خداوند تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کے ساتھ حضرت حوا کو پیدا فرمایا۔ پھر ان دونوں سے نسلِ انسانی کا سلسلہ شروع ہوا اور قدرت کے متناسب نظام کے تحت مرد و زن کی تخلیق کا سلسلہ جاری و ساری ہے۔ عقل و شعور اور تمام اوصاف کے ساتھ ذمہ داریوں کا الگ الگ تعین فرما دیا گیا۔ مرد کو خارجی معاملات کا نگہبان و محافظ قرار دیا گیا جبکہ خواتین کو درونِ خانہ معاملات کا ذمہ سونپا گیا لیکن خالقِ کائنات نے عقائد، عبادات اور معاملات کی دعوت دینے والا (مکلف) جیسے مرد کو بنایا ویسے ہی عورتوں کو بھی بنایا۔ یہی وجہ ہے کہ علم کے ذرائع یعنی ظاہری حواس، عقل و فہم اور دوسرے انسانوں سے استفادہ کرنے کی صلاحیت جیسے مردوں میں پائی جاتی ہے ویسے ہی عورتوں میں بھی پائی جاتی ہے۔ ہر زمانے میں تعلیم یافتہ افراد کی قدر و منزلت رہی ہے۔ تعلیم ہی وہ نسخہ ہے جس سے مریضوں کی مسیحائی عمل میں آ سکتی ہے۔ علم کی وجہ سے انسان نے دیگر مخلوق پر فضیلت حاصل کی اور اشرف المخلوقات کے مرتبے کا حقدار قرار دیا گیا۔ قرآن مجید کی پہلی وحی میں ہی ''اقراء‘‘کے لفظ نے علم کی اہمیت کو اجاگر کر دیا۔ حدیث شریف میں ہے کہ ''علم حاصل کرنا ہر مسلمان (مرد اور عورت) پر فرض ہے‘‘۔ عورت اور مرد ہی وہ بنیادی ستون ہیں جن پر یہ معاشرہ قائم ہے۔ یہ دونوں اس معاشرے کا لازم و ملزوم حصہ ہیں۔ کسی ایک کے بغیر بھی معاشرہ قائم نہیں رہ سکتا اور نہ ہی پھل پھول سکتا ہے۔ معاشرتی فلاح و بہبود کے لیے دونوں کا کردار اہم ہے۔ اسی طرح تعلیم ہی کسی فرد کے ذہن کے دریچے کھولتی ہے۔ یہ تعلیم ہی ہے جس کے حصول کے ساتھ مرد و خواتین بلا تخصیصِ جنس شعور کی منازل طے کرتے ہیں۔ تعلیم ایسی اصطلاح ہے جس میں لفظ و معانی کے جہاں پوشیدہ ہیں۔ یہ ایسا عمل ہے جس سے ایک نسل اپنی معلومات اور تہذیبی اور تمدنی ورثہ اگلی نسلوں کو منتقل کرتی ہے۔
عورت تاریخ انسانی کے ابتدائی ادوار ہی سے معاشرے کی تعمیر و تشکیل میں اپنا منفرد مقام رکھتی ہے۔ دنیا کے قدیم اور جدید معاشروں میں عورتوں کی تعلیم و تربیت، علوم، فنون، جنگی و حربی مہارتوں کے ساتھ ساتھ بادشاہی اور حکمرانی جیسے پیچیدہ امور کی ذمہ داریاں بطریقِ احسن نبھانے کے کارناموں کے تاریخی حوالے موجود ہیں۔ کسی بھی مہذب معاشرے کی اساس عورت کا وجو دہے۔ عورت کی گود میں بچہ نشو و نما پاتا ہے، یہی پہلی درسگاہ اور تربیتی مرکز ہے جہاں بنیادی اقدار اور معاشرتی اخلاقیات کو پروان چڑھانے کے مواقع میسر آتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مرد سے زیادہ عورت کی تعلیم کی افادیت اور فعالیت ہے کیونکہ مرد کی تعلیم ایک فرد کی تعلیم ہے اور عورت کی تعلیم پورے خاندان کی۔
