جب ہم جواں ہوں گے

1980ء کی دہائی سکول میں گزری اور 1990کی دہائی کالج اور پھر یونیورسٹی کے زمانے اور ان یادوں سے عبارت ہے۔بچپن سے لڑکپن اور پھر جوانی کے گلاب لمحے اور شباب رُت کے اداس پنچھی خواب نگر میں اڑالے جاتے اور ہم امید و آرزو کے ایک نئے جہاں میں جاپہنچتے۔ ایک ایسے دور کی تلاش میں جہاں ہماری حسرتیں، ہمارے ارمان، ہمارے رومان اور ہماری خواہشوں کا رقص ہوتا۔ خواب حقیقت کا روپ دھارتے اور پھر محض سراب جیسے وجود کے ساتھ اچانک پردۂ شہودسے غائب ہو جاتے۔ ایک سنہرے مستقبل کے درخشندہ دنوں کی نوید کی آہٹ کبھی کبھار کانوں سے سرگوشی کرتی، ایک ہلکی سی سرسراہٹ کچھ لمحات کے لیے رس گھولتی مگر پھر تلخ حقائق کے شیش ناگ ہمارے سامنے پھنکارنے لگتے اور ہمارے خواب نگر کو خوفناک اندیشوں سے دوچار کر دیتے۔ ان خوبصورت دنوں کی یادیں آج بھی دل و دماغ کی وادی میں تروتازہ ہیں اور کبھی کبھی یادوں کے اس چمن میں رنگِ بہار نمایاں ہونے لگتا ہے اور وہ سب یار، بیلی اور ہم جماعت ٹوٹ کے یاد آنے لگتے ہیں جو اس گلشنِ زیست میں ہماری راہوں میں ہمرکاب تھے اور جن کی ہمسفری میں ہمارے کئی ماہ و سال گزرے۔ ان کے ساتھ چھوٹی چھوٹی شرارتیں، خوشیاں اور ناراضیاں اور معمولی باتوں پر تو تکارکے ان گنت قصے ہیں جن کو اب یاد کر کے حوادثِ زمانہ اور کارِ جہاں کی تلخ نوائیاں بھی ذہنی آسودگی میں بدل جاتی ہیں۔ اجڑے اجڑے گلشنِ حیات میں رنگ و نور کے سبھی موسم لوٹ آتے ہیں اور بلبلِ بے تاب پھر سے کسی کی یاد میں نغمہ سرا ہو جاتی ہے۔
سکول کے ابتدائی سالوں میں ہم سب فہم و فراست اور عقل و دانش کے دشوار راستوں سے بہت پرے محض جذبات سے سرشار تھے، ہماری دوستیاں بے وجہ اور بے سبب بنتی اور ٹوٹتی رہتیں۔ قلم دوات، بستہ، کتابیں، کاپیاں، سلیٹ اور سلیٹی ہماری کُل کائنات ہوا کرتی تھی۔ قلم مستعار نہ دینے پر دوست سے ناراضی اور بوقتِ ضرورت اپنی سلیٹی توڑ کر اس کا ایک حصّہ دینے والا بہترین دوست بن جاتا مگر اگلے ہی لمحے محبت کے سب دعوے اور وفا کے سارے وعدے دھرے کے دھرے رہ جاتے اور ہمارے حریف اور حلیف یکسر بدل جاتے۔ خوش خطی کے مقابلے، بیت بازی، ریاضی کے سوالات حل کرنے اور تختی دھو کر سکھانے میں برتری حاصل کرنا ہمارا اصل کارنامہ ہوا کرتا تھا۔ معصوم زمانے کے سارے شوق، سب اسباب نرالے اور تمام رنگ ڈھنگ اچھوتے تھے۔ مگر ان سب عوامل کی موجودگی میں ایک قدر مشترک تھی اور وہ آگے بڑھنے کی جستجو اور حالات سے لڑنے کی خُو تھی جو ہم سب کو ایک لڑی میں پروئے، ایک مضبوط تعلق میں جکڑے ہوئے تھی۔ یہی وجہ تھی کہ سکول چھوڑتے ہوئے الوداعی پارٹی کے دن ہم سب پھوٹ پھوٹ کر روئے۔ اپنے اُن دوستوں کے بغیر زندگی گزارنے کا خیال دلِ نازک پر گراں گزرا۔ ہم نئے سکول اور اگلی جماعت میں اس کونج کی طرح اداس اور بے قرار رہتے جو اپنے قبیلے سے بچھڑ کر بدحال ہو جاتی ہے۔ مگر پھر نیا ادارہ، نئے ہمسفر اور نئے دوست اور وقت کی پہیلیوں میں الجھے ہم بچھڑنے والے پیاروں کی یاد سے بے نیاز ہو کر نئے نصاب کی تیاری میں مصروف ہو جاتے اور نئے امتحان میں سرخرو ہونا ہماری اولین ترجیح بن جاتا۔ یوں سکول سے کالج کا زمانہ آگیا اور چند سالوں کے بعد یونیورسٹی اور پھر غمِ روزگار نے آلیا۔ مقابلے کے امتحان اور زندگی بدلنے کی جستجو میں ایسے جُت گئے کہ وہ سب ریشم جیسے خواب، گلاب جیسے لمحات، سانسیں معطر کر دینے والی یادیں اور زندگی میں رنگ بھرنے، خوشیاں بکھیرنے والے احباب وقت کی دُھول میں کہیں کھو گئے۔
آج چار دہائیاں پیچھے مڑ کے دیکھا تو کئی ایک ہم جماعت، ہمسفر اور ہم جولی بہت یاد آئے جن کے ساتھ پڑھائی لکھائی، کھیل کود، خوشی غمی، راز و نیاز اور رگ و جاں کا سا تعلق تھا۔ کچھ دیر سوچتا رہا کہ وقت کے سیلِ رواں میں ہم کہاں آگئے اور وہ کہاں کھو گئے۔ کئی دوست زندگی کی چند بہاریں جی کر کب کے منوں مٹی تلے جا سوئے اور یوں ہمیشہ کے لیے ہم سے سارے رشتے ناتے توڑ گئے اور ہمیں اس آب و گل کی وادی میں تنہا چھوڑ گئے۔ کئی ایک تعلیمی سفر ادھورا چھوڑنے پر مجبور ہوئے اور فکرِ معاش میں اپنی جوانی، اپنی خوشیاں اور اپنے سارے ارمان قربان کر گئے۔ حسین چہروں کے خوشنما جزیرے محض لکیروں میں بٹ گئے اور آج سامنے آجائیں تو شاید انہیں پہچاننے میں زمانے لگیں۔ کالج اور یونیورسٹی کے کچھ دوست تعلیم اور روزگار کے سلسلے میں دیارِ غیر جا پہنچے اور وہیں کے ہو رہے۔ سوشل میڈیا کا بھلا ہو جو بچھڑے ہوئوں کو ملا دیتا ہے۔ سالوں سے غائب ہو جانے والے چہرے اچانک فیس بک پر سامنے آتے ہیں تو گویا زندگی اپنی ساری رعنائیوں کے ساتھ لوٹ آتی ہے اور عہدِ شباب کے وہ گلاب لمحے اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ ہمارے سامنے جلوہ افروز ہو جاتے ہیں۔
یادوں کی اس دلنشیں بارات میں کئی خوش رنگ کردار چشمِ پُرنم کی زینت بنے اور ان کے ساتھ وابستہ جوانی کے ماہ و سال پل بھر میں قلب و روح کی شادمانی کا سبب بنے مگر ساتھ ہی یہ ملال سر اٹھانے لگا کہ وقت کی بھیڑ میں وہ دل و جاں سے پیارے کہیں میری کسی بدسلوکی، بے اعتناعی یا سرد مہری سے تو آنکھوں سے اوجھل نہیں ہوئے یا کہیں میرے ناپسندیدہ رویے کے باعث تو بچھڑنے پر مجبور نہیں ہوئے۔ کئی مرتبہ بے وفائی کے سوال نے انگڑائی لی تو دل میں اس پہلو کے حق میں کوئی ٹھوس شواہد نہ ملنے پر ایک عجیب سی راحت نے جگہ پائی۔ دلِ مضطر کو چین کی گھڑیاں نصیب ہوئیں اور میں اس اضطراب کی کیفیت سے باہر آنے میں کامیاب ہوا۔ اب چونکہ ڈھلتی عمر اور گزرتے شباب کے سائے گہرے ہونے لگے ہیں تو فہم و فراست کے نئے دریچے ہر روز کھلتے ہیں۔ تھوڑی دیر غور کیا تو پتا چلا کہ ہم شاید سفرِ حیات میں نقطۂ آغاز میں ایک جیسے خواب، ارمان اور خواہشات لے کر آگے بڑھنا شروع کرتے ہیں اور اپنے لیے ایک نیا زمانہ، نئی دنیا اور نیا جہان تلاش کرنے کی دھن میں مگن ہو جاتے ہیں۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ اپنی منزل کی دھندلی سی تصویر کو اپنے قریب آتا دیکھنے پر خوش ہو جاتے ہیں اور پہلے سے زیادہ محنت، لگن اور شوق سے زمانے کی تلخ حقیقتوں سے نبردآزما ہوتے ہیں مگر شاید دستِ قدرت نے دولت، طاقت، عزت، شہرت اور اختیارات کی تقسیم کا پورا نظام کہیں مخفی خزانوں میں چھپا رکھا ہے۔ پوری محنت، دیانت اور صلاحیت و ذہانت کے باوجود ہمارے کئی ساتھی کامیابی سے کوسوں دور رہے اورکچھ حادثاتی طور پر مسندِ توقیر پر براجمان نظر آئے۔ زندگی کی ان بے پناہ پہیلیوں میں سب سے پیچیدہ پہیلی یہی ہے کہ کارِ جہاں کے ساغر و بادہ میں ساقی کی تقسیم کے اپنے اصول‘ اپنے انداز ہیں۔ کہیں بھرا ہوا جام تو کہیں کسی کے حصے میں کچھ بھی نہیں۔ اکثر کسی کے نصیب کی بارشیں کہیں اور جابرستی ہیں۔ یہی زندگی کے المیے ہیں۔
ہر ویک اینڈ کی طرح‘ گزشتہ ہفتے سرِشام اسلام آباد سے فیصل آباد کی طرف سفر شروع ہوا تو گاڑی میں اچانک فلم بیتاب میں لتا منگیشکر اور شبیر کمار کا گایا ہوا سدا بہار نغمہ ''جب ہم جواں ہوں گے، جانے کہاں ہوں گے‘‘ ایسے چلا کہ سازِ دل کے تاروں سے شہنائیاں بج اٹھیں، یادوں کے خواب نگر میں گل و لالہ نے اپنے رنگ بکھیرے تو بچھڑنے والوں کی محبتوں کی راکھ میں کچھ شعلے بھڑک اٹھے۔ گزشتہ چار دہائیاں اور تمام صبحیں، ساری شامیں ایک مرتبہ پھر اپنا دامن پھیلائے میرے سامنے آکر کھڑی ہوئیں۔ راحت، رنج اور ملال کی اس رم جھم نے جہاں خوشی کے شادیانے بجائے، وہاں ایک انجانی سی اداسی نے بھی ڈیرے جما لیے مگر یہ سوچ کر دلِ بے قرار کو چین نصیب ہوا کہ وقت کی بھیڑ میں ہم جدا ضرور ہو جاتے ہیں مگر بے وفا ہرگز نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ایسے نغمے آج بھی ہمیں عہدِ وفا کی پاسداری پر مجبور کرتے ہیں اور ہم جانے والوں کی یاد اپنے سینے سے لگائے غمِ دوراں اور غمِ جاناں کے کڑے امتحان سے کامیابی سے گزر جاتے ہیں۔ حسیں یادوں کے یہی دل نشیں موسم خزاں رُت میں بھی رنگِ بہار بھر دیتے ہیں اور ہمیں سازگار ماحول سے آشنا کر تے رہتے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں