حضرت ابوامامہؓ نے روایت کیا ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: میری والدہ ماجدہ نے دیکھا کہ جب میری ولادت ہوئی تو ان کے جسم سے ایک نور نکلا جس سے ملکِ شام کے محلات روشن ہو گئے‘‘۔ (مسند احمد، حاکم، مجمع الزوائد، صحیح الجامع)۔ بعض روایات میں آتا ہے کہ ولادتِ آنحضرتﷺ کے وقت ایوانِ کسریٰ کے چودہ کنگرے گر گئے تھے، مجوسیوں کا آتش کدہ ٹھنڈا ہو گیا، بحیرہ ساوہ سائبہ خشک ہو گیا تھا۔ رسولِ کائنات فخرِ موجودات محمد عربیﷺ کو اللہ رب العالمین نے نسلِ انسانی کے لیے کامل نمونہ اور اسوۂ حسنہ بنا کر مبعوث فرمایا۔ آپﷺ کے طریقے کو فطری طریقہ قرار دیا۔ آپﷺ محسنِ انسانیت ہیں اور یہ اللہ تعالیٰ کا عظیم احسان ہے کہ آپﷺ کے معمولاتِ زندگی بھی قیامت تک کے لیے راہِ ہدایت اور شعار و معیارِ فلاح ہیں۔ سیرۃ النبیﷺ کا ہر گوشہ تابناک اور ہر پہلو روشن ہے۔ آپﷺ کے یومِ ولادت سے لے کر روزِ رحلت تک کے ہر ایک لمحے کو قدرت نے لوگوں سے محفوظ کر وا دیا ۔ آپﷺ کی ہر ادا کو آپ کے جانثاروں نے محفوظ رکھا اور سند کے ساتھ ہم تک پہنچایا‘ لہٰذا سیرۃ النبیﷺ کی جامعیت و اکملیت ہر قسم کے شک و شبہے سے بالاتر ہے۔ نبی کریمﷺ کی مدح میں منظوم اور منشور نذرانۂ عقیدت پیش کرنے کا سلسلہ جاری و ساری اور روز بروز بڑھتا جا رہا ہے۔
جس طرح رسول اللہﷺ پر نازل ہونے والا قرآنِ مجید محفوظ و مامون ہے، اسی طرح آپﷺ کی سیرت اور حیاتِ طیبہ کے جملہ اعمال و افعال بھی محفوظ ہیں۔ کوئی بھی سلیم فطرت انسان آپﷺ کی حیاتِ ظاہری کے جملہ پہلوئوں پر نظر ڈالتا ہے تو آپﷺ کی عظمت کا اعتراف کیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ رسول اللہﷺ کے مقام و مرتبے کو تسلیم کیے بغیر دینِ اسلام کا حقیقی فہم پانا محال ہے۔
تاجدارِ رسالت رحمۃ للعالمین اور خاتم النبیینﷺ نے ایک ایسے سماج اور معاشرے کو ایمان اور توحید کی دعوت دی جو سرتاپا شرک و کفر کی دلدل میں ڈوبا ہوا تھا۔ ضلالت اور جہالت کے شکار اس معاشرے میں انسانیت تک مفقود تھی۔ ہر طاقتور ارضِ خدا کا خدا بنا ہوا تھا۔ قتل و غارت گری کی وبا ہر سو عام تھی۔ نہ کسی کی عزت محفوظ تھی نہ ہی عورتوں کا معاشرے میں کوئی مقام و مرتبہ تھا۔ نہ کمزور طبقات کے لیے کوئی داد رسی تھی نہ غلاموں اور لونڈیوں کے کچھ حقوق تھے۔ بے حیائی، شراب نوشی اور یاوہ گوئی عروج پر تھی۔ سرزمینِ عرب پر وحدانیتِ حق کا کوئی تصور نہ تھا۔ ظلم و ناانصافی اپنے شباب پر تھی۔خدائے واحد کی بندگی کی جگہ معبودانِ باطل کے سامنے اپنی پیشانیاں جھکائی جاتی تھیں۔ معاشرے سے شرک کا تعفن اٹھ رہا تھا۔ اس دور کا انسان‘ قرآنِ مجید کے الفاظ کے مطابق‘ جہنم کے کنارے پر کھڑا تھا، ہلاکت سے دوچار ہونے کے قریب تھا کہ رحمتِ حق کو جوش آیا اور کوہِ صفا سے انسانیت کی بقا کا اعلان ہوا۔ ''لوگو! لا الہ الا اللہ پر ایمان لائو تا کہ فلاح و اصلاح سے ہمکنار ہو سکو‘‘۔ یہ آواز نہیں تھی بلکہ ایوانِ باطل کے لیے بجلی کا کڑکا تھا۔ یہی پکار عظیم الشان انقلاب کی ابتدا تھی جس نے مردہ دل عربوں میں زندگی کی نئی روح پھونک دی۔ پھر چشمِ فلک نے وہ نظارہ دیکھا جس کا کبھی چشمِ تصور نے بھی نہ سوچا تھا۔ بت پرست بت شکن اور ظالم و غاصب حق پر ست اور رحم دل بن گئے۔ پھر سارے عالم نے دیکھا کہ ایک امی لقب اعلیٰ نسب پیغمبرِ خدا پر ایمان لانے والوں نے جان نثاری کی نئی تاریخ رقم کر ڈالی۔
آپﷺ نے دعوتِ حق اور اعلانِ توحید کی راہ میں اپنے ہی لوگوں‘ اپنی ہی قوم اور اپنے ہی قبیلے کے ہاتھوں مصائب و آلام دیکھے۔ عام انسان تو ان حالات کا سن کر ہی ہمت ہار جاتا مگر آپﷺ صبر و استقامت کاکوہِ گراں تھے۔ آپﷺ کو قدم قدم پر جھٹلایا گیا‘ کاہن و ساحر اور نجانے کیا کچھ کہا گیا، مکہ کی سرزمین آپ پر تنگ کر دی گئی مگر آپﷺ نے نہ تو راہِ حق کو ترک کیا اور نہ ہی لوگوں کی پروا کی بلکہ دن رات آپﷺ اس قوم کی ہدایت و فلاح کے لیے دعاگو رہتے۔ جب اہلِ مکہ کی زیادتیاں حد سے متجاوز ہو گئیں تو پھر حکمِ ربانی پر آپﷺ نے مدینہ ہجرت فرمائی۔
نبی کریمﷺ کی زندگی کو دو حصوں میں منقسم دیکھا جا سکتا ہے۔ ایک مکی زندگی اور دوسرا‘مدنی دور۔ نبوت اور رسالت کا اعلان مکی دور میں ہوا‘ جب آپﷺ کی عمرِ مبارک چالیس برس تھی۔ جب پہلی وحی نازل ہوئی تو آپﷺ نے سب سے پہلے اپنے قرابت داروں کو دعوتِ حق دی جس پر قریشِ مکہ طیش میں آگئے۔ دوسرا دور مدنی دور ہے جس کے نمایاں پہلو احکاماتِ دین کی عملی زندگی میں شمولیت، تبلیغِ دین کی کوششیں، عبادات اور معاملات کو قرآن و سنت کے تابع کرنا، ایثار و قربانی اور محبت سے معاشرے کے مختلف طبقات کو آپس میں جوڑنا ہے۔ آپﷺ نے ایک مثالی معاشرت کی بنیاد رکھی، شریعت کے قوانین کا نفاذ فرمایا اور ریاستِ مدینہ کو ایک منشور عطا فرمایا۔ معاہدات اور جہاد ،مواخاتِ مدینہ، صلح حدیبیہ ، بیعتِ رضوان حکمت و دانش کے وہ زریں پیمانے ہیں جن پر عمل پیرا ہو کر ہم زندگی کے ہر پہلو کو مزین اور روشن کر سکتے ہیں۔ بے شک آپﷺ کی ذاتِ اقدس تمام مخلوقات اور انسانیت کے لیے رہبر اور رہنما ہے۔ آپﷺ کی تعلیمات عالمگیریت کی حامل ہیں۔ بلاشبہ اسلام دینِ فطرت اور مکمل ضابطۂ حیات ہے۔ یہی دینِ حق انسانوں کی فلاح ،کامیابی اور اخروی نجات کا ذریعہ ہے۔ آپﷺ عرب و عجم اور رہتی دنیا تک کے لیے اللہ کے آخری نبی اور رسول ہیں۔ آپﷺ نے قیصرِ روم،فارس ،حبشہ اور دیگر بادشاہوں کو حق کی دعوت دی اور اردگرد کے علاقوں اور ملکوں میں اپنے خطوط اور ایلچی ارسال کیے۔ ریاستِ مدینہ کے حاکم کی حیثیت سے آپﷺ نے رہتی دنیا کو فنِ حکمرانی اور جاہ و منصب کو فلاح انسانیت کے لیے استعمال کرنے کا طریقہ سکھا دیا۔ آپﷺ کی ذات عفو و درگزر اور صبر و استقامت کے اعلیٰ درجوں پر فائز تھی۔ فتح مکہ کے تاریخی موقع پر آپﷺ نے تمام سردارانِ قریش کو نہ صرف معاف فرما دیا بلکہ ان کی عزت و وقار کو بھی مجروح نہ ہونے دیا۔ ابو سفیان کے گھر کو امان کی جگہ قرار دیا۔ اپنے پیارے چچا سید الشہدا حضرت حمزہؓ کے قاتلوں کو دل سے معاف فرما دیا۔
آج ہمیں جن گوناگوں مسائل کا سامنا ہے‘ ان میں آپﷺ کی پیدائش کی نسبت سے ماہ ربیع الاوّل کی فضیلت کو زیادہ نمایاں کرنے اور آپﷺ کی تعلیمات کو آنے والی نسلوں تک پہنچانے کا اہتمام کرنا ہے۔ یہ کام حکومتی سرپرستی میں بھی کیا جا رہا ہے اور اس سے آنے والی نسلوں کی مثبت ذہن سازی کے مواقع میسر آئیں گے۔ اساتذہ کرام اور طلبہ کے اندر سیرۃ النبیﷺ کے ہر پہلو کو پڑھنے، سمجھنے اور عمل پیرا ہونے کی امنگ جاگے گی۔ جدید دور کے جھمیلوں میں ہمیں پیچیدہ صورتحال کا سامنا ہے اور ہم اسلامی تعلیمات سے دور ہو رہے ہیں۔ اس کی بے تحاشا وجوہات ہیں۔ یہ فاصلے کیسے پیدا ہوئے؟ خلا کیوں بنا؟دینِ اسلام کو عبادات تک کیوں محدود کر دیا گیا؟ ایسے بے شمار سوالات ہیں۔ عقائد، ایمانیات اور عبادات خالق و مخلوق کے بیچ کے معاملے ہیں۔ دینِ اسلام تو زندگی گزارنے اور آخرت کی تیاری کرنے کا درس دیتا ہے۔ حقوق اللہ کے ساتھ حقوق العباد کو بھی اہمیت دی گئی ہے۔ ہر چھوٹی سے چھوٹی بات سے لے کر ریاست، سیاست، معاشرت، معیشت، ثقافت، اور تہذیب و تمدن کے بارے میں واضح احکامات اور مکمل رہنمائی موجود ہے۔ اپنی زندگیوں کو نبی کریمﷺ کی سنت کے مطابق گزارنا ہی انسانیت کی حقیقی منزل اور یہی کامیابی کا راستہ ہے۔ آپﷺ نے خطبہ حجۃ الوداع میں بنیادی انسانی حقوق اور ان کی اہمیت کو واضح فرما دیا تھا۔ تمام بنی نوع انسان اور قیامت تک آنے والی نسلوں کے لیے فلاح و بہبود کے راستے کا تعین فرما دیا تھا۔ دنیا اور آخرت میں بڑائی اہلِ تقویٰ اور پرہیزگاروں کو ملے گی۔ حسب نسب ، عربی عجمی، سیاہ و سفید، آقا و غلام کے فرق کو مٹا کر برابری، مساوات اور عدل و انصاف کو ہمیشہ کے لیے مشعل راہ مقرر فرمایا۔ بے شک ہمارے پاس نبی آخر الزماںﷺ کا اسوہِ کامل ایک نیّرِ تاباں کی صورت میں موجود ہے جو بنی نوع انسان کیلئے روزِ قیامت تک مینارۂ نور بنا رہے گا۔ ربِ کائنات ہم سب کو اس منبعِ رُشد و ہدایت سے مکمل طور پر فیضیاب ہونے کی توفیق عطا فرمائے، آمین!