پاکستان جیسے زرعی ملک میں‘ جہاں دیہی آبادی کا تناسب 65 فیصدہے‘ صحت و تعلیم کے نظام میں مؤثر منصوبہ بندی کی ضرورت کئی گنا بڑھ جاتی ہے۔ اگر لڑکیوں کی بنیادی تعلیم کے اعداد و شمار کو دیکھا جائے تو اس کی شرح انتہائی کم ہے۔ آبادی کا ایک بڑا حصہ خطِ غربت سے نیچے زندگی بسر کرنے پر مجبور ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مجموعی پرائمری، ایلیمنٹری اور سیکنڈری سطح کے اعداد و شمار میں لڑکیوں کی کامیابی کی شرح شہروں کی نسبت کافی کم ہے۔ یہاں پر دو وقت کی روٹی کی اہمیت اتنی بڑھ جاتی ہے کہ سکول اور حصولِ تعلیم کی سہولت ایک آسائش دکھائی دیتے ہیں۔ دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ تعلیم بھی سوشل سٹیٹس اور دکھاوے کا ذریعہ بن گئی ہے۔ اکثر لڑکے نویں‘ دسویں جماعت کے بورڈ کے امتحانات میں ناکام ہو کر ہمیشہ کے لیے تعلیمی سلسلے کو خیر باد کہہ دیتے ہیں مگر لڑکیوں کی تعلیم کے راستے کے خار کہیں پیچیدہ اور الجھے ہوئے ہیں۔ صنفی امتیاز اور رسموں‘ رواجوں کے بوسیدہ نظریات لڑکیوں کی تعلیمی ترقی کے لیے رکاوٹ کا باعث ہیں۔ عورت اور مرد معاشرتی اکائی اور گھر کے ادارے کا بنیادی یونٹ ہیں۔ عورت کائنات کا ایسا شاہکار ہے جس کے دم سے زندگی کو دوام ہے۔ اس کے بغیر نسلِ انسانی کا وجود و استحکام اور نشو و نما ممکن نہیں۔ ساری رعنائیاں اور کائنات کی خوبصورتی عورت کے دم سے ہے۔ مرد اور عورت دونوں معاشرتی گاڑی کے پہیے ہیں اور دونوں میں یکسانیت اور ہمواری ضروری ہے۔ نپولین بونا پارٹ کا قول بہت مشہور ہے کہ ''آپ مجھے اچھی مائیں دیں‘ میں آپ کو بہترین قوم دوں گا‘‘۔
عورت کی مؤثر تعلیم و تربیت کی ضرورت اور اہمیت زیادہ بھی ہے اور قابلِ فہم بھی کیونکہ وہ آنے والی نسلوں کی امین ہے۔ ماں اور بچے کا رشتہ دنیا کے تمام رشتوں سے مختلف ہے۔ محبت، احتیاط اور ایثار و قربانی کا پیکر ماں اگر دینی اور دنیاوی تعلیم سے آراستہ ہوگی تو پھر تصور کیجئے کہ دنیا کتنی متوازن ہو گی۔ زندگی گزارنے کے قرینے، آداب، روایات، اقدار، رکھ رکھائو، صبر و استقامت اور رحم دلی ماں کی گود ہی سے سیکھی جاتی ہے۔ ماں بولی بھی ماں ہی کی نسبت سے مٹھاس کا تاثر رکھتی ہے۔ بچیوں کی تعلیم اور تربیت کے حوالے سے ہمارے ہاں کچھ منفی رجحانات بھی پائے جاتے ہیں۔ خاص طور پر اعلیٰ تعلیم کے راستے میں حا ئل رکاوٹیں کھڑی کر دی جاتی ہیں۔ کبھی مخلوط تعلیمی اداروں میں داخلہ، کبھی یہ نظریہ کہ ہم نے بچیوں سے نوکری تو نہیں کروانی۔ یہاں اس بات کی وضاحت کردوں کہ یہی سب سے بڑا مسئلہ اور غلط خیالی ہے۔ تعلیم کا حصول صرف نوکری حاصل کرنے کا ذریعہ نہیں بلکہ تعلیم کا مقصد کہیں اعلیٰ و ارفع ہے۔ یہ اندھیرے سے روشنی کی جانب کا سفر ہے۔ تعلیم جاننے، سیکھنے اور سیکھانے کے مواقع فراہم کرتی ہے۔ علم و ہنر ہی انسانی شعور کو جلا بخشتا ہے اور انبیاء کرام علیہم السلام نے اپنی امتوں کو فرمانِ الٰہی کے تابع بنایا اور ان کو الہامی علوم سے روشناس کروایا‘ ان کی تربیت فرمائی‘ اچھے اور برے کے فرق کو ان پر واضح کیا۔ علم کو نور اور جہالت کو تاریکی قرار دیا۔ مقصد ِ حیات اور وجہ تخلیقِ کائنات کو انسانوں کو تعلیم فرمایا۔علم و فنون کے رموز سے آگاہی دی۔ قدرت نے انسان کو جو دماغ کی نعمت سے سرفراز کیا ہے وہ عقل و شعور، فہم و فراست اور اخلاقی و دینی اقدارِ تعلیم ہی کے ذریعے باہم پہنچتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے انبیاء کرام اور الہامی کتب کا نزول فرمایا اور بنی نوع انسان کی تعلیم فرمائی۔ خواتین کی مؤثر تعلیم و تربیت کی ضرورت اور اہمیت اہم بھی ہے اور قابلِ فہم بھی۔ لیکن ہم بڑے عجیب لوگ ہیں۔ مواقع تلاش کرنے میں مصروف ہیں۔ میسر مواقع دستیاب وقت ضائع کر دیتے ہیں۔ خوابوں کے جہاں آباد کرتے ہیں مگر اپنے ہاتھوں خوابوں کی حسین تعبیریں اور ان میں رنگ بھرنے والے ہاتھوں کو متنازع خیالات کی بھینٹ چڑھا دیتے ہیں۔ زندگی کی خوبصورتی کو بد صورت رویوںسے بدل دیتے ہیں۔ ہم اچھائی اور برائی کے اپنے ہی وضع کردہ پیمانوں میں اپنی خواتین‘ مائوں ، بہنوں، بیٹیوں کو تولتے ہیں۔ اس رویے کو زرخیز زمین کو بنجر بنانے کی ترکیب کہنا زیادہ مناسب ہو گا۔ اس طرح کانٹوں بھری جھاڑیاں تو اگ سکتی ہیں نفع بخش، من پسند فصل نہیں بوئی جا سکتی۔وقت آن پہنچا ہے کہ ہم لڑکیوں کو اعتماد اور بھروسہ دیں تا کہ ان میں خود اعتمادی اور یقین پیدا ہو سکے۔ بیٹیوں کو اپنا دوست بنانا ضروری ہے تا کہ زمانے کی اونچ نیچ پر بات ہو سکے۔ ان کی رائے، پسند نا پسند کو ملحوظِ خاطر رکھنا ضروری ہے۔ ان کی خوشی اور اطمینان کا ذریعہ قریبی رشتے ہی ہوا کرتے ہیں۔ ان سے شفقت اور مہربانی سے پیش آنا‘یہی عین اسلام ہے اور احکامِ الٰہی کی تعمیل بھی۔ ہمیں اپنی بیٹیوں کو بیٹوں کے برابر گرداننا اور اس کا ثبوت دینا ہوگا۔
عظیم مفکر اور ماہرِ تعلیم ابنِ خلدون نے اپنے علمی تصورات میں ابتدائی تعلیم کو عمر کی صلاحیتوں اور استعداد کے ساتھ ساتھ مادری زبان میں دینے کی اہمیت کو یوں اجاگر کیا ہے کہ ''بچے کو کسی اجنبی زبان میں تعلیم کا مطلب نصف تعلیم دینے کے مترادف ہے‘‘۔ نپولین کے افکار کی تائید کرتے ہوئے ناروے کی سابق وزیراعظم ارنا سولبرگ نے بھی قومی تعمیر و ترقی کا راز تعلیمِ نسواں ہی میں قرار دیا، '' اگر آپ لڑکی کی تعلیم پر سرمایہ کاری کرتے ہیں تو وہ خود کو، اپنے بچوں کو، اپنی کمیونٹی کو اور پوری قوم کو سنوار دیتی ہے‘‘۔