دل دریا سمندروں ڈونگھے

روایت ہے کہ طوفانِ نوح تھمنے کے بعد کشتی والے چالیس روز سمندر میں گزارنے کے بعد خشکی کی تلاش میں تھے کہ ایک فاختہ اُڑ کر گئی اور شاخِ زیتون اپنی چونچ میں لیے واپس آئی۔ کشتی کنارے جا لگی، پانی اترنا شروع ہوا اور زندگی آدمِ ثانی سیدنا نوح علیہ السلام کے ہمراہ ایک بار پھر رواں دواں ہو گئی۔ یوں سمندر انسانی زندگی کی بقا ، حفاظت اور سلامتی میں حصہ دار رہا۔ حضرت نوحؑ کی کشتی (آرک) روئے زمین پر انسانی ہاتھوں سے بنی پہلی کشتی تھی اور پانی سے محبت ،لہروں کی تندی اور خوف پر قابو پانے کی تربیت گاہ بھی۔ مجھے پرانے دوست، پرانی موسیقی اور ساحلِ سمندر کسی رومانوی داستان کا حصہ لگتے ہیں۔ سمندر اماوَس کی راتوں میں پُر سکون، مہربان اور شفیق لگتا ہے مگر پورے چاند کی راتوں میں جوار بھاٹا ساحلوں میں طغیانی مچاتا ہوا قیمتی لعل و گوہر ساحلوں کو نذرانے میں دے جاتا ہے۔ ساگر کا اپنا مزاج ہے۔ بعض لوگ سمندر کو لے کر زیادہ پُر جوش نہیں ہوتے لیکن ہمیشہ منتظر رہتے ہیں کہ وہ ساحل کنارے سمندری ہوا سے لطف اندوز ہوں، لہروں کی آوازیں سنیں۔ کناروں پر بیٹھ کر انتہائی خوبصورت نیلے افق پر طلوع و غروبِ آفتاب کے منظر کو اپنی نظروں، اپنے کیمروں میں محفوظ کر لیں اور اس قیمتی نظارے کو اپنے اندر جذب کریں۔ جب سورج آہستہ آہستہ اوپر کو اٹھتا ہے، تاحدِ نظر پورے ساگر پر سنہری کرنیں بکھر جاتی ہیں۔ آب و گِل، ہوا، سورج کی حرارت اور انسان کا ساتھ کسی ساحل سمندر سے زیادہ کہیں نہیں محسوس ہوتا۔ ہمیشہ ایک خیال پریشان کرتا ہے کہ سمندر کا پانی نمکین کیوں ہے؟ جبکہ میٹھی ندیاں، جھرنے، دریا اور بارشیں صاف اور شفاف جل اس کے سپرد کرتی ہیں۔ کیا یہ ذائقہ اربوں انسانوں کے دکھوں اور آنسوئوں کی آمیزش ہے یا کسی نے نمک کی ڈلی کو اس میں رکھ کر مدھانی سے بلویا ہے اور نمکین تاثیر عطا کی ہے۔ بحرِ مر دار کو نمکین جھیل بنا کر نمک کہانی کی بنیاد رکھی گئی ہے۔ سمندر کی بدلتی کیفیات کا تعلق موسموں اور درجہ حرارت کے ساتھ براہِ راست جڑا ہے۔ گلوبل وارمنگ سے سمندری پانی کے بھاپ میں بدلنے کا عمل تیز ہو رہا ہے۔ کلائوڈ برسٹ تیز بارشوں، سیلابوں اور طوفانوں کی وجہ بن رہے ہیں۔
بحرِ مردار کی کہانی بڑی دلچسپ اور حیران کن ہے۔ یہ بند سمندر ہے اس میں بارشوں، ندی نالوں، دریائوں کا پانی آتا ہے مگر پانی کہیں سے نکل نہیں سکتا۔ گویا یہ ایک بڑی جھیل کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ دنیا کا سب سے نچلا حصہ سطح سمندر سے لگ بھگ 450میڑ نیچے ہے۔ فلسطین (اسرائیل) اور اردن نبیوں کی سرزمین ہیں جو ارضِ مقدس بھی ہیں اور ارض تنازع بھی اور یہی علاقہ دنیا کے تین بڑے مذاہب کا منبع ہے۔ یہاں صدیوں کی تاریخ پنہاں ہے اور اسے طلسمِ ہوش ربا کہنا مبالغہ نہ ہوگا۔ بحرِ مردار کو تاریخ میں کئی ناموں سے پکارا جاتا ہے۔ بند سمندر کا ذکر بائبل میں بھی ہے۔ رومن دور میں اسے ''سالٹ سی‘‘ کہا جاتاتھا اور ان کی نظر میں اس کی بہت اہمیت تھی۔ انہوں نے سمندر پر پہرے لگا رکھے تھے کہ کوئی یہاں سے نمک چرا کر نہ لے جائے۔ یہاں کام کرنے والوں کو اجرت بھی نمک کی صورت میں دی جاتی تھی۔ انگریزی لفظ ''سیلری‘‘ اسی سے نکلا ہے۔ صدیوں سے اس کا پانی بخارات کی صورت ہوا میں تحلیل ہوتا آیا ہے۔ اس سمندر میں نمکیات اورمعدنیات ہیں لہٰذا اس میں سمندری حیات کا وجود ممکن نہیں ہے۔ محض چند بیکٹیریا ہیں جو اس ماحول کو برداشت کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ دریائے اردن کے پانی کو زرعی اور پینے کے مقاصد کیلئے استعمال کرنے سے جب سے روکا گیا ہے تب سے زمینی کٹائواور نمکین پانی کے گڑھے پورے علاقے میں عجیب سا منظر پیش کرتے نظر آتے ہیں۔ سمندر کا ہزاروں کلو میٹر رقبہ خشک ہو کر نمک کا صحرا بن چکا ہے۔ اگر فضائی جائزہ لیا جائے تو کھنڈرات، پرانی کشتیاں اور ہوٹلز‘ جو کبھی سیاحوں کی منزل ہوا کرتے تھے‘ آج نمک کی کانیں بن چکے ہیں۔ لوگ دنیا بھر سے اس انوکھے سمندر کی سیر کو آتے ہیں۔ مختلف بیماریوں کے علاج کی غرض سے وہ اس کی مٹی جسموں پر مل کر ساحلوں پر لیٹے رہتے ہیں۔
سمندر جتنے گہرے ہیں اتنے ہی پُر اسرار بھی ہیں۔ سمندر اور انسانوں کی دوستی قدیم ہے۔ فکرِجہاں کی بات ہو یا معاش کے سامان کی ترسیل‘ سمندر ساتوں براعظموں میں بسنے والوں کی زندگیوں میں انقلاب برپا کرتے چلے آرہے ہیں۔ لاکھوں ٹن وزنی سمندری بیڑے اور بڑی چھوٹی کشتیاں سمندروں کے تاریک سینوں کو چیرتی، رنگ برنگی روشنیاں بکھیرتی اُس حکم ربانی کو بھی بجا لاتی ہیں جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں بھی کیا کہ بنی نوع انسان کو تسخیرِ کائنات کا حکم فرمایا گیا ہے۔ خلا کی وسعتوں کی تسخیر اور سمندروں کے سینے چیرنے کا حکم کلامِ الٰہی میں بھی موجود ہے۔ آج انسان تاریخ کے جس دور سے گزر رہا ہے‘ اس میں فاصلے سمٹ چکے ہیں۔رابطے تیز اور جدت پسندی اپنی انتہائوں کو چھو رہی ہے۔ سمندر آج بھی انہی اسرار و رموز سے لبریز ہیں۔ ساگر کی گہرائی اور حقیقتوں کو جانچنے کے لیے بے حد کام کیا گیا مگر آج بھی اس کے بیشتر راز‘ راز ہی ہیں۔ مچھیروں کی کشتیوں اور ان کے سمندر سے رومانس نے کئی انوکھے منظر دیکھے اور بیان کیے۔ کئی داستانیں آج بھی اَن کہی ہیں۔ انسان دولت کے حصول اور قیمتی لعل و جواہر کی تلاش میں جب تھک جاتا ہے تو گوشۂ عافیت اور سکون چاہتا ہے۔ تنہائی، خاموشی، یکسوئی اور سکون کی تلاش اسے سمندری سفر اور کروز شپس کی طرف راغب کرتی ہے۔ آج دنیا کے انتہائی جدید مسافر بردار جہاز نگر نگر مسافروں کی سیاحت کی غرض سے لیے پھرتے ہیں۔ جہاز کیا ہیں‘ سینۂ آب پر تیرتے‘ چلتے پھرتے شہر ہیں، سیون سٹار ہوٹلز ہیں۔
سمندر اور انسانی دل کی گہرائی میں خاصی مماثلت موجود ہے۔ انسانی دل اپنی دانست میں وسعتِ بیکراں ہے جو سمندر کی گہرائیوں سے بھی بڑھ کر ہے۔ اس کے اندر ہمہ وقت ایک ہنگامہ بپا رہتا ہے۔ طلاطم خیزی صرف لہروں کا خاصہ نہیں بلکہ انسانی دل کی دھڑکن ، رفتار، گرم جوشی، ارادوں کی مضبوطی اور قوتِ مشاہدہ کہیں زیادہ ہے۔ سفر و حضر کی ساری منزلیں اور اسباب دل میں بدرجہ اتم موجود ہیں۔ وہ کشتی ہو یا مسافر ان کے مسئلے ہوں یا تیرنے ڈوبنے والے معاملات ،سب دل کے اندر ہیں۔ دل کے اندر پوری کائنات سمائی ہوئی ہے اور کسی تنے ہوئے خیمے کی طرح پوری کائنات کی وسعتوں کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔ زندگی کے تمام معاملات میں دل کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ ایک بادشاہ کی طرح سب پر غالب‘ جسم پر اسی کا سکہ چلتا ہے۔ انسان کی ذات جب وسعتوں کے سفر پر نکلتی ہے تو پھر کائنات مزید محدود اور مختصر ہو جاتی ہے۔ دل کا محرم ہونے سے مراد دل کی ساری قوتوں، کشف و کمالات، کرامات اور الہامات سے واقف ہونا ہے۔ اگر اسی کوذرا وسیع انداز میں سوچیں تو انسان کی پیدائش اور اس کے شعور کے مراحل بھی آشکار ہونے لگتے ہیں۔ رب کی ذات کو وہی پہچان پاتا ہے جو مقصدِ حیاتِ انسانی کا راز پا لیتا ہے۔ من اور تو کا فرق مٹ جائے تو پھر 'اناالحق‘ کا نعرہ سنائی دیتا ہے۔
انسانی دل کائنات کا قیمتی جوہر ہے، ہر شے سے اوپر اورسب سے بڑھ کر۔ تسبیح کے دانے گننے سے بڑھ کر کام گہری بات وسعتِ نظر پیدا کر کے پیدائش کا حقیقی مقصد واضح کرنا اور خالق و عبد کے رشتے کو استوار کرنے کے علاوہ پیدائش، موت، دعوتِ فکر اور تڑپ کو زندہ رکھنا ہے۔ سمندر اور دل کی تشبیہات اور استعارے شعرا اور ادبا کے ہاں ہمیشہ سے مقبول رہے ہیں۔ بہت سے شاعروں نے ان موضوعات کو اپنے اپنے انداز میں بیان کیا ہے مگر حضرت سلطان باہو ؔ نے اپنے اس شعر میں جس خوبصورتی سے اس موضوع کا احاطہ کیا ہے اس کی مثال نہیں:
دل دریا سمندروں ڈونگھے، کو ن دِلاں دیاں جانے ہُو
وچے بیڑے، وچے جھیڑے، وچے ونجھ مَہانے ہو

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں