرتے ہیں۔ اگر لشکرِ یزید کا مقصد اولاد ِ رسولﷺ کو قتل کر کے اسلام کو نقصان پہنچانا تھا تو وہ اس مقصد میں بھی بری طرح ناکام رہا۔ اللہ تعالیٰ نے سورہ آلِ عمران میں فرمایا ہے ''جو لوگ اللہ کی راہ میں قتل کیے جائیں انہیں ہر گز مردہ خیال نہ کرو‘ وہ اپنے رب کے حضور زندہ ہیں اور انہیں رزق دیا جاتا ہے‘‘۔ اسی طرح حدیث شریف میں ہے کہ '' شہید کو اپنے قتل سے اتنی ہی تکلیف ہوتی ہے جتنی تمہیں چیونٹی کے کاٹنے سے ہوتی ہے‘‘۔ (ابن ماجہ)
امامِ عالی مقامؓ کے سامنے دو راستے تھے‘ یا تو وہ دیگر عام لوگوں کی طرح خاموش ہو کر بیٹھ جاتے اور عہدِ یزید اور اس کی تمام تر خرافات سے چشم پوشی اختیار کرتے ہوئے اپنی اور اپنے اہلِ بیت کی بقا اور سلامتی کو ترجیح دیتے یا پھر وہ اس باطل نظام اور ان تمام شرانگیز قوتوں کے مقابلے میں عَلمِ حق بلند کرتے اور اپنے نانا کے دینِ قیم کی اصل روح بحال کرتے۔ آپؓ نے وہی راستہ اختیار کیا جو خانوادۂ رسول کا خاصہ ہے۔ آپؓ نے حق و باطل اور خیر و شر کی اس لڑائی کو منطقی انجام تک پہنچانے کی ٹھان لی اور دینِ اسلام کی سلامتی اور بقا کا بیڑا اٹھا کر کربلا کے فیصلہ کن معرکے میں انسانی تاریخ کی انتہائی المناک قربانی پیش کر کے خیر، حق اور سچ کی فتحِ مبین کو یقینی بنا ڈالا اور شرو باطل کو ہمیشہ کے لیے ہزیمت کا شکار کر دیا۔ سیدنا حسینؓ ہر اعتبار سے سرخرو ہو گئے اور مخالفین کو تاقیامت ذلت اور رسوائیوں کی اتھاہ گہرائیوں میں دھکیل دیا۔ یہی وجہ ہے کہ صدیاں گزر جانے کے باوجود آج بھی غمِ حسینؓ کی دولت اہلِ اسلام کے لیے باعثِ فخر ہے اور امامِ عالی مقامؓ پوری انسانیت کے لیے صبر و رضا، تقویٰ، جرأت و بہادری اور ایثار و قربانی کا نادر استعارہ ہیں جبکہ یزیدی قوتیں ہمیشہ کے لیے ملعون اور مقہور ٹھہریں اور ان کا آج کوئی وارث بھی نہیں ملتا۔ جس طرح دینِ اسلام ہمیشہ کے لیے آیا ہے اور پوری انسانیت کے لیے پیغامِ رشد و ہدایت ہے‘ اسی طرح شہادتِ حسینؓ بھی روزِ ابد تک عظمتِ کردارکی روشن دلیل اور قابلِ فخر نمونہ بنی رہے گی۔ یزیدی سوچ کے لیے کیا اتنا کافی نہیں کہ یزید تھا اور حسینؓ نہ صرف ہیں بلکہ ہمیشہ رہیں گے۔
واقعہ کربلا اس قدر المناک ،دل خراش اوردل فگار سانحہ ہے کہ لگ بھگ چودہ صدیوں کے بعد بھی ملت ِاسلامیہ کے دلوں سے محونہ ہو سکا۔ دشت ِکربلا میں امام حسینؓ کے جسمِ اطہر سے بہنے والے خون کے عوض پوری امتِ مسلمہ اشک ہائے رنج و غم کا ایک سیلاب بہا چکی ہے اور بہا رہی ہے۔ اللہ رب العزت نے واقعۂ کربلا کو دوام بخشا اور زندہ و جاوید بنادیا تا کہ ہر دور میں تمام بنی نوع انسان اس سے سبق حاصل کر تی رہے۔ شاعرِ مشرق ڈاکٹر علامہ محمد اقبالؒ نے کہا تھا:
شہادت ہے مطلوب و مقصودِ مومن
نہ مالِ غنیمت نہ کشور کشائی

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں